آخر انسان کس کس کی لاشوں کو راہ گزر سے ہٹا کر اپنے لیے راستہ بناتا رہے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:5
ابا جان نے اس نہ بھولنے والے سفر میں جو کچھ دیکھا، اس کا تذکرہ انہوں نے بعد میں ایک ریڈیو انٹرویو میں بھی کیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح وہ بار بار اپنا سرکاری گاڑیوں کا قافلہ روکتے ، گاڑیوں سے اترتے اور راہ میں جا بجا بکھری ہوئی درجنوں لاشوں کو گھسیٹ کر سڑکوں سے ہٹاتے اوراپنے لیے راستہ بنا کر آگے بڑھتے تھے ۔یہ سلسلہ بہت طوالت اختیار کرگیا اور حالات کافی تکلیف دہ ہو گئے ۔ان کو بار بار رکنا پڑتا تھا اور جب یہ ان کی مقررہ رفتار اور کراچی پہنچنے کی تاریخ پر بھی اثر انداز ہونے لگا تو انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ سب کچھ کرنا بھی چھوڑ دیا۔جہاں تک ممکن ہوا، لاشوں کی بے حرمتی سے بچ بچا کر نکلنے کی کوشش کرتے رہے ۔پھر بھی بعض اوقات انہیں بچھی ہوئی لاشوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا ۔ آخر انسان کس کس کی لاشوں کو راہ گزر سے ہٹا کر اپنے لیے راستہ بناتا رہے!
انہوں نے انٹرویو میں مسلمانوں اور خصوصاً خواتین پر ظلم و تشدد اوربربریت کی ایسی ایسی داستانیں بیان کیں کہ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے خود اُن کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی تھیں ۔کہتے تھے کہ فوج کی طرف سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اِس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے لیے کچھ نہ کرسکتے تھے ۔ان کو کہیں رکنا بھی منع تھا اور ہر صورت چلتے ہی جانا تھا تاکہ ایک مقررہ وقت پر یہ ٹینک اور گاڑیاں کراچی پہنچا سکیں۔
ان کا کمانڈر ایک نوجوان پٹھان میجر تھا ۔ وہ بظاہر یہ ظلم برداشت نہ کرسکا اور جنونی کیفیت میں بار بار چیخ کر اپنے غصّے کا اظہار کرتا رہتا تھا ۔ دوران سفر، وہ ایک ایسے گاو¿ں میں سے گزرے جہاں سڑک کنارے ایک چھپر تلے چوبی ستون کے ساتھ ایک نوجوان مسلم لڑکی کو نیم برہنہ حالت میں باندھ کررکھا ہوا تھا اورقریب ہی سکھوں کا ایک جتھا شراب نوشی میں مصروف تھا ۔انہیں اس بات کا علم تھا کہ فوج کے جوان ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ سرکار کی طرف سے واضح حکم تھا کہ کسی بھی حالت میں فوج کی طرف سے گولی نہیں چلنا چاہیے ۔ لہٰذا انہوںنے ان فوجیوں پر بھی آوازے کسے اور اس مظلوم عورت کے حوالے سے کچھ نا مناسب الفاظ بھی کہہ کر گویا ان کو للکارا گیا ۔
پٹھان کمانڈر یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکا۔ اس نے غصّے اور غم کی کیفیت میں چیخ کر اپنے ٹینک کے بندوقچی کو حکم دیا کہ اتنے سنگین ظلم میں شامل ان تمام لوگوں کو بھون ڈالے ۔ جونیئر افسروں نے دبے لفظوں میں سمجھایا کہ ایسا کرنے سے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا ۔ یوں تو سب ہی غصّے سے بھرے بیٹھے تھے تاہم سرکاری حکم کی وجہ سے انتہائی بے بس تھے۔بندوقچی بھی پہلے تو ہچکچایا ، مگر حکم کمانڈر کا تھا جو انتہائی ہذیانی کیفیت میں بار بار بلند آواز میں اسے فائرنگ کرنے کا حکم دے رہا تھا ۔ پھر اس نے ویسا ہی کیا جیسا کہا گیا تھا ۔ وہاں سے کوئی بھی زندہ اٹھ کر واپس نہ جا سکا ۔شراب کے نشے میں دھت شریک جرم بدمعاشوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ۔ مسلمان لڑکی کو کھول کر کچھ تن ڈھانپنے کا بندوبست کیا ، کچھ کھانے کو دیا اور وہاں سے فوجی گاڑی میں بٹھا کر کچھ دور سڑک پر چلتے ہوئے ایک قافلے میں شامل کراتے ہوئے آگے اپنی منزل کی طرف نکل گئے۔
کراچی آمد کے کچھ ہی دنوں بعد ان کی یونٹ کے باقی ماندہ افراد بھی آہستہ آہستہ مختلف راستوں سے پاکستان آ پہنچے ۔پھر ان کی تعیناتی پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے ذاتی حفاظتی دستے میں ہو گئی، جسے اس وقت ”گورنر جنرل باڈی گارڈز“ کہا جاتا تھا ۔ صرف ایک سال ہی کے بعد قائد کا انتقال ہو گیا ۔ان کی وفات کے بعد جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل مقرر ہوئے تو ابا جان ان کے ساتھ بھی اپنی و ہی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ۔ چونکہ فوج میں ان کاعہد ہ محض ایک سپاہی کا تھا اس لیے ان کو کراچی میں کوئی رہائشی کوارٹر نہیں ملا تھا اور وہ فوجی بارک میں ہی رہتے تھے جب کہ ہم لوگ اپنی ماں کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے ۔ تاہم جیسے ہی ان کی ترقی ہوئی اور ان کو حوالدار کا عہدہ ملا تو ان کو بھی ایک چھوٹا سا 2کمروں کا گھر الاٹ ہو گیا تھا۔ بس اب ہم سب اسی گھر میں رہنے کے لیے گاؤں سے بلوائے گئے تھے۔
جب میں یہاں آیا تھا تو 5 برس کا تھا اوراب جب یہ سب کچھ تحریر ہو رہا ہے تو عمر کے گھڑیال کی سوئیوں نے 70 بجادیئے ہیں اور اِن دونوں کے بیچ میں جو بسر ہوئی،وہ میری زندگی ہے۔ جو کچھ بچپن میں سمجھ نہ آتا تھا آگے چل کر واضح ہوتا گیا ،اس لیے اتنے اعتماد سے گزر جانے والے وقت کے بارے میں لکھا ہے کیوں کہ اس میںزیادہ تر میرے ذاتی مشاہدات بھی ہیں۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )