سنہرے خواب مہنگائی کے ہاتھوں ملیا میٹ ہوتے نظر آئے تو انار  کلی چلا اٹھی

سنہرے خواب مہنگائی کے ہاتھوں ملیا میٹ ہوتے نظر آئے تو انار  کلی چلا اٹھی
سنہرے خواب مہنگائی کے ہاتھوں ملیا میٹ ہوتے نظر آئے تو انار  کلی چلا اٹھی

  

تحریر : روح اللہ سید

شہزادہ سلیم محل کے جھروکے میں بیٹھے صبح سویرے باد نسیم  اور دریائے راوی سے اٹھنے والی لہروں کے پرسکون نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ابھرتے سورج کی کرنوں کی دریا کے پانی پر سنہری عکس ماحول کو پر کیف بنا رہا تھا، شہزادہ ماحول سے تو حظ اٹھا رہا تھا مگر دل بجھا بجھا سا تھا۔

ایسے میں ذرا فاصلے پر پائل کی جھنکار گونجی تو شہزادے کا دھیان پلٹا۔ صحن کی جانب نگاہ پڑی تو انار کلی کسی کام سے پائیں باغ کی جانب جاتی نظر آئی۔ 

شہزادے نے دائیں بائیں وفادار محافظوں کے سوا کسی اور کو نہ پایا تو کنیز خاص انار کلی کو بے اختیار ہی آواز دے ڈالی۔ 

انار کلی کے کانوں سے زیادہ دل نے شہزادے کی سرگوشی نما آواز سنی تو فوراً پلٹی،مخبری کا ڈر تو اسے بھی تھا کہ اگر شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کو معلوم ہو گیا تو شاہی عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا جو ایک کنیز کیلئے موت سے کیا کم ہوتا۔ انارکلی نے چوکنی نظروں سے دائیں بائیں دیکھا شہزادے کے بااعتماد محافظوں کو نظروں میں جانچا، دل کو تسلی ہوئی تو محتاط قدموں سے چلتی شہزادے کے قریب آ گئی۔

شہزادہ تو جیسے انارکلی کیلئے پہلے ہی بے تاب تھا، بے اختیار استقبال کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔ محبت کرنے والے دو دلوں کو قربت کے لمحات میسر آئے تو ماحول جیسے یکایک گل رنگ ہو گیا۔

بے چین سے لہجے میں شہزادہ گویا ہوا، انار کلی! بخدا تم آئی ہو تو دل کو قرار آیا ہے، تمھیں 2 دن سے نہیں دیکھا تو سمجھو گہرے اندھیروں میں اتر گیا تھا، باہر چاہے آفتاب اجالے بکھیر رہا ہے مگر میرا دن تو تمھارے آنے سے روشن ہوا، جان نہیں پاؤ گی تمھارے دیدار کے بناء گذشتہ 2 راتیں اور 2 دن آنکھوں میں کاٹے۔

ادائے دلربا سے انارکلی نے جھکی پلکیں اٹھائیں، لب پھڑپھڑائے، شہزادہ عالم! کیسے کہوں، میرے دل کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، آپ کے بناء یہ زندگی کم اور وحشت زیادہ لگتی ہے۔ کوئی لمحہ نہیں گزرتا جی میں آتا ہے کہ ساری بندشیں توڑ دوں اور ساری زندگی ان جان لیوا لمحات میں کٹ جائے۔

بانہوں میں بھر لینے کے ارمان تو شہزادے کے دل میں بھی تھے مگر شاہی آداب کا لحاظ تھا، بولا، انار کلی! بس اب مجھ سے مزید جدائی برداشت نہیں ہوتی، تمھاری قسم، میرے دل کے سنگھاسن پر صرف تمہارا قبضہ ہے۔ ہندوستان کی نہ سہی میرے دل کی ملکہ تو تمھی ہو۔ اور وعدہ رہا جونہی ممکن ہوا، سلطان معظم ابا حضور کے بعد تو تخت مجھے ہی ملنا ہے، تمھیں ہندوستان کی ملکہ نہ بنایا تو ہمارا نام بدل دینا۔

ہندوستان کی ملکہ کے الفاظ نے کنیز خاص کے کانوں میں رس گھول دیا، اس خیال سے ہی جھوم اٹھی کہ سلطنتِ ہند کے چشم و چراغ اور مستقبل کے بادشاہ کیساتھ شاہی تخت پر جلوہ افروز ہو گی، بولی شہزادہ عالم! دوسروں کے بادشاہ چاہے ظل سبحانی اکبر ہی ہوں، میرے دل کے شہنشاہ تو آپ ہی ہیں۔  بس انتظار ہے اس وقت کا جب آپ کی شاہی دربار آمد پر با ادب با ملاحظہ ہوشیار کا اعلان شاہی القابات کے ساتھ ہو اور میں آپ کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر شاہی فرمان جاری کروں گی۔

شہزادہ بھی انار کلی کی اس دلفریب منظر کشی میں کھو گیا کہ یکایک انار کلی نے سوال اٹھایا، میرے دل کے شہنشاہ، ہمارے بچے کتنے ہوں گے؟

