سال گیا سال آیا، غم دیئے زخم کھائے، نیا کیسا ہوگا؟
نیا عیسوی سال شروع ہو چکا ہے، پچھلا سال اپنے ساتھ تلخ یادیں لے کر رخصت ہوا، اس دوران دنیا میں خون بہا، طوفان اور سیلاب آئے۔ حقوق کی جدوجہد ہوئی جس کا صلہ نہ مل سکا۔ فلسطین اور کشمیر کے عوام بدستور محکوم اور ظلم کا شکار ہیں۔ ہمارے پیارے پاکستان میں دہشت گردوں نے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور پشاور کے آرمی سکول جیسی وارداتیں کر کے سکھ چین چھین رکھا ہے یہاں پاک فوج نے ہمت اور جرأت کے ساتھ ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کیا۔ متوقع کامیابیاں ملیں اور اسی حوالے سے یہ ذرا طویل بھی ہو گیا کہ آباد علاقہ کلیئر کرا لیا گیا اور اب نوبت سرحدی پہاڑی علاقوں تک پہنچ چکی۔ یہاں کارروائی نسبتاً مشکل ہے کہ دہشت گرد یا تو سرحد پار کر جاتے ہیں یا پھر گوریلا کارروائیاں کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔ بہر حال فوج کے پر عزم جوان ان کے تعاقب میں ہیں۔
سال نو عیسوی کی آمد بیرونی ممالک مغرب اور امریکہ میں زبردست جشن کا باعث ہوتی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار یہ شب بڑے جوش و خروش سے مناتے اور بہت ہلا گلاکرتے ہیں کہ ان کی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم جو ان کی بھونڈی نقل کرنے والے ہیں کس خوشی میں یہ سب کرتے ہیں۔ کوئی بتانے والا نہیں ہے۔ اس سال سانحہ پشاور کی وجہ سے پاکستان کے مسیحی شہریوں نے کرسمس پر سادگی کا مظاہرہ کیا لیکن ہم نودولتیوں اور لفنگوں نے کسی اپیل کی پرواہ نہیں کی اور رات خر مستیاں کرتے رہے۔ احتیاط صرف اتنی کی گئی کہ جو ہلا گلا سڑکوں اور پارکوں میں ہوتا تھا اسے نظر انداز کیا گیا لیکن بڑی کوٹھیوں اور فارم ہاؤسوں میں ہم نے بھی بازو میں بازو ڈال اور سینے سے سینا ملا کر ڈانس کیا۔شیطان کو فخر کرنے کا موقع دیا کہ وہ خوش ہو سکے۔
سال نو نیوزی لینڈ سے شروع ہو کر آسٹریلیا سے ہوتا ہوا، برطانیہ اور ناروے کی طرف جاتا ہے اور اسی دوران پاکستان میں سورج طلوع ہو جاتا ہے، آج کل تویوں بھی سورج شرما کر دھند کے پیچھے پناہ لیتا ہے اسے حضرت انسان کی کرتوتوں کو دیکھنے سے محرومی کا احساس تو ضرور ہوا ہوگا کہ لاہور یوں نے بھی مخصوص علاقوں میں اپنے ماڈرن (جدت پسند) ہونے کا ثبوت اسی انداز میں دیا جو مغرب میں رائج ہے۔ حالانکہ اس مرتبہ بار بار یہ کہا گیا کہ سانحہ آرمی سکول پشاور کی وجہ سے ان خرمستیوں سے گریز کیا جائے گا۔
بہرحال سال گزشتہ کا سورج غروب اور آئندہ سال کا طلوع ہوا۔ سال رفتہ کے پورے مہینوں میں بجلی اور گیس کے بحران کا سامنا تو ہوا یہاں سیاسی ہلچل بھی جاری و ساری رہی آخری دنوں کا تو یہ حال تھا کہ دھند نے ڈیرے ڈال رکھے تھے جس کی وجہ سے کاروباری مشکلات بھی تھیں، سیاسی طور پر بہت ہنگامہ خیزی ہوئی اور حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اپنے مسل دکھانے کا موقع مل گیا اور انہوں نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر دیا پھر دھرنا لپیٹ کر واپس اپنے نئے وطن روانہ ہو گئے اور نہ لوٹ کر آنے کی ساری پیشن گوئیاں رد کر کے واپس بھی آگئے اور نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئے، ان کو پاکستان میں کسی پر اعتماد نہ ہوا اور امریکہ جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ یہاں جب کہا جاتا تھا کہ محترم قادری صاحب علیل ہیں تو سختی سے تردید کی جاتی تھی تاہم پھر کیمرے نے سب کو دکھایا کہ حضرت ڈاؤن ہو گئے اور پھر علاج کے لئے امریکہ چلے گئے۔
