نازک اندام ، سیدھے سادے اور شرمیلے برگساں کے خیالات نے نئی اور پرانی دونوں دنیاؤں کے فکری حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی

تحریر: ظفر سپل
قسط:109
1898ءمیں برگساں کو ایکول نارملے میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ 1900ءمیں فرانس کالج (College de France) نے اسے یونانی اور رومن فلسفے کی مسند (Chair of Greek and Roman Philosophy) پیش کی، جو 1904ءتک اس کے پاس رہی۔ بعد میں اسے ماڈرن فلسفے کی مسند (Chair of Modern Philosophy)عطا ہوئی، جس پر وہ 1920ءتک تعینات رہا۔
1903ءمیں برگساں نے ایک اہم مقالہ ”مابعد الطبعیات کا تعارف“ (Introduction to Metaphysies) لکھا۔ کہنا چاہیے کہ اس مقالے میں اس نے اپنے فلسفیانہ نظام اور اپنی آنے والی اہم کتاب” تخلیقی ارتقاء“کا ابتدائیہ پیش کیا تھا۔
برگساں کا تیسرا بڑا کام اس کی سب سے اہم کتاب ”تخلیقی ارتقاء“ (Creative Evolution) کی صورت میں1907ءمیں پیش کیا گیا۔ 1907ءسے 1918ءتک، 10 سالوں میں ، اس کتاب کے 21 ایڈیشن شائع ہوئے، یعنی ہر سال تقریباً دو ایڈیشن۔ اس کتاب نے فلسفیانہ خیالات کے ایک نئے دھارے کو جنم دیا اور برگساں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
”تخلیقی ارتقاء“ میں پیش کردہ فلسفیانہ نظام کو ”حیویت“ (Vitalism) کا نام دیا گیا ہے۔ برگساں کہتا ہے کہ تخلیقی ارتقاءہی زندگی ہے۔۔۔ ارتقائی نمو ہی زندگی ہے اور اس پر مزید یہ کہ جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں انسان آزاد ہے اور اپنے ارادے کا خود مالک ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقاءکو ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہوئے یہ مان لینا چاہیے کہ انسان بقائے اصلح کی خود غرض اور بے رحم جدوجہد میں ایک میکانکی کھلونا نہیں ہے۔ حیات کے اپنے قوانین ہیں۔ وہ طبعیات اور کیمیا کے قوانین کے تحت سفر نہیں کرتی۔ اس کے برعکس ایک برقی رو ہے، جو حیات کو متحرک رکھتی ہے۔ اس میں جان ڈالتی ہے۔ برگساں نے اسے خوبصورت نام دیا ہے ۔ ”جوش ِ حیات“ (Elan Vital) ۔ زندگی کی یہ لہر انسان کو ارتقاءکے راستے پر آگے اور اوپر لے جاتی ہے اور یہ قوت، یہ لہر انسان کے باہر نہیں، اس کے اند رہے۔ وہ ہر مزاحمت کو دور کرنے اور ہر رکاوٹ پر غالب آنے پر قادر ہے۔ حتیٰ کہ موت پر بھی۔ جسم کے ساتھ دماغ بھی فنا ہو جائے گا، مگر ”جوشِ حیات“ لافانی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ سرکتی کائنات کے فرش ارتقاءپر یہ قوت راہیں بناتی چلی جاتی ہے۔ کائنات کو ہر لمحہ متغیر رکھتی ہے۔۔۔ ایک دشت ِ امکان ہے، جو اس کے سامنے کھلا رہتا ہے۔ ”جوشِ حیات“ کے لیے کچھ بھی کر گزرنا ناممکن نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ انسان جلد ہی لافانیت کے مراحل میں داخل ہو جائے۔ اس لیے کہ انسان وقت میں زندہ نہیں رہتا، بلکہ وقت انسان میں زندہ رہتا ہے۔ وہ وقت کہ جس کا رخ نہیں بدلا جا سکتا، وہ وقت جو صرف آگے بڑھتا ہے، ہم اسے پیچھے نہیں لے جا سکتے۔ اور یہ بھی کہ نمو تنزلی نہیں، تکرار نہیں۔ نمو ترقی ہے۔
اس نازک اندام ، سیدھے سادے اور شرمیلے شخص کے خیالات نے نئی اور پرانی دونوں دنیاؤں کے فکری حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ وہ مادیت کے فکری دیوتاؤں کو نشانہ بنا رہا تھا۔ اس زمانے میں جب ”بدن“ یا ”ظاہر“ کے بیان کا رواج تھا، یہ پروفیسر ”روح“ کا نرمی اور سنجیدگی سے ذکر کر رہا تھا۔ اس کے لیکچر نہایت مقبول ہوئے۔ جب وہ ہال میں داخل ہو کر لیمپ کے پیچھے بیٹھ کر بات شروع کرتا تو ہال میں مکمل خاموشی چھا جاتی، بلکہ ایک پرسرار سی کپکپی لوگوں پر طاری ہو جاتی۔ اس کے ہاتھوں میں کوئی نوٹس نہ ہوتے تھے۔ اس کی زبان صریح اور نغمہ بار ہوتی۔ وہ نپے تلے لہجے میں پورے وقار کے ساتھ بغیر کسی عجلت کے بولتا چلا جاتا۔ اپنے جملوں کو اس قدر آسانی سے بنا لیتا کہ کم ہی لوگوں کو زبان و بیان پر اس کی طرح کی دسترس حاصل ہوئی ہے۔ وہ جلد ہی لوگوں میں مقبول ہو گیا۔ اس لیے کہ وہ امیدوں کی حمایت پر کمربستہ ہوا تھا، جو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ بیدار رہتی ہیں۔ جب لوگوں کو یہ خبر ہوئی کہ وہ فلسفے کے احترام کو ترک کئے بغیر ذاتِ باری تعالیٰ اور بقائے روح کے عقیدے پر ایمان لا سکتے ہیں تو وہ شاداں بھی ہوئے اور برگساں کے ممنون بھی۔ اور جب وہ پروقار یقین کے ساتھ کہتا کہ ”اس مسئلے کو جزوی طور پر ذہن اور جزوی طور پر دل سے سمجھنے کا جتن کیجئے گا“ تو ان کے دل مسرت سے بھر جاتے۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