کالم نگاری اور کالم لکھاری

کالم نگاری اور کالم لکھاری
کالم نگاری اور کالم لکھاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




قارئین! ان دنوں ہم کالم نگار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے تو ہم میں ایک ”اچھے“ کالم نگار کے تمام اوصاف وافر مقدار میں موجود ہیں، مثلاً ہم نے جس موضوع پر لکھنا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں ہماری معلومات بالکل صفر ہوتی ہیں، تاکہ لوگوں کو ہماری غیر جانبداری کا یقین ہو سکے، دوسرا یہ کہ بڑے کالم نگاروں کی طرح ہم بھی ایسا لکھ سکتے ہیں، جس کی کسی کو سمجھ نہیں آتی، بلکہ ہم تو بڑے کالم نگاروں سے بھی ایک قدم آگے ہیں کہ ہمیں تو بعض اوقات اپنے لکھے کی خود بھی سمجھ نہیں آتی۔ ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح ایک اچھا مقرر وہ ہوتا ہے، جس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے اور ایک اچھا ڈاکٹر وہ ہوتا ہے، جو لیٹر پیڈ پر نسخہ اس انداز میں لکھے، جس کی میڈیکل سٹور والے کے سوا کسی کو سمجھ نہ آئے۔ ایک اچھا لکھاری بھی وہ ہوتا ہے، جس کے لکھے کی پڑھنے والے کو سمجھ نہ آسکے، تاکہ لوگ بار بار پڑھیں۔ ویسے بھی آپ دوسروں کی نظر میں اس وقت تک اچھے رہتے ہیں، جب تک اُن کو آپ کی سمجھ نہیں آتی۔ جیسے ایک بار ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا کہ ”دیوان غالب“ بہت اچھی کتاب ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیسے؟.... تو کہنے لگا کہ ”بس کیا بتاو¿ں اتنی اچھی کہ کوئی دس بار پڑھ چکا ہوں“۔ ہم نے پوچھا کہ کتاب سے کیا سیکھا؟.... کہنے لگا: جب سمجھ آئے گی تو سیکھ لوں گا“.... ہم نے پوچھا کہ جب سمجھ ہی نہیں آئی تو اچھی کیسے ہوگئی، تو کہنے لگا: ” اسی لئے تو اچھی ہے“۔
موجودہ دور میں اچھا لکھنا اتنا ہی آسان ہو چکا ہے، جتنا لکھے پر تنقید کرنا.... پہلے ادب پر صحت مند تنقید کی جاتی تھی، جبکہ آج کل نقاد حضرات عموماً تنقید کرتے وقت اپنی صحت کا خیال ضرور کرتے ہیں۔ اسی لئے اکثر تنقید ایسے مواد پر کی جاتی ہے، جس کے لکھاری گزر چکے ہوتے ہیں، تاکہ کوئی انہیں (نقاد کو) کچھ کہہ نہ سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ اُٹھ کر مرزا غالب پرتنقید کرنا شروع کر دیں، تو مرحوم غالب بے چارے آپ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟.... اسی طرح جیسے آج کل کے قوال حضرات جس طرح کی قوالی کرتے ہیں، وہ صرف مزاروں پر ہی محفوظ ہوتی ہے۔ کم از کم مزار کا مکین نکل کر انہیں جوتے تو نہیں لگا سکتا۔ پہلے وقتوں میں قوال، قوالی گاتے ہوئے سُروں کا اتنا خیال کرتے تھے، جتنا بچے اپنے بوڑھے والدین کا کیا کرتے تھے، جبکہ آج کل اتنا خیال کیا جاتا ہے، جتنا گھروں میں بوڑھے والدین کا کیا جاتا ہے۔
