قومی اسمبلی میں قادیاتی مسئلے پر بحث کی مصدقہ رپورٹ
جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے کم و بیش 36برس گزر گئے۔وہ پاکستان کے سیاسی افق پر 1958ء میں ابھرے۔ وہ پہلے سکندر مرزا اور بعد میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان مرحوم کی کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔ ان کے پاس پانی اور بجلی کی وزارت تھی، پھر وزارت خارجہ کا قلم دان بھی ان کے سپرد ہوا اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے میدان سیاست پر چھا گئے۔ جنوری 1966ء میں اعلان تاشقند کے بعد انہوں نے اپنی سحر آفرین شخصیت کا لوہا منوا لیا۔ دسمبر 1971ء میں بطور صدر و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر برسراقتدار آئے۔ ان کے سامنے تمام سیاسی قوتیں پسپا ہوگئیں اور وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ نظریاتی اعتبار سے بہت سے لوگ ان کے شیدائی ، بلکہ سودائی ہوئے، جبکہ بیشتر نے اختلاف بھی کیا۔ان کے خیالات سے اختلاف و اتفاق کرنے والوں کا گراف کم و بیش بھی ہوتا رہا۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کے باوجود ایک اہم کارنامے کی وجہ سے ان کے معترف ہیں!
یہ کارنامہ قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا ہے۔ اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا۔اس مسئلہ پر کھل کر بحث کرنے کا موقع دیا گیا۔نہ صرف مسلمان ممبران اسمبلی بلکہ قادیانی حضرات کو بھی پوری آزادی کے ساتھ بحث میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسمبلی قوانین اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ ایسا شخص جو اسمبلی کا رکن نہ ہو وہ اسمبلی میں براہ راست اپنا نقطہ نظر اراکین اسمبلی کے سامنے پیش کرے،لیکن ملک کے خاص حالات کے پیش نظر اسمبلی قوانین میں ترمیم کی گئی اور قادیانی جماعت کے سربراہ کو اسمبلی میں تقریر کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسمبلی میں یہ بحث 5اگست 1974ء کو شروع ہوئی اور 7 ستمبر 1974ء تک جاری رہی اور ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ بحث اسمبلی میں مسلسل جاری رہی۔کئی روز مسلسل بحث ہوئی۔ قادیانیوں کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔ بالآخر 7ستمبر کو فیصلہ سامنے آیا اور پاکستان میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر اقلیت قرار دے دیا گیا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں جانوں کا نذرانہ دینے والے مسلمانوں کی ارواح کو سکون ملا۔
پاکستانی قانون کے مطابق اسمبلی کارروائی سرکاری امانتی دستاویز ہوتی ہے۔اس کا کوئی حصہ شائع نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا یہ کارروائی اسمبلی کے ریکارڈ ہی میں دفن رہی۔ قادیانیوں کو بہانہ ملا۔ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیا۔ ’’اگر اسمبلی کی کارروائی منظر عام پر آ جائے اور قادیانیوں کے سربراہ اور وکیلوں کی بحث من و عن شائع ہو تو پتہ چلے اصل حقیقت کیا ہے اور آدھا پاکستان قادیانیوں کی صداقت کو تسلیم کر لے‘‘ اور عام لوگ بھی قادیانیت قبول کرلیں ، قانون کے مطابق اسمبلی کارروائی شائع نہ کرنے کی پابندی 25سال کے لئے ہوتی ہے۔ مولانا اللہ وسایا ملک کے معروف عالم دین ہیں، انہیں حق کہنے اور باطل سے ٹکرانے کا شوق جنون کی حد تک ہے۔وہ اس وقت تک سکھ میں نہیں آتے جب تک باطل کو پاش پاش کرکے آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ عقیدہ ختم نبوت ان کی زندگی کا مشن ہے۔وہ عرصے سے اس بات کی تاک میں تھے کہ 25سال کی پابندی کب پوری ہو اور وہ اسمبلی کی اس رپورٹ کو حاصل کرکے شائع کریں۔ انہوں نے دن گھڑیاں گن گن کر گزارے اور وہ کارروائی حاصل کرکے پانچ جلدوں میں شائع کی۔ شائع کرنے میں یہ کمال دکھایا کہ کوئی لفظ اپنی طرف سے نہیں لکھا۔پوری کارروائی من و عن شائع کر دی۔ انہوں نے اس کتاب کا صرف دیباچہ لکھا جو چند صفحات پر ہے، جس میں کتاب شائع کرنے کی غرض و غایت بیان کی گئی ہے۔
