برطانوی معاشرت، یہاں کے مسلمان اور بچے

میرا نواسہ آئیزل دوسری جماعت کا طالب علم اور چھ سال کا ہو چکا،میرا خیال تھا کہ بچوں سے خوب گپ شپ رہے گی کہ دیسی تو ہیں تاہم جب یہاں آیا اور اِن بھائی بہنوں سے واسطہ پڑا،اُنہوں نے مجھے پھر سے انگریزی پڑھانا شروع کر دی ہے۔جب یہ بولتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پشتو بول رہے ہیں کہ اتنی ہی تیزی سے بولتے چلے جاتے ہیں،بڑی مشکل سے اُن کو آمادہ کر پایا ہوں کہ وہ ذرا آہستہ بولا کریں، اب آئیزل اور اُس سے چھوٹی زائرہ میرے قریب آ کر تحمل سے بات کرتے ہیں لیکن ایسا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب اُن کی اپنی ضرورت ہو، ورنہ وہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی گورا شاہی ذرا مشکل ہے۔بہرحال کام چل رہا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اُن کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
جب میں یہاں گھر آیا تو یہ بچے جلد ہی گھل مل گئے اور پیار، دلار والی بات ہو گئی تاہم حیرت مجھے اُس وقت ہوئی جب ہم سب کھانا کھا چکے تو یہی بچے خالی برتن ازخود اُٹھا اُٹھا کر کچن میں رکھ کر آ رہے تھے۔ یہ بچے ننھے ہاتھوں سے ایسے کاموں میں خوب ہاتھ بٹاتے ہیں،کھانے کے بعد میز بھی خود ہی صاف کرتے ہیں،میرے لئے پانی لانا،کتاب یا کوئی اور ضرورت کی چیز اُنہی سے کہتے ہیں اور وہ کرتے بھی ہیں۔یہ سب اُن کی تربیت کا حصہ ہے جو سکول ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔یہاں کی زندگی بڑی سخت ہے، سب کام خود کرنا ہوتے ہیں اِس لئے گھر کے ہر فرد کی تربیت ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہاں مشین کا دخل بہت زیادہ ہے، صفائی، دھلائی اور سکھائی کے لئے بھی آلات دستیاب ہیں،گھروں میں قالین ہیں،جوتے مرکزی دروازے کے پاس اُتارے جاتے ہیں۔ یہ پابندی اہل خانہ کے علاوہ مہمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے، آنے والے بھی اِسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اِس لئے یہ آداب میں شامل ہے۔یہاں کی شدید سردی کا چرچا ہے لیکن گھر گرم رکھنے کے لئے گیس کے جدید ہیٹر ہیں۔ابھی تک یہاں بجلی یا گیس کی کمی اور قلت کا سامنا نہیں ہوا، یہ اہل خانہ پر منحصر ہے کہ وہ استعمال کتنا کرتے ہیں، گرم پانی بھی دستیاب ہے اور یہاں مجھے روزانہ نہانے والی عادت سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
آج یہ سب یوں عرض کر رہا ہوں کہ اِس ملک کے رہن سہن اور تربیت کا اندازہ ہو جائے۔ یہاں بچوں پر بہت توجہ دی جاتی ہے، سکول میں اُن کی نشست و برخاست سے بولنے کے آداب تک کی تربیت دی جاتی ہے۔یہ سب پڑھائی کے ساتھ ساتھ پیار سے بتایا اور سکھایا جاتا ہے جبکہ خوراک میں دودھ، انڈہ اور مکھن شامل ہیں جو مختلف طریقوں اور بچوں کی پسند کے حوالے سے کھلائے جاتے ہیں،جوس بھی ایک تربیت اور اوقات کار کے مطابق پلائے جاتے ہیں۔یہ کہنا تو شرمندہ ہونے والی بات ہے کہ ہر شے خالص ملتی ہے،کسی کو یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ خالص گھی سے کڑاہی تیار کی جاتی ہے،اِس سلسلے میں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ہمارے ملک میں بچوں کو ٹی وی پر کارٹون اور موبائل پر خطرناک کھیل کھیلنے دیئے جاتے ہی لیکن یہاں بچوں کے لئے کئی چینل ہیں۔ کڈز چینل بچوں کا پسندیدہ ہے،اُس کے ذریعے کھیل کھیل میں اشیاء جوڑنے، بنانے اور سنبھالنے کے لئے کھیل ہوتے ہیں تو تعلیم بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے، اسی طرح ہمارے اِس گھر میں بچوں کے پاس بے شمار کھیل ہیں،اُن کے ساتھ کتابیں بھی ہیں جن میں کار سے لے کر گھر، مینار، پُل اور ایسے ہی دیگر عمل ہیں اور بچے اُن کتابوں سے دیکھ کر ایسی اشیاء بناتے رہتے ہیں،اِسی ٹیلیویژن کے ذریعے ٹریفک کے قواعد سے آگاہی دی جاتی ہے۔