جنرل مشرف غداری کیس....(2)

جنرل مشرف غداری کیس....(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نوازشریف عدالتوں سے نالاں رہے کہ سعید الزماں صدیقی کے برعکس درجن بھر پنجابی ججوں نے م±شرف کی بیعت کر لی اور سندھی جج اڑے رہے، سعیدالزماں صدیقی، ناصر اسلم زاہد اور وجیہ الدّین جیسے نامی ججز کے ساتھ گھر لوٹ گئے۔ ظفر علی شاہ کیس میں انصاف کے بر عکس ججوں نے ڈکٹیٹر کو وہ آئینی تبدیلی کرنے کا اختیار دیا جس کی ا±نھوں نے استدعا بھی نہیں کی تھی، نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید ہوئی اور حکومت اپیل میں چلی گئی اور سزائے موت مانگتی رہی۔ ا±س کیس کافیصلہ بھی نہ ہوا، افتخار چودھری کو 9 مارچ 2007 کو معطل کیا تو ا±نھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کیا ا±ن کو لاہور کے چیف جسٹس افتخار حسین پر اعتماد نہ تھا، اب مشرف صاحب بھی انصاف کی دھائی دے رہے ہیں اور بادی النظر میں ا±نھیں اس عدلیہ سے انصاف کی ا±مید نہیں ہے۔ ہے بھی، نہیں بھی۔ تو ایسی صورتِ حال میں وہ کوشش جس سے جگ ہنسائی کے علاوہ ک±چھ نہیں ملے گا ایک فریبِ نظر تو ہو سکتا ہے یا مسائل سے توجہ ہٹانے کی میڈیا گری، لیکن ا±سے انصاف کے تقاضے پورے کرتا م±نصفانہ ٹرائل کہنا دانشمندی نہ ہو گا، ایسا ٹرائل جس کی درخواست مظلوم وزیرِ اعظم دے، عدالت مظلوم چیف جسٹس لگائے اور رکھوالی م±شرف کا ساتھی اور تابع دار جنرل کیانی کرے، کاش میں کہ سکتا 'میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو صبح بے نور کو،لیکن قائدِ اعظم کا پیروکار ہونے کے ناطے اتنا کہوں گا کہ برداشت میں ہی قوم کی فتح ہے اور نواز شریف کو یہاں سٹیٹس مین بننا پڑے گا۔ یہ منافرت والی سیاست سے بات آگے بڑھ چ±کی ہے۔ جنھوں نے م±شرف کو دھکا دیا ہے وہ تماشہ دیکھنے کے م±نتظر بھی تو ہوں گے۔
اگر م±شرف کا ٹرائل ہوتا ہے تو انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے۔ ریاست کے ا±وپر بھاری ذمہ داری ہو گی، کیونکہ عدلیہ کا ماضی بے داغ نہیں۔ ٹرائل ہونے سے واقعی پہاڑ نہیں گرے گا، لیکن کیا م±لکی حالات اس قابل ہیں کہ چومکھی کھیلی جائے۔ ٹرتھ کمیشن کی طرف بڑھنا اور برداشت کا سبق کڑوی ہی صیحح ،لیکن موَثر دوا ہو گی، جس کا بی بی اور میاں نواز شریف نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں وعدہ کیا اور قائدِ اعظم نے بھی اسی بات کا درس دیا مولوی تمیزالدّین سے لےکر نواز شریف، بے نظیر اور افتخار چودھری سب سب اپنے اپنے ادوار میں حکومتی جبر کی وجہ سے انصاف سے نا ا±مید رہے، ا±س نا ا±میدی کو انصاف کی فراہمی پر یقین میں بدلنا صیحح معنوں میں کامیابی ہو گی اور سونے پہ سہاگہ رہی سہی م±نصفانہ ٹرائل کی کسر ریمنڈ ڈیوس کی اچانک واپسی نے نکال دی جو اسلحے کا بے دریغ استعمال کر کے ، بندے مار کے مکھن میں سے بال کی طرح نکل گیا اور ریاست د±لہن کی طرح شرماتی رہ گئی اور قوم ڈاکٹر عافیہ سے شرمندہ سی ہو گئی۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں انصاف کی ا±میدوں پہ اتنا ہی بھروسہ کرنا جائز ہے جتنا سٹیک ہولڈرز اجازت دیں اور یہاں تو مافیا بردار گروہ نکڑ نکڑ پر ہیںاب واپس جنرل م±شرف کے ٹرائل کی بات کریں تو وزیرِ اعظم بلوچستان میں ایک اچھا آغاز کر چ±کے ہیں اور انہیں ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی م±فاہمت کی توسیع کرنی چاہیئے۔ پاکستان میں سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ایسے میں ساوَتھ افریقی طرز کا Truth and Reconsiliation Commission