ان کی قلم کی چاشنی بھی اپنی جگہ مستقل اہمیت رکھتی ہے، جو تحریر میں رنگ بھرتی ہے اور کیفیت مسلسل عطا کرتی ہے۔ وہ روداد کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بخدا اس آفیشل اور مکمل کارروائی کو حاصل کرنے کے لئے اتنا جنون تھا کہ بس نہ پوچھئے کہ غم عاشقی میں کہاں کہاں سے گزر گیا‘‘۔ مولانا کے اس جنون کا اندازہ کتاب کے دیباچہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جس کا ایک ایک لفظ ایمان کی چنگاری کو جلا دیتا ہے اور قاری خود بھی جذباتی ہوئے بغیرنہیں رہتا اور قادیانیت سے ٹکرانے کا جذبہ لے کر اٹھتا ہے اور بقول اقبال:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
اس پورے دیباچے میں ہمیں مولانا کے اس جملے سے قطعاً اتفاق نہیں کہ آپ لکھتے ہیں ’’بایں ہمہ انسان خطا کا پتلا ہے۔کہیں غیر ارادی طور پر کوئی سہو ہوا ہو تو اعتراف قصور کے ساتھ گزارش ہے کہ اس کی اطلاع کرکے قارئین ممنون فرمائیں گے‘‘۔ہماری دانست میں سہو کبھی ارادی طور پر نہیں غیر ارادی طور پر ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ ارادی ہو تو سہو نہیں رہتا۔انہوں نے جتنا کام کِیا خلوص اور لگن سے کِیا۔ ایک ایک جملہ حُبِ رسولؐ کی مٹھاس سے بھرپور ہے۔
انہوں نے یہ کارروائی شائع کرکے آئندہ نسلوں کے ایمان و یقین اور عقیدہ ختم نبوت کے لئے حصار باندھ دیا ہے، جس کے ذریعے لایاتیہ الباطل من یدیہ دلامن خلفہ کی تفسیر کھلتی محسوس ہوتی ہے۔
مولانا اللہ وسایا ختم نبوت کے مبلغ ہیں، لیکن اس پوری کتاب میں ان کا اپنا کچھ نہیں سوائے سودائے عشق محمدی اور پاسداری عقیدہ ختم نبوت کے جوان کے خون میں جاری و ساری ہے۔ پوری کارروائی اسمبلی کی ہے جو انہوں نے من و عن شائع کی ہے۔ان کا حصہ صرف وہ دیباچہ ہے جو ان کے قلم سے ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تبصرے سے احتراز کرکے قاری پر احسان کیا تاکہ قاری خود پڑھے خود ہی فیصلہ کرے کہ قادیانی نظریات کس قدر بعید از اسلام ہیں اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا کس قدر صحیح اور درست فیصلہ تھا اور بڑا ضروری فیصلہ تھا۔ اگرچہ اس فیصلہ کے آنے میں دیر ہوئی۔یہ تاخیر مسلمانوں کی اجتماعی غلطی تھی یا تکوینی فیصلہ، ہم سمجھنے سے قاصر ہیں، بہرحال دیر آید درست آید۔ یہ بات قابل تسلی ہے کہ قلیل ہی سہی پاکستانی مسلمانوں کا طبقہ ہر دورمیں اس فرض کفایہ کو ادا کرنے میں سینہ سپر رہا اور اس فتنہ کی بیخ کنی میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے سرخرو ہوتا رہا۔اکابر علماء جمعہ کے خطبوں اور اپنے مواعظ میں قادیانی فتنہ کی تغلیط اور احقاق حق کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ بے شمار کتب لکھی گئیں، علمی جدوجہد میں 1953ء میں تحریک ختم نبوت اور اس میں بے شمار جانی و مالی قربانیاں ہمارے دعوے کا ثبوت ہیں۔ اردو محاورہ ہے کاٹھ کی ہنڈیا ہمیشہ نہیں چڑھتی۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
1974ء میں یہی صورت حال پیدا ہو گئی۔ قادیانیوں نے مسلمان طلباء پر شب خون مارا۔ قادیانیوں کے مرکز ربوہ سے گزرتی ریل گاڑی پر مسلح حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں تحریک ختم نبوت کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ قادیانیوں کا مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھا۔مولانا اللہ وسایا اپنی زندگی کے پربہار ایام گزار چکے ہیں اب ان کا سراپا مائل بہ کہولت ہے۔لیکن عین عنفوانِ شباب سے لے کر اب تک نصف صدی سے زائد کاسارا زمانہ سارقان ختم نبوت کے تعاقب میں گزارا۔ ایک ہی لگن ایک ہی ہدف۔ تحفظ ختم نبوت۔ پیش نظر کتاب بھی تحفظ ختم نبوت ہی کے حوالے سے شیرازہ بندی کی ایک کوشش ہے۔کتاب کی تمام جلدیں نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں شائع کی گئی ہیں۔ پوری کتاب کا باطنی حسن اپنی جگہ، لیکن ظاہری حسن نے بھی کتاب کے حسن میں مزید نکھار پیدا کر دیا ہے۔یہ کتاب قادیانی عقائد کو سمجھنے اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