میں دیکھ رہا تھا کہ کچھ دنوں سے میرا بدن جلنے لگا تھا۔حیران کن بات یہ تھی کہ ساراد ن گھر سے باہر رہتا تو کبھی ایسی کیفیت کاسامنا نہ کرنا پڑتا تھا لیکن جونہی میں گھر میں آتا تو مجھے بے چینی ہونے لگتی ۔ مزاج بگڑ جاتا ۔میری بیگم میرے اندر پیدا ہونے والی یہ تبدیلی نوٹ کررہی تھی ۔ایک دن وہ بولی ’’ مجھے لگتا ہے کسی نے ہمارے گھر پر جادو کیا ہے‘‘
میں نے اسے ڈانٹ دیا ’’ کیا بکواس کرتی ہو؟ ‘‘
’’آپ کو تو میری بات ہی بکواس لگتی ہے،لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔پچھلے ہفتے کسی نے ہمارے گیراج میں انڈے رکھ چھوڑے تھے جن پر کالی سیاہی سے کچھ لکھا ہوا تھا اور اس میں سوئیاں بھی چبھی تھیں۔میں نے خالہ نور سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ انہیں باہر پھینک دو ۔میں نے ایسا ہی کیا لیکن مجھے وہم لگ گیا تھا کہ کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے ۔اور پھر آپ کی طبعیت خراب ہوتے دیکھی ہے تو میرا جی ہلکان ہوگیا ہے۔آپ فوری کسی سے کوئی تعویذ لیں۔ اللہ جانے کس کالے منہ والے نے یہ حرکت کی ہے۔‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسکی کسی بات کا نوٹس نہیں لیا اور ڈاکٹر کے مشورہ سے دوائیاں لیکر چلتا پھرتارہا۔ڈاکٹر نے میری تمام رپورٹس بھی کرائیں تو سب ٹیسٹ ٹھیک نکلے لیکن ڈاکٹر اسکا کوئی جواب نہیں دے سکا تھا کہ پھر مجھ پر تھکن اور چڑچڑاپن کیوں وارد ہورہا ہے۔
ایک روز میں گھر واپس آیا تو جونہی بیگم پر نظر پڑی مجھے اچانک جھلاہٹ محسوس ہوئی اور میں نے بے وجہ ہی اس پر غصہ کردیا۔کچھ دیر بعد جب میں بیڈ روم میں بیٹھا اپنا سر خود ہی دبا رہا تھا وہ اللہ کی بندی میرے پاس آئی،اسکی آنکھیں سرخ تھیں اور لگتاتھا کہ وہ روتی رہی ہے۔میرے سامنے آکر بیٹھ گئی اور ڈرتے ڈرتے بولی’’ اگر آپ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں‘‘
یہ کہہ کر اس نے سر جھکا لیا’’ میری قسمت میں اولاد نہیں ہے ۔پانچ سال ہوگئے ہیں انتظار کرتے ہوئے ۔اب اور کتنا انتظار کریں گے آپ‘‘
میں یکایک پھٹ پڑا’’ پھر بکواس شروع ہوگئی۔میں تھکا ہارا گھر آیا ہوں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہی میری حالت کیاہے ،اوپر سے مزید ٹینشن دینے بیٹھ گئی ہو‘‘
یہ بات درست ہے کہ مجھے اپنی بیوی سے پیار ہے اور وہ بہت اچھی خیال رکھنے والی اور پڑھی لکھی ہے۔
دوسرے شہر میں جاب کی وجہ سے ہم دونوں اکیلے ہی رہتے تھے۔ایک تیس سالہ نوکرانی رکھی تھی جو صبح سے شام تک رہتی تھی اور میرے آنے کے بعد چلی جاتی تھی۔اسکی شکل واجبی تھی لیکن آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔اسکا شوہر حادثے میں مرگیا تھا اور بیوگی کے بعد وہ اپنی بہن کے گھر میں رہتی تھی ۔ایک دن اسے بیگم سے کہا کہ اگر وہ رات کو بھی یہیں ان کے پاس رہ لیا کرے تو بے شک اسے تنخواہ بھی نہ دیا کریں ۔اس نے بتایا کہ وہ بہن اور بہنوئی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔بیگم نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے اسے منع کردیا کہ ہم اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ویسے بھی وہ کون تھی،اسکا زیادہ حدود اربع مجھے معلوم نہیں تھا ۔کسی جاننے والے کے حوالے اسکو ملازمت پر رکھا تھا ۔ وہ شام ہوتے ہی چلی جایا کرتی تھی۔
