مزاح نگاری معاشرے کی ناہمواریوں کی اچھے انداز میں نشاندہی کرتی ہے

مزاح نگاری معاشرے کی ناہمواریوں کی اچھے انداز میں نشاندہی کرتی ہے
مزاح نگاری معاشرے کی ناہمواریوں کی اچھے انداز میں نشاندہی کرتی ہے

  

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی

قسط:126

بطور مزاح نگار:

صدیق سالک کے ادبی ذخیرے میں مقدار اور معیار کے لحاظ سے دوسرا اہم حصہ مزاح نگاری کا ہے۔ ان کی مکمل مزاحیہ کتاب فقط ”تادم تحریر “ ہے لیکن ”سلیوٹ“ میں عموماً اور ”ہمہ یاراں دوزخ“ میں خصوصاً مزاح کا ر فرما نظر آتا ہے۔

مقدار میں کم مزاح لکھنے کے باوجود ادبی تاریخ میں سالک کو مزاح نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سالک نے اپنے ادبی سفر کا آغاز مزاح نگاری سے کیا رسالہ ’نیرنگ خیال“ میں ان کا پہلا مضمون ”جدید عشق“ 1967ءمیں شائع ہوا جو مزاحیہ تھا- 1968ءمیں ان کا مشہور مزاحیہ مضمون ”بوڑھوں کی یونین “ شائع ہوا مزاحیہ مضمون نگاری کا یہ سلسلہ چلتا رہا تا آنکہ1974ءمیں ان کی کتاب ”ہمہ یاراں دوزخ“ منظر عام پر آئی جو غم انگیز موضوع کے باوجود مزاح کے خوب صورت عناصر کی حامل تھی۔ اس طرح سالک کے معاملے میں نقش اول کو ہی آخر سمجھا گیا۔

سالک کی طنز نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے سید ضمیر جعفری مرحوم لکھتے ہیں:

”میرے نزدیک ”تادم تحریر“ کی اشاعت سے اردو کے فکاہی ادب میں ایک جی دار اور جیالے اسلوب کا اضافہ ہوا ہے؛ سالک کا طنز جس انداز کے ساتھ اپنی کاٹ کی کار گزاری کو کند کیے بغیر ظرافت کی شاخ گلاب کے ساتھ بغل گیر ہو جاتا ہے یہ بلاغت اور ذہانت کے ایک کارنامے سے کم نہیں۔“ 

صدیق سالک کی مزاح نگاری کا بہت اہم حصہ ان کے وہ مضامین ہیں جو ریاست کے متعلق ہیں مثلاً جمہوریت ‘ مارشل لاء‘ آئین وغیرہ پر مضامین سالک نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا ءسے وابستہ ہونے کے بعد ان مضامین میں مزاح کے پردے میں اپنا مافی الضمیر بہت جرأت مندانہ انداز میں واضح کیا ہے۔ عموماً مزاح نگار ایسے موضوعات کو مزاح کے لیے منتخب نہیں کرتے کیونکہ اس میں شگفتگی برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن سالک کی حب الوطنی نے یہ مشکل راستہ چنا‘ ڈاکٹر انورسدید اس ضمن میں لکھتے ہیں:

”انہوں نے سیاست پر پابندی کے دور میں سیاست کو موضوع بنایا ہے۔لیکن اس چوکھٹے میں کہیں بھی سیاست دان کا چہرہ ابھرنے نہیں دیا مارشل لاءاس دور کی موجودہ حقیقت ہے ایک ایسی حقیقت جس پر مارشل لاءلگوانے اور چلانے والے بھی محبت کی نظر نہیں ڈالتے لیکن جب ایک مطمئن مزاح نگار اس پرنگاہ دوڑاتا ہے تو وہ اسے بھی تحصیل مسرت کا وسیلہ بنا لیتا ہے۔“

ان کی مزاح نگاری کے پیچھے ان کا کرب ‘ غم اور آنسو محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ”تادم تحریر“ سالک نے اس وقت لکھی جب وہ سقوط ڈھاکہ اور اسیری بھارت کے داغ سہہ چکے تھے اس لیے اسے مزاح برائے مزاح نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک ایسے شخص کا مزاح ہے جس کی آنکھوں میں آنسو اور لب پر ہنسی ہے۔بحیثیت مجموعی صدیق سالک کی مزاح نگاری معاشرے کی ناہمواریوں کی اچھے انداز میں نشاندہی کرتی ہے۔ مزاح نگاری کی تاریخ میں سالک کا نام نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کے مزاح کے موضوعات جرأت مندی کے حامل ہیں۔

ناقدین نے دوسری اصناف کے مقابلے میں بطور مزاح نگار سالک کے مقام و مرتبے کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اردو مزاح کی تاریخ اور مزاحیہ ادب کا انتخاب کرنے والوں نے سالک کو قابل ذکر مقام دیا ہے۔ اس میدان میں سالک کے فن کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -