دارالسلام باغِ جناح کے بانی کرنل سلامت اللہ مرحوم

دارالسلام باغِ جناح کے بانی کرنل سلامت اللہ مرحوم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مسجد دارالسلام1961ءمیں تعمیر ہوئی اور 1966ءمیں دارالسلام لائبریری کا باقاعدہ طور پر اجرا کر دیا گیا۔ مسجد اور لائبریری کی مالی کفالت کے لئے گلشن ریسٹورنٹ1966ءمیں تعمیر کیا گیا، یہ ہر سہ عمارات بغیر کسی چندہ کے خدا کی عطا کردہ توفیق سے فردِ واحد محترم کرنل سلامت اللہ مرحوم کی کوشش کا ثمر ہیں۔
الحاج کرنل سلامت اللہ مرحوم 16دسمبر 1892ء کو دہلی کے قریب ”ہوڈل پرول“ میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن امرتسر تھا اور امرتسر میں ان کا خاندان حافظوں کا خاندان کہلاتا تھا۔ ثانوی تعلیم فارمن کرسچین کالج لاہور سے1911ءمیں پائی۔ 1915ءمیں میڈیکل کالج لاہور سے میڈیسن میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ فروری1917ءمیں آئی ایم ایس میں کمیشن ملا۔ اس کے علاوہ ولایت سے چار میڈیکل ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے آرمی سروس کے دوران ہندوستان فرنٹیئر، مصر، شام، فلسطین، حجاز اور چترال میں فوجی اور جنگی فرائض انجام دیئے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران دو بار زخمی ہوئے، جس پر انہیں حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے اس وقت کا اعلیٰ اعزاز (ملٹری کراس)1911ءمیں ”قصر ِ ہند“ کا اعزاز1922ءمیں ملا۔1926ءمیں انہیں انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے یو پی کے محکمہ جیل کے فرائض سونپے گئے۔ بطور آئی جی آپ نے یورپ اور ایشیا کی مختلف جیلوں کا مطالعاتی دورہ کیا اور تفصیلی رپورٹ مرتب کی، جس پر حکومت نے ان کی بے حد تحسین کی۔ 1935ءمیں سلور جوبلی میڈل ملا۔ 1947ءمیں کرنل کے عہدے سے فوج سے ریٹائر ہوئے۔
آپ ایک مخلص اور علم دوست انسان تھے۔ مساجد، کتب خانوں اور علمی مجالس سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔ باغ جناح لاہور کے خوشگوار ماحول میں واقع کتب خانہ دارالسلام آپ کی علم پروری کا عملی ثبوت ہے۔ یہ کتب خانہ ہمارے تاریخی ورثے اور درخشاں روایات کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ نے اس کتب خانے کو مروجہ علوم و فنون کی ترسیل کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب اور اخلاقی روایات کی آبیاری کا ذریعہ بھی بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و شرافت سے نوازا تھا۔ آپ نے اس نعمت کا شکرانہ اپنے عمل سے ادا کیا۔ فروغ تعلیم کو جزوِ ایمان بنایا۔ ان کے نقش ِ قدم پر چل کر بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
ایسے افراد قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، انہیں فنا نہیں بقا ہی بقا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلاف کے اثاثے سنبھالے ہوئے خوبصورت روایات کے دیے ہر چوکھٹ پر جلاتے چلے جاتے ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ آپ ایک عظیم انسان تھے اور اعلیٰ پایہ کے منتظم بھی آپ نے خون ِ جگر دے کر اس ننھے منے پودے کی آبیاری کی۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے دل کے روزن میں جھانک کر دیکھے کہ مَیں نے زندگی کے شب و روز میں کتنا وقت ذاتی ضروریات پر صرف کیا اور کتنا وقت قومی فلاح و بہبود پر.... تو اس سے خود اندازہ ہو جائے گا کہ محترم کرنل سلامت اللہ مرحوم کی کوہ وقار شخصیت کے سامنے وہ ایک معمولی سنگ ریزہ ہے۔ اپنی ذات کا یہ واقعاتی تجزیہ ممکن ہے، ہمارے فکرو عمل کے لئے ایک قوت محرکہ ثابت ہو۔ محترم کرنل سلامت اللہ مرحوم کے حضور یہی سب سے بڑا نذرانہ عقیدت ہے، جو ایک ایسے شخص کی یاد تازہ کرتا رہے گا، جو اپنی زندگی میں فکرو عمل کا ایک پیکر تھا۔ لائبریری کے قیام سے قبل آپ میڈیکل اور انجینئرنگ کے غریب طلبہ کو اپنی جیب سے قرض ِ حسنہ کے طور پر وظائف دیتے تھے۔
ایک موقعہ پر آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کو لائبریری اور مسجد بنانے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ تو آپ نے فرمایا : ”مَیں 1909ءسے لاہور میں قیام پذیر ہوا۔ لارنس گارڈن (موجودہ باغ جناح) میں روزانہ آنا جانا تھا۔ مسجد کی موجودہ عمارت سے قبل یہاں ایک چھوٹی سی جگہ نماز کے لئے بنائی گئی تھی، پانی وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا اور نمازیوں کو سیر کے دوران نماز ادا کرنے میں دِقت پیش آتی تھی۔ یہ دیکھ کر مَیں نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا، جس کے لئے حکومت کی منظوری ضروری تھی اور اس کار خیر کے لئے مجھے مسلسل آٹھ سال تک تگ و دو کرنا پڑی۔ مسجد کے ساتھ لائبریری بنانے کا خیال بھی بہت دیرینہ تھا، کیونکہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں مساجد کے ساتھ عموماً کتب خانے بھی تعمیر کئے جاتے تھے“۔
دارالسلام لائبریری کی عمارت شروع میں بہت مختصر تھی۔ تین سال میں لائبریری چھت تک کتابوں سے بھر گئی۔ نومبر1969ءمیں اس کی توسیع کی گئی۔ ایک بڑا تہہ خانہ، ہال اور چند کمرے تعمیر ہوئے۔ دو سال بعد 1971ءمیں بالائی منزل تعمیر ہوئی۔ قارئین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر1993-94ءمیں ایک اور نئے ہال کا اضافہ کیا گیا۔ لائبربری اور مسجد دارالسلام کا انتظام چلانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی، جس کے چیئرمین سیکرٹری زراعت پنجاب مقرر کئے گئے۔ اس کے علاوہ 9سرکاری و غیر سرکاری اراکین بطور ممبران، کمیٹی میں شامل کئے گئے۔ بانی ادارہ کرنل سلامت اللہ اس کمیٹی کے فنانشل ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ آپ کے نزدیک ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ تعلیم ہے، جس کے لئے انہوں نے کثیر تعداد میں تعلیمی ادارے قائم کئے اور کتب خانوں کے ذریعے انہیں مستحکم کیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں کتب خانوں کو بہت اہمیت دی گئی، جس کے نتیجے میں آج وہاں علم کی ترقی اور ترویج بہت زیادہ ہے۔ آپ کے نزدیک کتابوں کی اہمیت اُن کی تعداد پر منحصر نہیں، بلکہ کتابوں کی نوعیت پر ہے۔
 فی زمانہ تکنیکی اور سائنسی کتب کی قدرو منزلت بہت بڑھ گئی ہے۔ طبی کتب کی قیمت اس قدر گراں ہے کہ عام طلبہ انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عوامی کتب خانوں میں دارالسلام لائبریری پاکستان کی پہلی لائبریری ہے، جس میں بُک بینک کا آغاز کیا گیا، چنانچہ 1968ءمیں میڈیکل بُک بینک اور1969ءمیں انجینئرنگ کے طلبہ کے لئے انجینئرنگ بُک بینک قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ اسلام پر بہت نایاب کتابیں جمع کی گئیں تاکہ تحقیق کرنے والوں کو زمانہ حاضر کے مسائل اسلام کی روشنی میں حل کرنے کے لئے کما حقہ مدد مل سکے۔ عوام کو مطالعہ کی طرف راغب کرنے کے لئے یہ ادارہ گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ خوبصورت ماحول، معیاری کتب اور قارئین سے اچھا سلوک اِس ادارے کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اب تک اِس کتب خانے سے ہزاروں طلبہ اور محققین مستفید ہو چکے ہیں۔
مسجد دارالسلام کی آبادی کے لئے آپ نے مولانا محمد علی قصوری، مولانا محی الدین قصوری، مولانا حنیف ندوی کی خدمات حاصل کیں، جو اس مسجد میں درس قرآن مجید دیتے رہے۔1976ءمیں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے خطابت جمعہ کی درخواست کی، جسے ڈاکٹر صاحب نے بخوشی قبول فرمایا اور خطابت ِ جمعہ کے فرائض انجام دینے لگے۔ دُور دراز علاقوں سے لوگ کثیر تعداد میں نماز جمعہ کے لئے مسجد دارالسلام حاضر ہونے لگے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کی و فات کے بعد آپ کے صاحبزادے محترم عاکف سعید صاحب خطابت ِ جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ فرقہ واریت سے ماورا یہ مسجد اُمت مسلمہ کے افراد کی دینی تربیت احسن طریقے سے کر رہی ہے۔ ہفتہ وار خطبہ جمعہ کے علاوہ عوام کی اصلاح و تربیت کے لئے دیگر دینی پروگرام بھی جاری ہیں۔