برائی کو جڑ سے ختم کرنے میں حکومت کے لئے معاون ثابت ہو سکتا ہے اور ہمیں کمزور کریمنل سسٹم کی ا±س دلدل سے نکال سکتا ہے جو کہ ایک دیرینہ مرض کی طرح یقینی م±نصفانہ ٹرائل کی قابلیت پر سوالیہ نشان بن چ±کی ہے اگر ہم محاذ آرائی جاری رکھیں گے تو صرف ایک دوسرے پر کیچڑ ا±چھالتے رہ جائیں گے۔ آمریت کے ایک طویل دور کی وجہ سے کوئی بھی الزامات سے ماورا نہیں ہر کسی پر ملامت ہو رہی ہے۔ لہذا اگر ناموزوں اقدامات کا یہ سلسلہ جاری رہا تو سوئس اکاوَنٹ سے اصغر خان کیس کے فیصلے تک، پی سی او حلف ا±ٹھانے سے قانون نافذ کرنے والے طبقات کے ماورائے قانون اقدامات تک اور آمریت سے سویلین بادشاہی اور بیوروکریسی کی موٹی بلی تک سب کلہاڑی کے دہانے پر ہوں گے۔ سو آگے بڑھتے ہیں اور پاکستان کو قائدِ اعظم کے وژن کا روادار، جدید اور ترقی پسند پاکستان بناتے ہیں۔ہم زیارت میں ا±ن کی ریزیڈنسی کی حفاظت نہیں کرسکے ،لیکن ہم ا±ن کے عزم کو بچا سکتے ہیں، جس کی منعکس پاکستانی قوم ہے جو ہمیشہ قانون کی بالا دستی، جمہوریت اورووٹ کے تقدس کی حمایت میں گواہی دیتی ہے اور پاکستان کا مثبت ر±خ ہے۔ چلیں ایک ایسے ڈراوَنے کھیل سے اجتناب کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں ہم اپنی زمین کو اپنے ہی پیروں کے نیچے کچل دیں گے، ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم ایک دہشت گرد تک کے ٹرائل کو یقینی نہیں بنا سکتے جس کی وجہ سے بہت سے ملزم لا پتہ ہیں یا فاٹا میں بیٹھے ہیں تو ایک آدمی جو چک شہزاد میں اپنی محل نما رہائش گاہ میں موجود ہے ا±س کا م±نصفانہ ٹرائل کرتے ہیں۔ اس کے خلاف علامتی کاروائی کر کے آگے بڑھتے ہیں اورغیر آئینی احکامات کے اس سلسلے کو ختم کرتے ہیں، جس کا آغاز ا±س نے کیا تھا۔ اور بالآخر جمہوریت ہی پاکستان کا مقدر ہو گی م±نصفانہ ٹرائل کسی کی پرائیوٹ پراپرٹی نہیں،بلکہ ایک داستان/ اخلاقیات کی تخیّلاتی کہانی ہے۔ مَیں نے دو دفعہ آمر کے خلاف پیٹیشنز فائل کیں، پہلی مرتبہ جب ا±س نے چیف جسٹس کو معزول کیا اور دوسری مرتبہ جب پارلیمنٹ کا رکن بننا چاہا، لیکن موجودہ ریاستی انفراسٹرکچر انتہائی کمزور ہے کہ میں موجودہ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کو حسبِ قانون اور م±نصفانہ ٹرائل کا چیلنج قبول کرنے کی سفارش کرتے ہوئے خود تذبذب میں مبتلاہوں۔ شاید'غاصب' کا لقب، جیسا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں لکھ چ±کی ہے، اور آرٹیکل6 کے تحت فردِ ج±رم عائد کرنا اس تاریخ کو دوہرائے جانے سے روکنے اور متعلقہ اداروں یا افراد کو میسج دینے کے لئے کافی ہو۔ بہتر یہ ہو گا کہ نواز شریف چیف آف آرمی سٹاف اورمحکماتی سپورٹ کو الگ کرنے جیسی شکایات فائل کرنے کے لئے لاءآفیسرتعینات کریں جیسا کہ آمر نے کیا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ٹرائل شروع ہونے سے پہلے نتائج پتا چل جائیں گے۔ وہ تو آمر کی غلطیوں کو پہلے ہی معاف کر چ±کے ہیں یہ وقت ہے کہ آ±سے عوام سے معافی منگوائی جائے۔ (ختم شد)   ٭

مزید :

کالم -