مومن آغا کا وژن اور داخلی سرکاری ادارے
قیام پاکستان کے فوری بعد اِس نوزائیدہ ملک میں قائم کئے جانے والے اداروں کا مقصد تخلیق اور غرض و غائت پاکستانی عوام کی بہتری اور انہیں قدم قدم پر آسانیاں فراہم کرنا تھا مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس کے سربراہان اور وابستگان کی فکری جہت کی کوئی کل سیدھی نہ تھی‘ فراست اور تدّبر کا فقدان بھی روز افزوں تھا۔ قائد جیسی اعلیٰ و ارفع سیاسی شخصیت بھی داغ مفارقت دے گئی تھی۔ کبھی بیوروکریسی اور کبھی عسکری قیادتیں جمہوریت کو ڈی ریل کرتی رہیں اور کبھی بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار وڈیرے درحقیقت رسہ گیری کر کے عوام کو یرغمال بناتے رہے اور ستم بالائے ستم یہ سلسلہ شہروں سے متصل اور دوردراز کے دیہات او رگاؤں وغیرہ میں آج بھی تھوڑا یا زیادہ جاری ہے۔
کبھی ان جاگیرداروں نے گندم کے چند دانوں کے عوض کروڑوں معصوم اور سادہ لوح عوام کو غلام بنائے رکھا او رکبھی صنعت خشت سازی اور دوسرے نجی اداروں نے انہیں بیگار اور یرغمال بنا کر ان کے خون پسینے سے اپنے محلات تعمیر کئے۔ سرکاری اداروں سے وابستہ نچلے‘ درمیانے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں نے بھی چاندی نہیں سونا بنایا اور اداروں کے استحکام اور ان کی مضبوطی پر توجہ دینے کی بجائے انہیں مسلسل شکست و ریخت سے دوچار کیا۔ آج بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں بلکہ ابتر ہی کہی او رسمجھی جائے گی۔ لیکن مقام اطمینان ہے کہ ماضی میں بھی اور آج بھی کہیں نہ کہیں اعلیٰ افسران کسی نہ کسی طور عوام دوست اور اپنے دل میں جذبہ ترّحم اور ہمدردی ضرور رکھتے ہیں اور ان میں عوام کو ڈیلیور کرنے کی استعداد‘ داعیہ اور جذبہ بھی پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملکی ادارے شکست و ریخت سے دوچار ہونے کے باوصف خدانخواستہ ٹوٹے نہیں زمیں بوس نہیں ہوئے بلکہ قائم دائم ہیں۔
پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن آغا ہیں جن کی زندگی عوام کی دعائیں سمیٹتے گزر گئی۔ ہفتہ دس دن پہلے میرے مہربان‘ مرّبی‘ محسن اور درویش صوفی شاعر اور ایڈیشنل سیکرٹری پریژن (ہوم ڈیپارٹمنٹ) جناب شفقت اللہ مشتاق کا فون آیا تو رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپ چونکہ اس نئے عہدے پر تعینات ہو چکے ہیں پورے پنجاب کی داخلی صورت حال پر بلاشبہ آپ کی پہلے ہی گہری نظر ہے۔ عہدے کے اعتبار سے ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ آپ کا بنیادی فریضہ ہے۔ کہنے لگے بات آپ کی بالکل درست ہے اس وقت میرے بگ باس یعنی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ مومن آغا صاحب ہر سطح پر اور ہر حوالے سے (داخلی) اداروں کے استحکام پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کے عملی مظاہر بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کمشنر (فیصل آباد) کے طور پر خوشگوار اور کامیاب تجربات کئے بلکہ صوبائی سیکرٹری اطلاعات بنے تو بھی اپنی مساعی ً جمیلہ اور استعداد کار بروئے کار لاتے رہے یوں اخبار مالکان اور حکومت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے رہے۔