دارالسلام لائبریری، دارالسلام مسجد، گلشن ریسٹورنٹ کی تکمیل پر آپ یکم جولائی1978ءکو خالق حقیقی سے جا ملے۔
 آپ کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادے سلیم شہریار سلامت اس ادارے کے فنانشل ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے، جو اپنے والد محترم کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے اس ادارے کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ کے دست ِ راست احمد غفار مرحوم کی خدمات بھی ادارہ دارالسلام کے لئے گراں قدر ہیں۔ احمد غفار مرحوم کے والد محترم ڈاکٹر عبدالغفار مرحوم سابق ایم ایس میو ہسپتال بھی اس کارِ خیر میں کرنل سلامت اللہ مرحوم کے ساتھ برابر کے شریک رہے، آپ کی خدمات کے اعتراف میں دارالسلام لائبریری کا ایک ہال آپ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
اس وقت لائبریری میں تقریباً47ہزار کتب موجود ہیں جو اُردو، انگریزی اور مشرقی زبانوں میں ہیں۔ اس لائبربری کے ذخیرے میں کچھ نادر کتابیں بھی موجود ہیں۔ لائبریری میں مسودات، اسلام، مشرقی زبانوں، ادب، فقہ، حدیث، میڈیکل سائنس، انجینئرنگ سائنس، ٹیکنالوجی، کامرس، فائن آرٹس،کمپیوٹر، علم ِ تعمیرات اور تاریخ کے مضامین پر کافی بہترین کتب موجود ہیں۔ اُردو، پنجابی، فارسی، پشتو، سندھی اور بنگالی زبانوں میں بھی خاصی تعداد میں کتب دستیاب ہیں۔ عظیم صوفی شعرا کے کلام، مثلاً جلال الدین رومی، مولانا عبدالرحمن جامی، سعدی شیرازی، حافظ اور شاعر ِ مشرق علامہ اقبال ؒ کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ تاریخ کے مضمون پر نادر کتابیں ہیں اور ان کتابوں میں مزید اضافہ مرحوم پروفیسر شجاع الدین کی ذاتی لائبریری سے تاریخی کتب کے عطیہ سے ہوا۔
80سے زائد رسائل انگریزی اور مشرقی زبانوں میں مطالعہ کے لئے دستیاب ہیں۔ تقریباً تمام مقامی اخبارات، ہفتہ وار اور پندرواڑھے قارئین کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں۔ لائبریری میں طلبہ کے لئے یکسوئی سے مطالعہ کرنے کے لئے100سے زائد کیرل موجود ہیں۔ مجموعی طور پر200افراد کی گنجائش موجود ہے۔ لائبریری مکمل طور پر ائیرکنڈیشنڈ ہے۔ دارالسلام لائبریری میں تشریف لانے والے قارئین مطالعہ کے لئے اپنی ذاتی کتب بھی لا سکتے ہیں۔ اتوار کے روز صبح9بجے تا9بجے شب کھلے رہنا اس کتب خانے کی امتیازی خصوصیت ہے۔
قارئین کی طلب پر بازار سے فوری کتب فراہم کی جاتی ہیں جو اس لائبریری کی انفرادی خصوصیت ہے۔ لائبریری میں انٹرنیٹ، پرنٹر، فوٹو کاپی کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس وقت اس کتاب خانے کا بڑا مسئلہ تنگ دامنی ہے۔ روزانہ تشریف لانے والے قارئین کی تعداد 200-250 کے درمیان ہے، اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وطن ِ عزیز کے دیگر صوبوں سے طلبہ امتحانات کی تیاری کے لئے اس لائبریری سے استفادہ کر رہے ہیں۔ طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش ِ نظر لائبریری کی زیر ِ زمین توسیع کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حکومت ِ پنجاب وقتاً فوقتاً ادارے کی مالی معاونت کرتی رہتی ہے۔2012-13ءمیں حکومت پنجاب نے365000 روپے گرانٹ دی، جو کہ اس لائبریری کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔ لائبریری کی سالانہ ممبر شپ فیس300روپے ہے۔ سیکیورٹی فیس 500روپے ہے، جو قابل ِ واپسی ہے۔ لائبریری کی کتب اور دیگر علمی مواد کی کمپیوٹرائزیشن کا کام جاری ہے۔ ٭

مزید :

کالم -