باعزت ریٹائرمنٹ (2)
ریٹائرمنٹ کی عمر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ امریکہ میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں۔ برطانیہ میں 67 سال پر ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔ فرانس میں کچھ سال پہلے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان میں 60 سال کے بعد انسان بے کار ہو جاتا ہے، لیکن کچھ کو پھر کارآمد بنا دیا جاتا ہے اور انہیں وہیں دوبارہ کنٹریکٹ دے دیا جاتا ہے یا کسی اور محکمے میں کھپا دیا جاتا ہے۔ ری کنڈیشننگ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس خیال سے کہ ایک جگہ کارآمد نہیں رہا تو شاید دوسری جگہ کارآمد ثابت ہو جائے۔ ایک عام ملازم 60 سال کی عمر میں ناکارہ ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی سپریم کورٹ (معذرت کے ساتھ) میں جج بن جائے تو وہ 65 سال تک فٹ رہتا ہے اور جہاں Tenure پوسٹ ہوتی ہے تو آدمی پوری مدت کے لئے فٹ سمجھا جاتا ہے، چاہے یہ پانچ سال ہوں یا آٹھ۔ جاب ملنے کے لئے عمر حتیٰ کہ صحت کی بھی کوئی قید نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جاب ہی دراصل فٹنس کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے۔
ریٹائرمنٹ ہر ملازم کی زندگی میں ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ افسری بھی گئی اور ساتھ ہی بڑھاپے کا ٹیگ لگ جاتا ہے، اچھا بھلا افسر دکاندار تک کے لئے ”انکل“ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس حرکت پر کئی دفعہ توبدمزگی بھی ہو جاتی ہے۔بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ سرکاری افسر اور پہلوان کا بڑھاپا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ پہلوان کو اس کا جسمانی اور سرکاری افسرکو ذہنی بوجھ اُٹھا نامشکل ہو جاتا ہے، یہی صورت حال ریٹائرمنٹ کی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے مختلف لوگ مختلف حکمت عملی اپناتے ہیں، بعض تو زندگی سے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں،ان پر اچانک مذہب کا غلبہ ہو جاتا ہے اور وہ داڑھی رکھ لیتے ہیں، شلوار قمیض پہن لیتے ہیں اور پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرتے ہیں، پھر مسجد کمیٹی کے ممبر بن جاتے ہیں۔ عام گنہگار لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کر دیتے ہیں،وہی جن سے دوران ملازمت میل جول فرحت افزاء ہوتا تھا،یوں اپنی طرف سے سارے گناہ بخشا کر جنت کے مستحق ہو جاتے ہیں۔یہ اقتدار کی جنت سے دائمی جنت کا سفر ہوتا ہے۔یہ ریٹائرمنٹ گزارنے کا آسان اور سستا طریقہ ہے، خرچہ بھی کوئی نہیں ہوتا اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کچھ صورت بھی بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ البتہ نچلے نہیں بیٹھ سکتے،انہیں بزعمِ خود اپنا قیمتی تجربہ اور وژڈم شیئر کرنے کا خبط ہوتا ہے، لہٰذا بعض تو آپ بیتی لکھنے کی جسارت کر جاتے ہیں۔
اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح وہ ”دانشور“ بھی بن جائیں گے اور اپنے تجربے اور کارناموں کی دھاک بٹھا دیں گے، لیکن ایسی صورت میں عام قاری کو تو شاید متاثر کر لیتے ہیں، لیکن جنہوں نے دفترں میں آپ کو بھگتا ہے، وہ آپ کا مذاق اُڑاتے ہیں۔اسی طرح اکثر عقلمند لوگ آپ بیتی لکھنے سے پرہیز کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، کیونکہ اس میں دوچار مشکل مقام آتے ہیں۔آپ کو دوران ملازمت اپنے رول کو Justify کرنا پڑتا ہے، جو اکثر کیسوں میں مشکل ہوتا ہے، لیکن دوسری صورت میں انہیں کسی پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ باہمت پلیٹ فارم خود بناتے ہیں اور کچھ کسی بنے بنائے پلیٹ فارم میں گھس جاتے ہیں۔علم سے سرشار بعض لوگ یونیورسٹیوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ اب نجی شعبے میں یونیورسٹیوں کی بہتات ہے اور وہاں علم اور لاعلمی کی بڑی گنجائش ہے۔ کچھ نے ریٹائر ہونے سے پہلے بڑی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے۔ اہم لوگوں سے گہرے تعلقات یا کسی اور محکمے میں تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔بعض تو دوبارہ اسی جنت میں جانے کے لئے اہل ِ اقتدار کا باقاعدہ پیچھا کرتے ہیں اور بعض شخصیات کے بستہ بردار بن جاتے ہیں اور فیض کے حصول تک ہمت نہیں ہارتے،یوں کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ پہلے کس پوزیشن پر تھے،اب ان کی پوزیشن کیا ہو گی؟ان کی سوچ کچھ قلندرانہ سی ہو جاتی ہے۔ بہرحال انہوں نے دوران ملازمت سینئرز کی جو خدمات انجام دی ہوتی ہیں اور ماتحتوں پر جو مہربانیاں کی ہوتی ہیں،ان کے بدلے میں کچھ وصولی تو ضروری ہوتی ہے۔
