فطرت نہیں بدلتی۔۔۔
سوال کیا جاتا ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت نہیں بدل سکتی۔ اب کچھ لوگ فطرتاً اچھے ہوتے ہیں اس لیے انھیں اچھے کام کرنے میں شاید اتنی دقت نہیں ہوتی لیکن اگر کسی کی فطرت میں ہی اچھائی نہ ہو تو پھر کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ تو ایسے حالات میں کیے جانے والے اعمال کا اللہ کے ہاں اجر کا کیا حساب ہو گا؟یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ کا مارکنگ سسٹم کیا ہو گا....... حالانکہ اگر غور کریں تو یہ سب سے مشکل سہی لیکن ایسا امتحان ہے جس کا پرچہ پہلے ہی آؤٹ ہو چکا ہے اور امتحان کے معیار کا بھی اعلان کیا جا چکا ہے کہ یہ لوگ پاس ہوں گے اور ایسے لوگ فیل ہوں گے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اللہ نے حتمی نتیجہ اپنے ہاتھ میں کیوں رکھا؟
اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تمھارے پاس کوئی آئے اور کہے کہ یہ جو احد کا پہاڑ ہے یہ سونے کا ہے یا ایسا ہو گیا ہے، تو کہنا کہ ہاں ایساہو سکتا ہے، بحث نہ کرنا بس مان لینا۔ پھر اگر وہ کہے کہ احد کا یہ پہاڑ چل کر میرے گھر آ رہا ہے تو کہنا کہ اچھا، آ رہا ہو گا۔ لیکن خبردار! ہر گز نہ مانناجب کوئی شخص یہ کہے کہ میری فطرت بدل گئی ہے۔ کیوں؟
پہلے تو ہمیں یہ تعین کرنا ہو گا کہ یہ فطرت جو کبھی بدل نہیں سکتی، یہ ہے کیا؟
اکثر ہم جسے فطرت کہتے یا سمجھتے ہیں وہ فطرت نہیں ہوتی، وہ ہماری عادات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ برائیاں جنھیں ہم فطرت سمجھتے ہیں جیسے سگریٹ پینا، شراب پینا، زنا کرنا، یہ سب فطرت نہیں، عادات ہیں۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ایک ایسے شخص کے لیے اللہ کی راہ میں مال نکالنا بہت آسان ہے جسے اللہ نے بہت زیادہ مال سے نوازا ہے لیکن کوئی ایسا شخص جس کے پاس زیادہ مال نہیں وہ کیا کرے گا؟
یہی ناں کہ ایک تو اللہ نے دیا بہت کم پھر روز مرہ زندگی کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں، تو میں مال کہاں سے نکالوں؟
فطرت تو یہی کہے گی کہ مال کو سنبھال کے رکھ!
اس بات کو میں فطرت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ سمجھنے سے پہلے میں نے حضرت علیؓ کی اس بات کو نہیں پڑھا تھا:
’’دُنیا میں دو ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک ظالم اور ایک مظلوم۔ اللہ کا شکر کرو کہ اس نے تمھیں ظالموں میں سے نہیں بنایا۔‘‘
اب تقسیم یہ کرنی ہے کہ میں ان تمام معاملات کو رد کر دوں جو میری ذات کی طرف جاتے ہیں اور ان تمام معاملات کو قبول کر لوں جو اللہ کی ذات کی طرف جاتے ہیں، چاہے وہ میری عادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
مثال کے طور پر مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فجرکے وقت بڑی خوشی سے اُٹھتا ہو۔ میں نے اس لیے اُٹھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ فجر کے وقت شیطان کے تین وار ہوتے ہیں، جب اذان سنتے ہو، جب وضو کرتے ہو اور جب تک تکبیر نہیں پڑھ لیتے۔
سو، یہ تمام نفس کے معاملات ہیں، ان چیزوں کو فطرت نہیں کہا جا سکتا۔
میرے خیال میں فطرت سے مراد آپ کے ’جینز‘ کی تعمیر ہے اور آپ اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔
مثال کے طور پر ہم سب کے اندر ایک ایسا وائرس موجود ہو گا جو ہمیں ہیپاٹائیٹس دے سکتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جبکہ کچھ بچے رہتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کچھ کا وائرس ایکٹیو ہو جاتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا۔
اگر اللہ نے یہ فرق نہ رکھا ہوتا تو پھر ہم یہ سمجھتے کہ چونکہ اب ہم اس دنیا میں آگئے ہیں اور اپنی فطرت کو نہیں بدل سکتے، تو اب کچھ نہیں کر سکتے، ہم تو ہیں ہی ایسے ! اسی لیے اللہ نے ایک اور دروازہ کھولا اور وہ ہے وسیلے اور دُعا کا دروازہ! کہ بندہ کہے کہ یا اللہ! تُو نے میری فطرت اور جبلت میں تو غصہ ڈال دیا کہ میرے باپ کا نام اشرف اور ماں کا نام تسنیم ہے اور دونوں ساری عمر آپس میں لڑتے رہے ہیں اور یہی غصہ میرے اندر بھی در آیا ہے، تو اے اللہ! میرے اندر تھوڑا ٹھہراؤ دے، مجھے غصے پر قابو دے، تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ذریعے سے بخاری و مسلم کی یہ حدیث آپ کے سامنے لے آئے کہ ایک بار حضرت ابو ہریرہؓ لَاحَوْلَ وَلَا قُوۃ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھ رہے تھے تو اللہ کے رسول ﷺ نے سن کر فرمایا کہ یہ ضرور پڑھا کرو کہ اس سے ننا نوے بیماریاں دور ہوتی ہیں اور جو سب سے کمزور بیماری ہے وہ غم ہے۔
یہ دعا کی طاقت ہے جو ہم اللہ سے مانگتے ہیں۔
اب ایک تیسری بات دیکھو۔ اللہ نے دعا کے ساتھ جو ایک اور دروازہ کھولا وہ ہے وسیلے کا!