تحریریں کئی طرح کی ہوتی ہیں، مگرنقاد حضرات صرف اس تحریر کو معیاری کہتے ہیں، جس کا کوئی وزن ہو۔ شاید اسی لئے مرحوم اے حمید کا ناولٹ بھی اڑھائی تین کلو گرام سے کم وزن کا نہیں ہوتا تھا۔ لوگ اے حمید صاحب کو بڑا رائٹر کہتے ہیں، کیونکہ لوگوں نے ان کی تحریریں پڑھ رکھی ہیں۔ ہمیں ان کی باتوں پر اعتبار ہے اور اس اعتبار کو قائم رکھنے کے لئے اب تک ان کی کوئی تحریر نہیں پڑھی۔ ایک وقت تھا کہ اے حمید کے ناولوں کی اتنی زیادہ مانگ تھی کہ وہ بلیک میں بکتے تھے۔ یہ نہیں کہ بہت زیادہ بکتے تھے۔ دراصل ان دنوں رواج ہی سنگل کلر پرنٹنگ کا تھا۔
کہتے ہیں کہ انسان اس وقت لکھ سکتا ہے، جب اس کے ذہن میں کچھ ہو، تاہم اچھا لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ذہن میں کچھ نہ ہو۔ امجد اسلام امجد ہمارے ملک کے بڑے لکھاری ہیں۔ لوگ انہیں بلند پایہ شاعر کہتے ہیں۔ ہم نے ان کے پاو¿ں کبھی نہیں دیکھے، البتہ ان کے سر کو دیکھ کر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ امجد اسلام امجد ”سربلند“ شاعر ہیں۔ ہماری اپنے ملک سے محبت دیکھئے کہ اس ملک کے تمام بڑے لوگ ہر وقت ہمارے ذہن میں رہتے ہیں، تاہم میدان سیاست میں چاہتے ہوئے کسی ایک شخصیت کا ذہن میں خیال لانا ممکن نہیں، کیونکہ وہاں مشاہد حسین سید، چودھری شجاعت حسین، سرتاج عزیز اور سلطان محمود چودھری جیسے بے شمار ”سربلند“ موجود ہیں۔ ہماری شاعروں اور لکھاریوں سے شناسائی کا یہ عالم ہے کہ ہم ایک عرصے تک جون ایلیا صاحب کو ان کی تصویر دیکھ کر خاتون ہی سمجھتے رہے۔ ایسے ہی ایک عرصے تک ہم ملتان کے معروف کالم نگار اور استاد نسیم شاہد کو ان کے نام کی وجہ سے خاتون اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ڈاکٹر مزمل بھٹی صاحبہ کو مرد سمجھتے رہے، وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ یہ دونوں تو ہماری سوچ کے برعکس ہیں۔
بات کالم نگاری کی ہو رہی تھی۔ معروف کالم نگار عطاءالحق قاسمی کالم کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ” کالم ایک تحریری کارٹون ہے“۔ قاسمی صاحب کے کالم دیکھ کر واقعی یہ لگتابھی ہے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ ایک اچھا کالم لکھنے کے لئے کیا ضروری ہے، تو ہم جھٹ کہہ دیں گے کہ ”کاغذ اور قلم“....تاہم آج کل اچھا کالم نگار وہی ہے جسے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ کالم لکھاری پر بھی عبور حاصل ہو۔ وہ لوگوں کو ڈرا کے ایسے ایسے واقعات بڑے وثوق کے ساتھ بیان کر سکے، جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ اگر آپ اپنے کالم میں حکمرانوں سے اپنے مراسم کا حوالہ دے سکیں تو یہ بہترین کالم نگاری ہوگی، مثلاً آپ یہ لکھ سکتے ہیں کہ صدر صاحب نے راقم کو گزشتہ دنوں ایوان صدر بلوایا اور قومی و بین الاقوامی معاملات پر ایسی پُر مغز گفتگو فرمائی، جو عام طور پر وہ نہیں کرتے، تاہم یاد رہے کہ اگر آپ کی تحریر فرحت اللہ بابر صاحب کی نظر میں آگئی تو ڈر ہے کہ انہوں نے فوراً ہی تردید کر دینی ہے، کیونکہ موصوف تردید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس لئے کالم نگاری کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ گزرے ہوئے سیاسی لیڈروں سے اپنے مراسم پیدا کرلیں، کم از کم ان کا کوئی ترجمان تو نہیں ہوتا جو آپ کے لکھے کی تردید کر سکے۔  ٭

مزید :

کالم -