میں نے بیگم سے اولاد سے محرومی کا ایک بھی شکوہ نہیں کیا تھا لیکن وہ اندر ہی اندر دکھی تھی ۔اس نے میری بے رخی کا مطلب یہ سمجھا کہ میں اس سے اکتا گیا ہوں اور اولاد چاہتا ہوں۔
دوروز مسلسل یہی معمول چلتا رہا۔میں نے دیکھا کہ اسکی طبیعت خراب ہورہی ہے۔چہرے پر دکھ پریشانی اور آنکھیں سوجی ہوئی دیکھ کر مجھے دکھ ہوا ۔اس روز میں نے اسے پاس بیٹھایا اور کہا ’’ اتنی پریشان کیوں ہو،کیا بات ہے‘‘
’’ کچھ نہیں ‘‘ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا
’’ کوئی تو بات ایسی ہے ،بتاو کیا بات ہے‘‘ میں نے نرمی اور محبت سے پوچھا تو یکایک وہ بلک بلک کر رودی ۔میں نے آج تک اسے اسطرح روتے نہیں دیکھا تھا ۔میں نے اسے ساتھ لپٹا لیااور وہ میرے سینے سے لگ کر روتی رہی اور پھر جیسے اسکو تسکیں آگئی۔ میں نے ٹشو سے خود اسکے آنسو پونچے اورپانی پلایا۔کچھ دیر بعد وہ بولی’’ میں ڈرتی ہوئی آپ کو بتا نہیں رہی تھی ،روزانہ دوپہر کے وقت کمرے کے فرش پرتازہ خون کے چھینٹے پڑے دیکھائی دیتے ہیں ۔میں نے اس پر کافی غور کیااور تلاش بھی کیا کہ شاید کوئی جانور زخمی ہو ،لیکن آج تین دن ہوگئے ہیں روزانہ اسی وقت پر یہ منحوس کام ہوتا ہے‘‘ اس لمحہ میں بھی سوچ میں پڑگیا۔اگلے دن اتفاق سے اتوار تھا اور مجھے چھٹی تھی۔میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ اگر کل بھی یہ کام ہوا تو ہم یہ گھر بدل لیں گے یا پھر کسی اللہ والے کے پاس جائیں گے۔میں نے دیکھا کہ اس بات سے اسکو کافی تقویت ملی تھی۔وہ بہادر عورت تھی لیکن اچانک ایسے واقعات دیکھ کر اچھا بھلا انسان پریشان ہوجاتا ہے ۔اگلے روز میں نے پورے گھر میں سپرے کیااور اچھی صفائی کرانے کے بعد ہم اس انتظار میں رہے کہ خون کے چھینٹیں نظر آئیں لیکن دوپہر گزرگئی اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تو میں نے بیگم سے کچھ کہنے کی بجائے اسکا دھیان بانٹنے کی کوشش کی اور ہم دونوں شاپنگ پر نکل گئے،کھانا بھی رات کو باہر ہی کھا کر آئے ۔ہم دونوں بہت خوش اور فریش تھے۔اس شہر میں آنے کے بعد پہلی بار ہم دونوں نے اکٹھے شاپنگ اور ڈنر کا لطف لیا تھا۔رات دس بجے ہم گھر پہنچے لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی ہماری ساری خوشی کافور ہوگئی۔میرے کمرے کے سفید فرش پر خون کے دھبے جابجا نظر آئے ۔بیگم کا تو رنگ اڑگیا تھا ،میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔خیر میں نے فرش کو صاف کیا اور اگلے روز ہی اپنے ایک جاننے والے کے پیر صاحب کے پاس چلا گیا ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
پیر صاحب نے استخارہ کرکے بتایا کہ کسی نے میاں بیوی کے درمیان طلاق دلوانے کے لئے ہم پریہ عمل کرایا ہے۔میں نے اس دوران اپنی کیفیات سے انہیں آگاہ کیا تو وہ بولے’’ جس عورت نے یہ عمل کرایا ہے وہ خود آپ سے شادی کرنا چاہتی ہے،یہ عورت آپ کے آس پاس ہی ہے‘‘