ریٹائرمنٹ میں دو تین اور مسئلے بھی درپیش ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سوسائٹی کے علاوہ اپنے گھر میں بھی آپ کا مقام اچانک نیچے چلا جاتا ہے۔ بیوی بھی چاہتی ہے کہ آپ جلدی اُٹھیں تو کمرے کی صفائی کرائی جا سکے۔ دوسرے آپ کو مالی مسائل پیش آ سکتے ہیں اورتیسرا وقت گزارنے کا مسئلہ اور پھر سب سے اہم مسئلہ صحت کا ہے،اگر آپ کی صحت ٹھیک ہو اور مالی معاملات بہتر ہوں تو آپ کی باعزت survival کے امکانات کافی ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سپورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کا وقت بہت اچھا گزر سکتا ہے۔اگر آپ سیرو سیاحت کے شوقین ہیں تو دنیا بڑی وسیع اور دلچسپ ہے۔ اگر آپ کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں تو پھر ذہنی طور پر زندہ رہ سکتے ہیں، کیونکہ کتاب سے آپ Wisdom کے ساتھ ساتھ ذہنی تفریح حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ موقع بے موقع بولنے کا ہنر جانتے ہیں، خصوصاً کچھ جھوٹ کا تڑکہ بھی لگا سکتے ہیں تو آپ جہاں بھی جائیں گے،محفل پر چھا جائیں گے،اس سے شاید آپ کا ضمیر مطمئن نہ ہو تو کوئی بات نہیں، اردگرد کے شور میں ضمیر کی آواز خود ہی گم ہو جاتی ہے۔ ہاں اس صورتِ حال میں ایک رسک ہے کہ بعض لوگ آپ کے دعوؤں پر بعد میں ہنس رہے ہوتے ہیں، لیکن ہر چیز میں کچھ نہ کچھ رسک کا عنصر تو ہوتا ہے۔ وقت گزارنا بھی بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔
ہمارے ہاں یورپ کی طرح PUB تو ہیں نہیں،البتہ کلب ہیں،وہ بھی بہت کم اور جہاں بہت کم لوگ رسائی پا سکتے ہیں۔ سستے قہوہ خانے بھی ناپید ہو گئے ہیں، لہٰذا گپ شپ کے لئے مناسب جگہ کی تلاش بہت سارے لوگوں کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔ ویسے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کی شخصیت سے اقتدار کا غلاف اُتر جاتا ہے اور آپ ایک طرح سے ننگے ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کی اصلی شخصیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ممکن ہے آپ خود بھی اس صورتِ حال کا سامنا نہ کر سکیں۔ اس وقت صحیح پتہ چلتا ہے کہ آپ نے زندگی میں کیا کھویا، کیا پایا؟اور آپ کوجو رتبہ سرکار نے دیا، کیا آپ اس کے ساتھ انصاف کر سکے؟اگر اس معاملے میں آپ کو کچھ اطمینان ہے اور اگر آپ کے پلے وژڈم کی کچھ پونجی ہے اور شخصیت میں پختگی اور گہرائی ہے تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں۔ریٹائرمنٹ سے صرف آپ کی شخصیت کا خول نہیں اُترتا،بلکہ بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کے چہروں سے بھی نقاب اُتر جاتا ہے۔ جب آپ کرسی پر ہوتے ہیں تو ماتحتوں میں خوشامد کا مقابلہ ہوتا ہے۔ آپ کی قابلیت، کام سے لگن اور بہت سی غلط اور صحیح خوبیوں کا ذکر عام ہوتا ہے۔ کچھ رضاکارانہ جاسوس بن جاتے ہیں، کچھ آپ پر وفاداری اور اہلیت کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن پھر یکایک سارا منظر بدل جاتا ہے۔ خوشامدی اور وفادار کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ غالباً وہ آنے والوں سے پہلے ہی سرنگ لگا چکے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو وہ بھی منہ موڑ لیتے ہیں، جن پر آپ نے غلط یا صحیح احسانات کئے ہوتے ہیں۔ یہاں حضرت علی ؓ کا قول یاد آتا ہے کہ ”جس پر احسان کرو،اس کے شر سے ڈرو“۔ بہرحال بعض لوگ سمجھدار ہوتے ہیں، وہ باس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک خاص مدت تک مناسب رابطہ رکھتے ہیں۔ اس خیال سے کہ کیا پتہ وہ واپس آ جائیں اور اے سی آر وغیرہ بھی تو لکھوانا پڑ سکتی ہے۔ البتہ جب یہ خطرہ ٹل جائے تو پھر کسی مجبوری کے بغیر سلام دعا لینا بھی غیرضروری ہو جاتا ہے اور غیرضروری کاموں میں وقت ضائع کرنا کسی عقلمند آدمی کا وتیرہ نہیں ہوتا۔(ختم شد)