اور اب بھی پُرعزم ہیں کہ بطور ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ پنجاب کے ہر ادارے کو فعال بنایا جائے گا بالخصوص جیلوں کے نظام کی بہتری پر ان کی توجہ بھرپور ہے نیزہمارے ہاں قائم سول ڈیفنس اور چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں اور میں مومن آغا صاحب کی ہدائت پر وقتاَ فوقتاَ ان اداروں کے سرپرائز وزٹ کرتا رہوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ جیلوں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور میرے دوست اور مہربان آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ اس حقیقت کا اعتراف کریں یا نہ کریں جیلوں میں قباحتیں موجود ہیں۔ قیدی خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات آئے روز اخبارات میں چھپتے ہیں۔ منشیات کی فروخت جیلوں میں ہوتی ہے۔ قیدیوں سے ملنے کے لئے آنے والے لواحقین سے نذرانہ وصول کرنے کے قصے ہمیشہ زبان زدِ عام رہتے ہیں۔ قیدیوں کا کوئی عزیز اسے نقد رقم دے تو قیدی کو نہیں دی جاتی بلکہ اس کا ٹوکن دے دیا جاتا ہے۔
میں نے جناب شفقت اللہ مشتاق سے یہ بھی عرض کیا کہ کئی سالوں سے سنتے چلے آئے ہیں کہ جیل میں بند شادی شدہ قیدیوں سے مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ان کی بیویوں سے بھی ارتباط عمل کروایا جائے گالیکن یہ اعلان‘ اعلان ہی رہا ہے اس پر عملدرآمد کی بابت جب بھی پوچھا جاتا ہے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ کہنے لگے دو تین دن بعد میں کچھ بتاؤں گا۔ چنانچہ میں نے چار پانچ روز گزر جانے کے بعد پوچھا تو کہنے لگے میں گزشتہ سوموار کو اڈیالہ جیل کے دورے پر بھی گیا اور راولپنڈی میں قائم سول ڈیفنس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے دفاتر کا سرپرائز وزٹ کیا تھا۔ سچی بات ہے کہ مجھے کسی قسم کی ہینکی پینکی نظر نہیں آئی نہ صرف صفائی ستھرائی مثالی تھی بلکہ قیدیوں کو فراہم کی جانے والی خوراک بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تھی۔ میں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ جیل اعجاز اصغر اور ان کے ماتحت افسران کو لیکچر دیا بلکہ انہیں خداتعالیٰ کے خو ف کا احساس بھی دلایا۔ شفقت اللہ مشتاق نے کہا کہ صرف ایک قیدی نے جس کی قید ختم ہو چکی ہے لیکن اس کی رہائی عمل میں نہیں آ رہی تھی کی شکائت پر فوری طور پر احکامات جاری کئے اور اس راستے میں حائل تمام قانونی رکاوٹوں کو فی الفور ختم کرنے کی ہدائت کی انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن کا ادارہ بہتر طور پر کام کر رہا ہے جبکہ سول ڈیفنس کے محکمے پر بڑی گہری توجہ درکار ہے لیکن بہت جلد درپیش مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک اور بڑا معتبر ادارہ سوشل سیکورٹی کا ہے جو مزدوروں کے حقوق اور ان کی بہبود کا ضامن ہے
مگر آپ بتائیں کہ آپ فیصل آباد میں اپنی سروس کا بیشتر حصہ گزار چکے ہیں کتنے پرائیویٹ ادارے ہیں جو مزدوروں کو ان کے حقوق دیتے ہیں سرے سے ان کے سوشل سیکورٹی کارڈ تک نہیں بنواتے۔کہنے لگے انشاء اللہ سب چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔ جناب ایڈیشنل چیف سیکرٹری مومن آغا اس حوالے سے انتہائی پُرعزم ہیں وہ داخلی حوالوں سے بہت سی اصلاحات اپنے ذہن میں رکھتے ہیں ایک قابل اور نیک آفیسر ہیں جو دھیمے مزاج اور تحمل و بردباری سے معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ شفقت اللہ مشتاق گویا ہوئے کہ اداروں میں کام بھی ہو رہا ہے اور افسران کی نیک نیتی پر شبہ بھی نہیں کیا جانا چاہیے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہونے والے کام کی مناسب کوریج نہیں ہو پاتی اور عوام تک منفی چیزیں تو پہنچ جاتی ہیں، جبکہ اچھی اور مثبت چیزیں تشہیر نہ ہونے کے باعث دب جاتی ہیں، لیکن الحمد للہ ترقی معکوس نہیں، بلکہ ارتقاء کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور جناب مومن آغا کی قیادت میں ہمارا یہ سفر جاری رہے گا۔