میں نے کہا’’ پیر صاحب سچ تو یہ ہے میرا کسی عورت کے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ لیکن پیر صاحب نے میری بات کا یقین نہیں کیا ۔بولے’’ غور کریں‘‘ میں کافی غور کیا ،اپنی کولیگز ،مارکیٹنگ میں کام کرنے والیوں پر نظر ڈالی،رشتہ دار تو کوئی تھا نہیں ۔میں نے لاچار ہوکر پھر بتایا کہ ایسی کوئی عورت جس سے میں بے تکلف ہوسکتا ہوں ،کوئی نہیں ہے۔اس پر پیر صاحب نے مجھے ایک تعویذ دیا اور کہا ’’ سونے سے پہلے وضو کرلینااور اسے سرہانے رکھ کر سوجاناخود نظر آجائے گا کہ وہ کون سی عورت ہے جو یہ کام کررہی ہے۔لیکن آپ کو وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ اسے کچھ نہیں کہیں گے ‘‘
میں نے وعدہ کیااور مجھے یہ تجسّس ابھارنے لگا کہ کیا واقعی کوئی عورت ایسی بھی ہوسکتی ہے جو مجھ سے شادی کرنے کے لئے اتنا مکروہ کام کر کے پاپڑ بیل رہی ہے۔
اس رات میں وضو کرکے سویا اور سرہانے تعویذ رکھ لیا ۔نیند کی حالت میں مجھے ایک عورت نظر آئی جس نے گلابی رنگ کا دوپٹہ لیا ہوا تھا اور اسکا چہرہ اس میں چھپا ہوا تھا،میں دیکھتا ہوں میں اسکی جانب اور وہ میری جانب رواں دواں ہے۔جب ہم دونوں ایک دوجے کے قریب آتے ہیں تو اچانک اس عورت کے پیروں کے پاس آگ جلنے لگتی ہے اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹنے لگتی ہے تو آگ اسکے دوپٹے کو پکڑ لیتی ہے۔وہ ہڑبڑا کر فوری دوپٹہ اتار پھینکتی ہے اور میری جانب گہری اور تمسخرانہ نظروں سے دیکھتی ہے تو میں چیخ مارکے اٹھ پڑتا ہوں ۔۔
’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟نہیں میرا کوئی وہم ہے ‘‘ ۔میری چیخ سن کر بیگم اٹھ پڑی۔
’’کیا ہوا ‘‘ اس نے میرا چہرہ پسینے میں شرابور دیکھا ۔
’’ اسے گھر سے نکال دو ،جلدی سے ،کل ہی اسے فارغ کردو اس ڈائن کو ۔۔۔‘‘میں نے غصے اور خوف کے ملے جلے لہجے میں کہا۔
’’ کس کو نکال دوں ‘‘ بیگم نے پریشان ہوکر کہا
’’ نوکرانی کو ۔وہ ہی یہ کام کررہی ہے ،جادوگرنی ہے وہ ۔۔۔ وہ چاہتی ہے کہ ۔۔۔‘‘ اچانک میں نے اپنی زبان بند کرلی ۔مجھے ہوش آگیا کہیں بیگم غصہ میں نوکرانی سے لڑ نہ پڑے۔اسکے بعد کا قصہ مختصرا سناتا ہوں۔اگلے روز بیگم نے میرے سامنے نوکرانی کو بلایا اور اسے نوکری سے فارغ کردیا۔جس وقت اسے جواب دیا گیا اس نے انہیں نظروں سے مجھے دیکھا جن سے اس نے خواب دیکھا تھا ۔اس نے بے بسی سے خفیف سا سرہلایا جس کا مطلب تھا کہ وہ ہمیں دیکھ لے گی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس نے نوکری چھٹ جانے پر ایک بار بھی التجا نہیں کی اورفوری گھر سے چلی گئی۔میں اسی روز پیر صاحب کے پاس گیااور سارا ماجرہ بیان کردیا ۔انہوں نے مجھے کچھ تعویذ دئیے جنہیں پانی میں ڈال کر مجھے اور بیگم کو پینا تھا اور کچھ کو گھر میں جلانا تھا ۔پیر صاحب نے بڑی شفقت سے مجھے کہا ’’ اللہ نے چاہا تو آپ کو مزید خوشیاں بھی عطا فرمائے گا‘‘
اس واقعہ کے ایک سال بعد اللہ نے مجھے چاند سا بیٹا عطا کیا ۔میں آج تک اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں جلد ہی سنبھلنے کا موقع عطا کردیا ۔میں آپ سب سے بھی کہوں گا کہ جب کبھی کسی کے ساتھ گھر میں ایسا کوئی پراسرار واقعہ پیش آئے تو اسے معمولی نہ لیں بلکہ فوری اسکو حل کریں ۔ورنہ دیر ہونے سے اندھیر بھی ہوسکتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