”اگر مجھے ایسی 4 ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“

”اگر مجھے ایسی 4 ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“
”اگر مجھے ایسی 4 ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“

  

مشتاق احمد یوسفی

ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہے کہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیاکہ میں جوقوالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جو محفل سماع کو رونق بخشتے ہیں اور نہ میرا یہ دعویٰ کہ میں نے پیانو اور پلنگ کے درمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کر لیا ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ پہلی باربان کی کھچّی چارپائی کی چرچراہٹ اور ادوان کا تناؤ دیکھ کربعض نووارد سیاح اسے سارنگی کے قبیل کا ایشیائی ساز سمجھتے ہیں۔ کہنا یہ تھا کہ میرے نزدیک چارپائی کی دلکشی کا سبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پر اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے شخصی اور قومی مزاج کے پرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے کہ کسی شخص کی شائستگی وشرافت کا اندازہ آپ صر ف اس سے لگا سکتے ہیں کہ وہ فرصت کے لمحات میں کیا کرتا ہے اور رات کو کس قِسم کے خواب دیکھتا ہے۔ 

چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہے جو نئے تقاضوں اور ضرورتوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے نت نئی چیزیں ایجاد کرنے کی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسے نازک مواقع پر پرانی میں نئی خوبیاں دریافت کرکے مسکرا دیتی تھی۔ اس عہدکی رنگارنگ مجلسی زندگی کا تصور چارپائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا خیال آتے ہی ذہن کے افق پر بہت سے سہانے منظر ابھر آتے ہیں۔ اجلی اجلی ٹھنڈی چادریں، خس کے پنکھی، کچی مٹی کی سن سن کرتی کوری صراحیاں، چھڑکاؤسے بھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کے لدے پھندے درخت جن میں آموں کے بجائے لڑکے لٹکے رہتے ہیں اور ان کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پر دن بھر شطرنج کی بساط یارمی کی پھڑجمی اور جو شام کو دسترخوان بچھاکر کھانے کی میز بنا لی گئی۔ 

ذرا غور سے دیکھئے تو یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بناکر سگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلنلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقت ضرورت پٹیوں سے بانس باندھ کر اسٹیریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑ جائے تو انھیں بانسوں سے ایک دوسرے کو اسٹیریچر کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ سے لگ جائے تو تیماردار مؤخرالذِکر کے وسط میں بڑا سا سوراخ کرکے اول الذِکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں اور جب ساون میں اودی اودی گھٹائیں اٹھتی ہیں توادوان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھولتے ہیں۔ اسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب قمچی کے ذریعے اخلاقیات کے بنیادی اصول ذہن نشین کراتے ہیں۔ اسی پر نومولود بچے غاؤں غاؤں کرتی، چندھیائی ہوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ 

اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ بعض حضرات اس مضمون کو چارپائی کا پرچہ ترکیب استعمال سمجھ لیں گے تو اس ضمن میں کچھ اور تفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکا ہوں، یہ مضمون اس تہذیبی علاقت کا قصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظراحتیاط اتنی وضاحت ضروری ہے کہ، 

ہم اس نعمت کے منکر ہیں نہ عادی 

نام کی مناسبت سے پائے اگر چار ہوں تو مناسب ہے ورنہ اس سے کم ہوں، تب بھی خلق خدا کے کام بند نہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کے حجم اور شکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنے رکھ کر آپ غبی سے غبی لڑکے کو اقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں اوراس مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کو احساس ہوگا کہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کا صرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصوری میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ دیہات میں ایسے پائے بہت عام ہیں جو آدھے پٹیوں سے نیچے اور آدھے اوپر نکلے ہوتے ہیں۔ ایسی چارپائی کا الٹا سیدھا دریافت کرنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”الٹا“ ہوگا۔ راقم الحروف نے ایسے ان گھڑپائے دیکھے ہیں جن کی ساخت میں بڑھئی نے محض یہ اصول مدنظر رکھا ہوگا کہ بسولہ چلائے بغیر پیڑ کو اپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سے وصل کر دیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سے خراد کے بنے ایسے سڈول پائے بھی گزرے ہیں جنھیں چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہتا ہے۔ اس قسم کے پایوں سے نٹو مرحوم کو جو والہانہ عشق رہا ہوگا اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک دوست سے ایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ کہنے لگے، 

”اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“

(جاری ہے )

مزید :

لافٹر -ادب وثقافت -