یہ صرف مقرر کے الفاظ یا شعلہ بیانی کا اثر نہیں تھا بلکہ اسکی شخصیت اور آواز کا جادو بھی تھا جو روح کی گہرائی میں اتر کر گھنٹی کی طرح گونجتا تھا

یہ صرف مقرر کے الفاظ یا شعلہ بیانی کا اثر نہیں تھا بلکہ اسکی شخصیت اور آواز کا ...
یہ صرف مقرر کے الفاظ یا شعلہ بیانی کا اثر نہیں تھا بلکہ اسکی شخصیت اور آواز کا جادو بھی تھا جو روح کی گہرائی میں اتر کر گھنٹی کی طرح گونجتا تھا

  

مصنف : اپٹون سنکلئیر

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

 قسط:152

جذبات کی شدت سے مقرر کا گلا رندھ گیا۔ اس نے بانھیں بلند کر رکھی تھیں اور لگتا تھا جیسے اس کے کشف کی طاقت نے اسے زمین سے بلند کر دیا ہے۔سامعین اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ آدمی بازو ہلا ہلا کر چیخ رہے تھے اور خوشی سے ہنس رہے تھے اور یورگس بھی ان میں شامل تھا۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلّارہاتھا۔ اس کے احساسات کا تناؤ اس کی سہار سے زیادہ تھا۔ یہ صرف مقرر کے الفاظ یا اس کی شعلہ بیانی کا اثر نہیں تھا بلکہ اس کی شخصیت اور اس کی آواز کا جادو بھی تھا جو روح کی گہرائی میں اتر کر گھنٹی کی طرح گونجتا تھا۔ جو سامع کو اپنی گرفت میں لے کر جھنجھوڑ دیتا تھا۔ اسے اس احساس سے آشنا کرتا تھا جو اس کے لیے کسی اور دنیا کا اور بالکل اجنبی تھا۔ اس کے سامنے ایک نیا منظر کھولتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو محض ایک آدمی نہیں سمجھ رہا تھا۔۔۔ اسے اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا سانس تیز اور بوجھل ہوگیا تھا۔اس آدمی کی باتیں یورگس کے لیے یوں تھیں جیسے بادلوں کی گرج۔ جذبات کا ایک امڈا ہوا طوفان تھا۔ زندگی بھر جو اس پر گزری تھی، دکھ، رنج اور مایوسیاں یورگس کی آنکھوں کے سامنے پھر گئیں لیکن ایک نئے جذبے کے ساتھ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ دکھ اور تکلیفیں جو ایک انسان کو نہیں سہنی چاہئیں۔ ” ان لوگوں کی سزا ہے۔“ پیغمبر  نے کہا ” جو جسم کو قتل کرتے ہیں لیکن ان کی کیا سزا ہے جو روح کو قتل کرڈالتے ہیں ؟ “ اور یورگس ہی وہ آدمی تھا جس کی روح کو قتل کردیا گیا تھا،جس سے امید اور جدوجہد چھین لی گئی تھی۔ جسے ذلت اور مایوسی سے مصالحت پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اور اب ایک لمحے میں یہ تلخ حقیقت اس کی آنکھوں کے سامنے کھل گئی تھی۔ جیسے اس کی روح کے سارے ستون یک لخت ڈھے گئے تھے۔ آسمان شق ہوگیا تھا۔۔۔ وہ مٹھیاں بھینچے بازو بلند کیے کھڑا تھا، اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں،چہرے کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ وہ پاگلوں اور وحشیوں کی طرح چیخ رہا تھا۔جب چیخ چیخ کر اس کا گلا بیٹھ گیا اور وہ گھُٹی گھُٹی آواز میں کہتا رہا، ”خدا کی قسم ! خدا کی قسم ! خدا کی قسم ! “

وہ آدمی پلیٹ فارم پر موجود اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور یورگس کو اندازہ ہوا کہ اس کی تقریر ختم ہو چکی ہے۔ کئی منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر کسی نے کوئی گیت گانا شروع کیا، سب لوگ اس کا ساتھ دینے لگے اور پورا ایوان اس سے گونجنے لگا۔ یورگس نے یہ گیت پہلی بار سنا تھا اس لیے اسے الفاظ کی سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن اس کی پرجوش روح نے اسے گرفت میں لے لیا۔ یہ دراصل مارسی ایس تھا ( Marseillaise،فرانس کا قومی ترانہ جو 1792 میں لکھا گیا : مترجم )۔ وہ ساکت بیٹھا اس کے بند سنتا رہا۔ اسے زندگی بھر ایسے ہیجان سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اس کے وجود کے اندر ڈھل رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا سوائے اس کے کہ اس کے اندر ایک نئے آدمی کا جنم ہوا ہے۔ کسی نے اسے ظلم کے جبڑوں سے چھڑا لیا تھا۔ کسی نے اسے مایوسی کی غلامی سے نجات دلا دی تھی۔اس کے لیے تو ساری دنیا ہی بدل گئی تھی۔۔۔ وہ آزاد ہو گیا تھا، وہ آزاد ہو گیا تھا ! چاہے اسے پہلے کی طرح تکلیفیں ہی سہنی پڑیں، چاہے اسے بھیک مانگنا اور بھوکا رہنا ہی پڑے، پھر بھی اب پہلے جیسا کچھ نہیں رہا تھا۔ اسے بات سمجھ میں آگئی تھی، اب وہ اسے سہ سکتا تھا۔ اب وہ حالات کے رحم و کرم پر نہیں رہے گا، وہ اپنی مرضی اور مقصد کے ساتھ جیے گا۔ اب اس کے پاس جدوجہد کا کوئی مقصد تھا، اور اگر ضرورت پڑے تومرنے کی کوئی وجہ بھی تھی! اب وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے دوست اور ساتھی بھی تھے۔وہ انصاف کی نظر میں رہے گا اور طاقت کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر چلے گا۔

سامعین خاموش ہوگئے اور یورگس بھی بیٹھ گیا۔ جلسے کا صدر آگے آیا اور بولنے لگا۔ پہلے مقرر کے بعد اس کی تقریر میں کوئی کشش نہیں تھی۔ آخر اس آدمی کے بعد کسی کو بولنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔ وہ سب خاموشی سے بیٹھ کیوں نہیں جاتے ؟ صدر کَہ رہا تھا کہ اب جلسے کے اخراجات پورے کرنے اور پارٹی کے کمپین فنڈ کے لیے چندہ جمع کیا جائے گا۔ لیکن یورگس کے پاس تو ایک پیسا بھی نہیں تھا۔

( جاری ہے ) 

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -