کیا فوج کا کام کاروبار کرنا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان

کیا فوج کا کام کاروبار کرنا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان
کیا فوج کا کام کاروبار کرنا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ میں لاہور ڈی ایچ اے اور ایڈن ہاؤسنگ سکیم میں تنازعے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی ایچ اے اور ایڈن ہاﺅسنگ سکیم میں تنازعے کے مقدمے میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنانا آرمی کا کام ہے؟ فوج کا کام ہے کہ وہ سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرے نہ کہ کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی ایچ اے شہدا کیلئے کچھ کرتا تو یہ الگ بات تھی، کیا کسی اور ملک کی فوج یہ کام کرتی ہے؟۔
ڈی ایچ اے کے نمائندے نے عدالت میں جواب دیا کہ ملائیشین آرمی ہاوسنگ سوسائٹیوں کا کام کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے صرف ایک ہی ملک کے فوج کو ماڈل اپنا لیا؟ کیا آپ نے صرف ایک ملک کو دیکھ کر یہ ماڈل اپنا لیا، جب جب آپ سکیموں میں گئے آپ کا نام خراب ہوا۔
ڈی ایچ اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہدا اور بیواؤں کیلئے پلاٹ اور مکان بناتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ شہدا اور بیواؤں کی شیلڈ کو سامنے رکھ کر لوگوں کی ہمدرریاں لیتے ہیں اور اپنا کاروبار چلاتے ہیں، ہم یہی حکم دے دیتے ہیں ڈی ایچ اے زمین ایکوائر کرے اور تین ماہ میں متاثرین کو پلاٹ دیے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں ایک ایسا کیس لگانے لگا ہوں آپ کو بتاؤں گا، سب کو بتاؤں گا، آرمی کو بتاؤں گا، کس ملک کی آرمی سکیمیں چلاتی ہے، کون سی آرمی یہ ماڈل فالو کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے نمائندوں سے کہا کہ آپ نے وہ زمینیں خریدیں جو متنازعہ تھیں، ایسا کون سی آرمی کرتی ہے، ایسا کر کے آپ نے اپنی گڈول بھی بیچ دی، بیواؤں اور شہیدوں کو شیلڈ بنا کر رائلٹی کی رقم لے لی جاتی ہے۔
عدالت میں سماعت کے آغاز پر ایڈن ہاؤسنگ کے وکیل نے پوچھنے پر بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت سے باہر معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا تو حل نہ نکالا جا سکا؟ وکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ بادشاہ کے ساتھ تجارت کریں گے تو نقصان میں رہیں گے یہی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہی تو آپ نے کی ہے، آپ بادشاہ کو لوٹ کر لے گئے، گیارہ ہزار سات سو متاثرین ہیں جو کو پلاٹ دینے کے نام پر لوٹ لیا گیا۔ وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت بھی زائد زمین موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ ساری زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کریں گے اور آپ کے مالی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ آپ سول کورٹ جا سکتے ہیں یا پھر ثالث کے ذریعے معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ایچ اے ہی اس پراجیکٹ کو سنبھالے گی، ہم نے اس کو بیلنس کرنا ہے، ڈویلپمنٹ ہوگی تب ہی لوگوں کو پلاٹ ملیں گے، ہو سکتا ہے دونوں اطراف سے زیادتی ہوئی ہو ۔