ہم جب بھی باہر گئے میرا نواسہ میری انگلی پکڑ لیتا ہے، سڑک پار کرنے کے لئے مجھ سے زیادہ وہ سگنل کا دھیان رکھتا ہے۔یوں یہاں جگہ جگہ سے سڑک پار کی جاتی ہے نہ سڑک پر چلا جاتا ہے، بھیڑ ہو یا نہ ہو فٹ پاتھ پر چلنا لازم ہے اور سب شہری بچوں سمیت پابندی کرتے ہیں، یہاں کسی فٹ پاتھ پر دکان نظر نہیں آتی اور نہ ہی غلط پارکنگ ملتی ہے کہ شہری عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔
یہاں کمپیوٹر کا استعمال زیادہ جدت سے ہے، مارکیٹ سے جو اشیاء خریدی جاتی وہ کاؤنٹر سے سکین کی جاتی ہیں اور بلنگ کے کارڈ بھی سکین ہی ہوتے ہیں کہ کارڈ صرف کنڈکٹر پر رکھنا ہوتا ہے،رقم کٹ جاتی ہے اور رسید از خود باہر آ جاتی ہے۔پٹرول پمپ تو طویل عرصے سے خود کار اور سیلف سروس پر ہیں اِس لئے لیٹر کا پونا لیٹر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ”راستہ دینے“ کے صرف سائن ہی نہیں بلکہ اُن پر حتمی عمل ہوتا ہے، چھوٹی سڑک یا موڑ سے آنے والا بڑی سڑک پر آنے والے کو گذرنے کا موقع دیتا ہے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چنگ جی دیکھنے کی کوشش کرتاہوں لیکن مجھے یہاں موٹر سائیکل نظر نہیں آئی تاہم سائیکلیں ضرور دکھائی دیتی ہیں جو اکثر بوڑھے بھی ایکسر سائز کے طور پر چلاتے ہیں اور کاروں والے اُن کا احترام کرتے ہیں۔
یہاں مذہبی آزادی کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، گزشتہ روز نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے گئے، عظمت اور نواسے کا تو معمول ہے اِس بار عاصم بھی ہمارے ساتھ تھا کہ اُس نے نماز کے بعد اپنے گھر کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ماشاء اللہ مسجد معمول کے مطابق بھری ہوئی تھی اِس بار تقریر انگریزی میں ہوئی جو سکون سے سنی گئی، نماز کے بعد جب گھر آئے تو تھوڑی دیر بعد نواسے کی کلاس کا وقت شروع ہو گیا،وہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ قرآن کی سورت سامنے سکرین پر تھی، وہ دہرائی کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے قاری صاحب ساتھ ساتھ تصحیح کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے، جہاں بچہ رُکتا یا تلفظ میں غلطی کرتا فوراً اُسے ٹوک کر پیار سے درستگی کرا دی جاتی۔ آئیزل قرآن مجید کے قریباً پندرھوے پارے کی دہرائی کر رہا ہے کہ ایک مرتبہ والناس تک پڑھ چکا ہوا ہے۔ یہاں شہریت اختیار کرنے والے مسلمان حساس ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دین کی طرف راغب کرتے،اُن کی تعلیم کا بندوبست کرتے رہتے ہیں تاہم یہ سب کسی جبر سے نہیں پیار سے ہوتا ہے کہ جب والدین عملی کام کرتے اور اُن بچوں کو ساتھ شامل کرتے ہیں تو پھر اُن کی دینی تعلیم کا بھی خیال رکھتے ہیں۔اس سب کے باوجود یہ اپنی جگہ کہ لباس کے حوالے سے ”جیسا دیس ویسا بھیس والی بات ہے،خواتین باقاعدہ خود کو کور کرتی ہیں تاہم بچے مہذب لباس کے باوجود مغربی طرز ہی اپناتے ہیں، ہمارے بچے ماشاء اللہ تہذیب کے ساتھ گھر کے کام کرتے ہیں تو کھیلتے اور کھاتے بھی خوب ہیں۔یہاں بسنے والے مسلمانوں کے بھی اپنے اپنے رویے ہیں تاہم اکثریت کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد سیدھے راستے پر رہے۔ ابھی کافی دن یہاں ہوں، عاصم اپنے گھر چلا گیا، دعوت دے گیا تو نہ صرف لندن کے دو پھیرے اور ہوں گے بلکہ مانچسٹر اور سکاٹ لینڈ بھی جانا ہو گا،دُعا کرتے رہیں۔