جیسے ایک بار کسی نے پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب سے پوچھا کہ میں خدا کو تلاش کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے اندر اتنی عقل، اتنا علم نہیں ہے، تو میں کیا کروں؟
پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ پھر کسی اﷲ والے کو تلاش کر لو۔
سو، اللہ نے یہ دروازہ بھی کھولا۔ حدیثِ قدسی ہے کہ حضرت آدمؑ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے حکم عدولی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کے لیے کہا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے آسمان دکھایا جہاں میں نے لکھا دیکھا، لَا اِلَہ اِلَّا اللّٰہ مُحمد رَّسول اللّٰہ......
حضرت آدمؑ فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ محمدﷺ ضرور کوئی ایسی ہستی ہیں جن کے وسیلے سے اللہ چاہتا ہے کہ میں توبہ کروں۔ پھر میں نے محمدﷺ کے وسیلے سے دُعا کی اور اللہ تعالیٰ نے میری توبہ قبول کر لی۔
فطرت گناہ تھی، فطرت حکم عدولی تھی، اللہ نے دعا اور وسیلے کا راستہ کھول دیا......... یہ انسان کا ایک اظہارِ تشکر ہے کہ اے اللہ، میں اپنی کوتاہی، اپنی کمی، کمزوری، اپنی ذلت کو قبول کرتا ہوں، اب تُو اس برکت کے دروازے کو کھول دے۔ دعا اور وسیلے کا دروازہ، اِنشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ کھلا رہے گا۔
ایک نابینا شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور بینائی کے لیے خواہش کا اظہار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بھی جو دعا بتائی، وہ وسیلے کے حوالے سے بتائی، اور اس اندھے شخص کی آنکھیں واپس آ گئیں۔
پھر جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے تو حضرت عمرؓ اس بات کے راوی ہیں کہ ہم ابن عباسؓ کو کہا کرتے تھے کہ آپ اللہ کے زیادہ قریب ہیں اور ان کو وسیلہ بنا کر ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے اور اللہ ہماری دعائیں قبول کیا کرتا تھا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
سو، یہ سارے کے سارے ادارے تہ در تہ ایک دوسرے کے اندر موجود رہتے ہیں۔ ایک ادارہ فیل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ زندگی کا اختتام نہیں کر دیتا بلکہ اگلا دروازہ کھول دیتا ہے اور اس کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔
ایک اور بات ذہن میں رکھیے گا کہ مقدر ایک چیز ہے جو اللہ کے حکم سے لکھی گئی ہے۔ اللہ کا علم ایک اور چیز ہے یعنی دونوں جدا گانہ چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ کو اس بات کا علم ہے کہ میں جب یہاں سے باہر جاؤں گا تو پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر پڑوں گا۔ اللہ نے ایسا مقدر میں نہیں لکھا لیکن اللہ کو اللہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا علم ہے کہ ایسا ہوگا۔
لیکن اگر میں یہاں سے اُٹھوں تو یہ دُعا کر کے اُٹھوں کہ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو، اپنے تمام معاملات کو تیرے حوالے کیا تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے زور پر، اپنی بڑائی، اپنی عظمت کے صدقے، میرا وہ حادثہ مجھ سے دور کر دے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