آج اِس خدا کے ساتھ ہیں ، کل اُس خدا کے ساتھ
خود کو بدلتے ہیں یہ بدلتی ہوا کے ساتھ
نوکِ سناں پہ دیکھے سرِ کشتگانِ عشق
دل بھی بدستِ عشق تھا تیرِ جفا کے ساتھ
کرتی ہے تیغ فیصلہ دونوں کے درمیاں
دستِ تہی بھی دیکھا ہے دستِ دعا کے ساتھ
غمزوں پہ اُس کی رندِ بلا نوش ہیں نثار
اور پارسا بھی مست ہیں اُس کی ادا کے ساتھ
رنگِ حنا کو دیکھ کے ہم خوش تو ہیں مگر
شامل ہمارا خوں بھی ہے رنگِ حنا کے ساتھ
تدبیر نے تو توڑی ہے زنجیرِ پا مگر
تقدیر بھی تو لِپٹی ہے زنجیرِ پا کے ساتھ
خوئے وفا ہے جعفری میری سرشت میں
میں نے وفا نبھائی ہے ہر بے وفا کے ساتھ
کلام : ڈاکٹر مقصود جعفری(اسلام آباد)