یہ سیاسی قائدین جو ملک کے پسماندہ علاقوں اور غریب عوام کے دکھ میں دبلے (معاف کیجئے محاورۃ استعمال کیا، ورنہ یہ تو دولت مند ہو گئے) ہوتے چلے گئے ، خود اپنا علاج تک بیرون ملک کراتے ہیں۔ حالانکہ یہاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں دل کے علاج کے بہت اچھے سینٹر بھی ہیں۔ پی ۔ آئی۔ سی کا بھی جواب نہیں ہے۔ اگرچہ وہ کچھ مہنگے ہوتے ہیں۔ ہمارا خود اپنا بائی پاس پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہوا، اور کامیاب رہا بہر حال جن کو سہولت ہے اور برداشت بھی کر سکتے ہیں وہ بیرون ملک ہی جاتے ہیں چاہے ان کا تعلق حزب اختلاف سے کیوں نہ ہو۔
بات گزرے اور نئے سال کی تھی گئے سال میں یہاں بہت کچھ ہوا لیکن ان سب پر دہشت گردی غالب رہی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی چھٹیوں میں اضافہ کر دیا گیا اور سکول و کالج بارہ جنوری کو کھولنے کی بات کی گئی فیصلہ سنا دیا گیا۔ نجی سکولوں والے نہیں مانتے کہتے ہیں 5 جنوری سے تعلیمی ادارے کھول دیں گے کہ طلباء کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے حالانکہ بات اتنی سی ہے ان کو اپنی فیسوں کی فکر ہے۔
جتنا بھی ہوا جو بھی ہوا بہتر نہیں۔ سیاسی جماعتیں متحد ہو کر پھر سے خلفشار کا باعث بن رہی ہیں اور سرکار بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔ اب نوازشریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ حالات کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رہنے دیں لیکن قدم آگے بڑھا کر پیچھے نہ ہٹائیں۔ ان کے لئے ایک طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے کا دباؤ ہے تو دوسری طرف ریشہ دوانیاں بھی ہیں۔ آصف علی زرداری نے تو بات کہہ دی لیکن اپنے حوالے سے کہی ہے۔ ملک کے لئے انہوں نے اپنی خدمات بھی پیش کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انتباہ کیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف سازش کر رہے ہیں۔
اس سازش کی تھیوری بہت مختصر اور دلچسپ بھی ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف باقاعدہ انٹرویو پر انٹرویو دے رہے ہیں اور یا پھر لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات مخدوم امین فہیم نے بھی کی ہے۔ ان کو اپنے ساتھ پیر صبغت اللہ راشدی ( پیر پگارو) لے کر گئے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے اندر اضطراب پیدا ہو گیا لیکن وہ مخدوم امین فہیم ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں وزیر اعظم کے لئے امیدوار تھے قرعہ فال مخدوم یوسف رضا گیلانی کے نام نکل آیا۔ مخدوم ناراض ناراض پھرتے رہے۔ ہم نے اس وقت بھی خبر دی تھی کہ مخدوم سائیں برا ضرور منائیں گے لیکن ان کو وزیراعظم بننا ’’وارا‘‘ نہیں کھاتا وہ تو اپنی حیثیت منوانے اور پسند کی وزارت پر راضی ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوا اور وہ وفاقی وزیر بہر حال بنا لئے گئے اب بھی ایسی ہی صورت حال تھی ان کو ماننا تھا اور نہ صرف مانے بلکہ آصف علی زرداری کو حالات سے باخبر کرنے میں بھی تاخیر نہیں کی یوں یہ معاملہ بھی نمٹ گیا۔ ویسے مخدوم سائیں سے بڑی دیر بعد اچھا فقرہ بھی سننے کو ملا بلاول کا ٹوئیٹ تھا۔ آمر کا جو یار ہے ’’ غدار ہے، غدار ہے‘‘
روئے سخن بلا شبہ مخدوم صاحب کی طرف تھا، ان کی طرف سے جواب خوبصورت تھا، بولے! ٹوئٹ بلاول کا نہیں ہو سکتا، کسی اور نے کر دیا ہوگا۔ پھر دریافت کیا، جنرل (ر) پرویز مشر کو گارڈ آف آنر دے کر کس نے رخصت کیا تھا۔
سال رفتہ ویسے جنرل راحیل شریف اور عمران خان کے نام رہا، جنرل نے ایک صحیح فوجی جوان ہونے کا لوہا منوایا اور عمران خان شہرت کی بلندیوں کی طرف گئے افسوس سنبھال نہیں پائے! اب نیا سال ہے اللہ سے دعا کریں کہ مبارک ہو!(آمین)