شہزادہ سلیم نے اپنی عالی فطرت کے مطابق جواب دیا، انار کلی جتنا پیار ہم تم سے کرتے ہیں، بچے تو ہمارے زیادہ ہی ہوں گے، سمجھ لو 2 درجن سے کسی طور کم نہیں۔

انار کلی یہ سن کر گھبرا ہی گئی، بولی، میرے دل کے شہنشاہ! اتنے زیادہ بچے کیونکر ممکن ہیں۔ ابھی گذشتہ رات ہی تو پیٹرول کے ریٹ میں پورے 35 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے، ہر چیز کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں، اتنے بچوں کا خرچ کیسے اٹھا پائیں گے۔

شہزادے نے سنا تو ذرا پریشان ہو کر پہلو بدلا، اچھا تو ڈیڑھ درجن۔

انار کلی کی آواز کچھ بلند ہوئی، شہزادہ عالم، آپ تو جانتے ہیں، گیس 45 فیصد مہنگی ہونیوالی ہے، یہ بھی تو مدنظر رکھیں، خرچہ ابھی بھی پورا نہیں ہو گا۔ فیصلے پر نظر ثانی کیجئے۔

شہزادہ سلیم مزید الجھا، بولا، اچھا تو ایک درجن ٹھیک ہیں؟

انارکلی شاید وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس ابھی ابھی سن کر آئی تھی، ہر چیز یاد تھی، فوراً بولی، شہزادے، گرمیاں آنیوالی ہیں، ابھی بجلی بھی مہنگی ہونی ہے، بچے مزید کم کریں، اتنا خرچ کیسے برداشت کریں گے آپ؟

شہزادہ سلیم پھر بے چین ہوا، قبل اس کے کہ الفاظ لبوں سے ادا ہوتے، وفادار محافظ نے اطلاع دی کہ شاہی باورچی بارہ دری سے گزر رہا ہے، انار کلی کو اوٹ میں کر دیا جائے۔

شہزادہ سلیم کے اشارےپر انار کلی پسِ دیوار جا چھپی، شہزادے نے شاہی باورچی کو جاتے دیکھا تو سوچے سمجھے بناء طلب کر کے دوپہر کے کھانے میں متنجن بنانے کی فرمائش کر ڈالی۔

متنجن سنتے ہی شاہی باورچی کے مزاج بگڑے، ذرا تلخی سے بولا، شہزادہ عالم، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پیٹرول مہنگا ہونے سے چاولوں سمیت دیگر اشیا ءکے دام بھی کافی چڑھ گئے ہیں، شہنشاہ عالم نے دوپہر کے کھانے میں چنے کی دال اور سادہ چاول بنوائے ہیں، وہی تناول فرمائیے گا۔ 

  ہونہہ، پلے نیئں تیلہ تے کردے میلہ میلہ (جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں اور میلے منانے کا بڑا شوق ہے)۔ شہزادے کو ترش لہجے میں دال چاول کا مژدہ سنا کر شاہی باروچی پنجابی کا مشہور محاورہ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔

انار کلی پورے انہماک سے ساری گفتگو سن رہی تھی، شاہی باورچی کے جاتے ہی اوٹ سے نکلی۔ بولی، شہزادہ سلیم، کیا شاہی باورچی خانے میں کھانے پینے کے لوازمات ختم ہو رہے ہیں جو باورچی نے آپ کو بے ادبی سے کھری کھری سنا دیں۔

شہزادہ خود بدلی صورت حال سے پریشان تھا، انجانے میں ہی اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔ انار کلی نے یہ معاملہ دیکھا تو اس کو چشم تصور میں اپنا آپ پھٹے پرانے کپڑوں میں، شاہی تخت پر ہی سہی مگر اجڑے اجڑے سے بادشاہ سلیم کے ساتھ بیٹھا نظر آیا تو اس کو جھرجھری آ گئی۔ سنہرے خواب جو یوں مہنگائی کے ہاتھوں ملیا میٹ ہوتے نظر آئے تو انار  کلی چلا اٹھی۔ ابے او سلیم، کیسی تیری بادشاہی اور کیا فائدہ تجھ جیسے کنگلے بادشاہ کی ملکہ بننے کا، جا کسی بھکارن سے شادی کر لے، میری جانب نظر نہ اٹھانا۔

یہ کیا سن لیا، بوکھلائے شہزادہ سلیم کا منہ حیرت سے کھلتا چلا گیا، عالم بے یقینی میں بولا! جانِ من، تم ہم سے عشق نہیں کرتیں۔ خبردار، انارکلی دھاڑی، خبردار جو مجھے آئندہ کبھی جانِ من کہا۔ گلاب جامن تک تو کھلانے کی اوقات نہیں، چلا ہے 2 درجن بچے پالنے۔ 

دروغ بر گردنِ راوی، کہتے ہیں اس کے بعد انار کلی ہندوستان میں کبھی نظر نہیں آئی، شہزادہ سلیم نے شہنشاہ اکبر کے ساتھ ملی بھگت کر کے دیوار میں چنوانے کا جھوٹا دعویٰ کر کے انار کلی کے قصے سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑوا لی۔  

نوٹ: اس واقعے کے کرداروں کی کسی سے مماثلت حادثہ تصور ہو گی، قارئین زیادہ غوروخوض نہ  کریں ۔

مزید :

لافٹر -ادب وثقافت -