دل کی تپش کا کیا کروں؟
لکھنے کو بہت کچھ ہے،موضوعات اتنے ہیں کہ دل چاہتا ہے صبح سے شام تک کالم ہی لکھتے رہیں۔ ابھی کسی ایک خبر سے دل جل رہا ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی دوسرا المیہ سامنے آ جاتا ہے۔ویسے ایک ہی طرح کی بہت سی خبروں نے دل میں ایسے زخم لگائے ہیں کہ میرے لئے اب مسکرانا بھی ممکن نہیں رہا۔ہمارے سیاست دان ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افسر سب ہی کے لال گال دیکھ کر رال ٹپکنے لگ جاتی ہے۔اسلامی ملک کی بات نہ ہو، کسی بھی ملک کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے لئے یہ بات شرمساری کا باعث ہے کہ ان کے ایسے سکینڈل منظر عام پر آجائیں،جو نہیں آنے چاہئیں، بلکہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں تو ایسے سکینڈل سامنے آنے کے بعد اعلیٰ عہدوں پر بیٹھی ہستیوں کو رخصتی کا پروانہ ملتا دیکھاگیا ہے۔پاکستان ہر نعمتِ خداوندی کے بعد بھی اگر اغیار کے آگے بھیک مانگنے پر مجبور ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارا اندر ہمارے باہر سے زیادہ گدلا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بار بار یو ٹرن انہی نمونوں کی وجہ سے لینے پڑتے ہیں،جو ان کی مجبوری میں ان کے ساتھ چمٹ چکے ہیں۔ہم سے کشمیر کی وکالت کیا ہونا تھی، ہم نے اپنے عوام کو ہی کشمیریوں کی حمایت میں بیانات سے روکنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ پاکستانیوں کو کشمیری قوم کے دُکھوں سے دور رکھنے کے لئے ہمارے وزیر خارجہ اورہمارے لیڈر مسلسل ہمیں آزاد کشمیر پر بھارتی حملے سے ڈرانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔کشمیر جو پچھلی ایک صدی سے آگ و خون میں جل رہا ہے، پچھلے ایک سو پچاس دِنوں سے اس کے جلنے کی خبروں کو دبا لیا گیا ہے۔بس فرق یہ ہے کہ پہلے کوئی ہندو فوجی کسی مسلمان عورت کی عزت لوٹتا تو سوشل میڈیا پر واویلاضرور ہوتا، مگر کبھی کسی سورمے کو سزا نہیں ملی، اگر ملی تو برائے نام، مگر اب سارے بھارتی فوجی مسلمان عورتوں، بچیوں اور لڑکوں کی عزت سے بغیر کسی روک ٹوک کھیل رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں، کوئی داد رسی کرنے والا نہیں۔رب جانتا ہے، لیکن وہ بھی بقول عتیق انور راجہ:
وعدہئ حشر پر ہے وہ خاموش
ورنہ ہر بات جانتا ہے خدا
کشمیرپر بھارت نے قانون بنایا، اسے لاگو کیا، دُنیا نے کوئی آواز بلند نہ کی۔مسلمان ممالک نے اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر بھارت کو قتل عام کا پروانہ دے دیا۔طاقت اور تعلقات کے نشے میں نریندر مودی نے بھارت میں بسنے والے سارے مسلمانو ں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کا بل اسمبلی میں پیش کیا، اسے پاس کروایا، اس پر بھارتی صدر کے دستخط کروائے اور قانون نافذ کر دیا۔حسب ِ توقع دُنیا بھارت کے اس ظالمانہ قانون پر ایک بار پھر خاموش رہی،لیکن اس بار بھارت کے مسلمانوں نے سر پر کفن باندھ لیا۔بھارت بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں، اب تک کی اطلاعات کے مطابق پچاس کے قریب لوگ ان مظاہروں میں جان سے جا چکے ہیں،لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہندو نوجوان بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔وہ بھی بھارتی حکومت کے اس قانون کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ظالمانہ اقدامات پر ایک ہندو طالبہ نے رد عمل کے طور پر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قانون پر احتجاج کی آگ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔بھارتی پولیس مسلمانوں کے گھروں پر حملے کر رہی ہے۔ مظفر نگر اور کانپور میں گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔
احتجاج میں ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے،جبکہ ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد گرفتار کر لئے گئے ہیں۔انہی مظاہروں میں شریک دہلی کی ایک ہندو طالبہ نے احتجاجاً اعلان کیا ہے کہ مودی سرکار نے میرے کسی ساتھی کو حراستی مرکز میں ڈالا یا ہندو مسلم کے نام پر تفریق کی گئی،تو مَیں بھی مسلمان ہو جاؤں گی، مذہب تبدیل کر لوں گی، ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، ایک کو گولی مارو گے تو دوسرا کھڑا ہو گا۔گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی سرکار کے ملوث ہونے کی قلعی کھولنے والے پولیس افسر پر زندگی تنگ کر دی گئی۔سنجیو بھٹ نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے گواہی دی تھی کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل ِ عام میں مودی سرکار ملوث تھی۔ سنجیو بھٹ کی بیٹی ڈاکٹر آکاشی بھٹ نے امریکی کانگریس کے سامنے ساری صورتِ حال بیان کر دی……جذبہ اگر سچا ہو اور اس کے اظہار کے لئے آپ ہر نوعیت کی قربانی کے لئے تیار ہوجائیں تو نریندر مودی جیسا فرعون صفت انسان بھی جھکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے ہندوانتہا پسندوں کے ہیرو بننے والے مودی نے چند ہی روز قبل جھاڑ کھنڈ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا تھا۔بھارتی شہریت کے بارے میں بنائے گئے نئے قوانین کی وجہ سے جاری ہنگاموں کو انہوں نے مسلمانوں کے سر تھونپنے کی کوشش کی،لیکن الیکشن نتائج کے مطابق جھاڑ کھنڈ ریاست بھی مودی سرکار کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے، یعنی بھارت کے لوگ نریندی مودی کی باتوں میں آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
گجرات کے قصائی نریندر مودی کی چند روز پہلے کی ایک تقریر کوسنتے ہوئے میرے زخمی دل سے جامعہ ملیہ کے ان بچوں اور بچیوں کے لئے بے تحاشہ دُعائیں اُٹھیں، جنہیں چند ہی روز قبل وحشیانہ پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔جامعہ ملیہ کے طالب علموں کو جنگی قیدیوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر پولیس کے سامنے سرنڈر ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ صحافتی زبان میں عموماًکہا جاتا ہے کہ بسااوقات ایک تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ جامعہ ملیہ میں غالب کا مجسمہ بھی نصب ہے۔طالب علم اس مجسمے کے قریب احتجاج کے لئے جمع ہورہے تھے، تو پولیس نے دھاوابول کر ایک نوجوان کو زمین پر پٹخنے کے بعد لاٹھیوں سے اس کا قیمہ بنانا چاہا۔ دو بچیاں اس نوجوان کے تحفظ کی خاطر اس کے اوپر لیٹ گئیں۔ پولیس نے ان پر بھی لاٹھیاں برسائیں ……یہ واقعہ گزرنے کے چند گھنٹے بعد دھان پان نظر آتی ان دو بچیوں نے،جن میں سے ایک نے اپنے سر کو حجاب سے ڈھانپ رکھا تھا، بے پناہ اعتماد اور نرم زبان میں ٹی وی کیمروں کے سامنے دُنیا کو واضح الفاظ میں متنبہہ کیا کہ جامعہ ملیہ کے طلبہ ہی نہیں،پورے بھارت کے مسلمان نوجوان اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔مودی سرکار کا خیال ہو گا کہ شہریت والے قانون کی مذمت کرنے والے مسلمان نوجوان نعرے لگاتے ہوئے توڑپھوڑ کرنے کی کوشش کریں گے،
وہ پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے،لیکن ان باشعور بچوں نے بھارت سرکار کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہزاروں کی تعداد کے ہجوم میں لوگ فیض احمد فیض کا ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ گنگنا رہے ہیں۔مختلف وقفوں سے وہ بھارتی آئین کے دیباچے کو بآواز بلند پڑھتے ہوئے اس پر کامل عمل درآمد کو یقینی بنانے کا عہد کرتے۔ان کی استقامت نے بے تحاشہ دل موم کردئیے۔جامعہ ملیہ کے طلبہ، خاص طورپر وہاں کی بچیوں کی لگن اور استقامت کو سراہایا جارہا ہے، لیکن بھارت میں اب بھی کچھ اعلیٰ عہدوں پر قبضہ جمائے مسلمان بھارتی حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں، جبکہ دلی کی تاریخی جامعہ مسجد کے امام سمیت بھارتی مسلمانوں کی نام نہاد مذہبی قیادت شہریت کے ضمن میں بنائے گئے قوانین کے خلاف مزاحمت کو فساد قرار دے رہی ہے،لیکن اب بھارت کی ساری اقلیتیں اپنے حقوق کے لئے ایک ہو رہی ہیں۔ کامیابی ایک ہونے والوں کو ہی ملتی ہے۔