ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حالیہ اقدامات

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حالیہ اقدامات
 ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حالیہ اقدامات
کیپشن: drug

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے گزشتہ دنوں قومی اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے ہدایت کی گئی ہے کہ تمام دواساز ادارے یا ادویہ بنانے والے ادارے دوماہ کے اندر اندر اپنی مصنوعات کو اتھارٹی سے رجسٹرڈ کروائیں، رجسٹریشن کے لئے ادویہ کے نسخہ جات، اس میں استعمال ہونے والے اجزائے ترکیبی، ان کی مقدار خوراک، ان کے معیار اور مقدار کو باقاعدہ تجربہ کار کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مستند افراد سے چیک کراکے ادویہ کے Batch Noمینوفیکچرنگ ڈیٹ، Expiry Dateاور قیمت درج کرکے ہردوا کو مارکیٹ میں لائیں ۔ اگرچہ ایسا ہی حکم دیگر اشیائے خورونوش اور کاسمیٹک کے بارے بھی ہے۔ اشتہار میں بھی یہ دوٹوک ”انتباہ“ درج ہے کہ جولوگ اس قانون کی پابندی نہیں کریں گے، ان کو قیدوبند اور جرمانہ اور بعض حالات میں دونوں سزاﺅں کو بھگتنا ہوگا۔ تقریباً دوسال پہلے اس وقت کی وزیرصحت جناب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنی وزارت کے آخری ایام میں ڈرگ ریگولیٹری ایکٹ انتہائی عجلت اور ظالمانہ انداز میں منظور کرایا اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے فوری دستخط فرما کر اس ایکٹ کی منظوری ،بلکہ نافذالعمل ہونے کا نوٹس جاری کردیا۔
 تفصیلات سامنے آئیں تو ملک بھر کے اطباءاور ہومیو ڈاکٹر حضرات اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ اس ایکٹ کی خوبیوں اور خامیوں پر طویل تبصرے اور مضامین سامنے آئے، اور واضح کیا گیا کہ اطباءخود چاہتے ہیں کہ ان کے دواسازی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے قانون اور ضابطے موجود ہوں، جیسے کہ پوری مہذب دنیا میں موجود ہیں، لیکن اطبا ءکی فلاح اور بہتری کے لئے جو قوانین بنائے جارہے ہیں ، قانون سازی کے مرحلے میں صاحب لرائے اور چند باعمل اور ذی علم اطباءکو رکھا جائے جوکہ قانون سازی میں اطباءکے مسائل کو ذہن میں رکھ کر قانون سازی کریں ۔ موجودہ صورت حال تو ایسی ہے کہ گھڑی کی مرمت اور اصلاح کسی درزی یا موچی سے کروائی جائے ، جو قوانین، ڈرگ انسپکٹر یا ضابطے اطباءکے لئے بنائے جارہے ہیں، وہ اطباءکی رائے سے بنائے جائیں، یہ مطالبہ جائز ،درست اور قرین انصاف ہے، لیکن بدقسمتی ہے کہ تعلیم کی پالیسی، صحت کی پالیسی یا کوئی بھی پالیسی بنائی جائے وہ صرف بیوروکریسی بنائے۔ تعلیم کے مسائل کے بارے میں ماہرین تعلیم ہی صحیح رہنمائی دے سکتے ہیں اور صحت واطباءکے مسائل کے بارے میں صرف ڈاکٹر حضرات یا بیوروکریٹ حضرات کی رائے کو فوقیت دینا کس حدتک درست ہے ، یہی ظلم عظیم ہے جوکہ اس ملک میں جاری ہے۔
جب اس ظالمانہ ڈرگ ایکٹ کے خلاف ردعمل سامنے آیا تو وزارت کے بزرجمہروں نے حالات کو سنبھالا دینے کے لئے مذاکرات کا ڈول ڈالا، وقت کو ٹالنے اور مطمئن کرنے کے لئے ہومیو کے دواسازاداروں P.H.P.NAکے مالکان یونانی دواسازاداروں کی تنظیم PTP.MAکے تحت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسلام آباد لاہور میں کئی نشستیں ہوئیں، دواساز اداروں نے اپنے مطالبات اور تجاویز دیں، وزارت کے ذمہ داران نے یقین دہانی کرائی کہ معقول تجاویز کو ڈرگ ایکٹ کا حصہ بنا کر ظالمانہ قوانین بدل دیئے جائیں گے۔ یہ بھی طفل تسلی دی گئی کہ پریکٹس کرنے والے اطباءہومیو حضرات ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہوں گے۔ وہ اپنے شفاخانوں میں اپنے نسخہ جات یادواسازی اپنی ضروریات کے مطابق کریں گے اور کوئی ڈرگ انسپکٹر ان کو تنگ نہیں کرے گا ، اگر ان کی ادویہ کے معیار کو چیک کرنا ہوگا تو حکیم ڈرگ انسپکٹر یا ہومیو ڈرگ انسپکٹر جائزہ لیں گے، لیکن اب یکایک دوماہ کا نوٹس دے کر جوقانون ظالمانہ طورپر نافذ کردیا گیا ہے، وہ ان یقین دہانیوں کے بالکل برعکس ہے جوکہ وزارت کے ذمہ داران کی طرف سے کرائی گئی تھیں۔
ایک لاکھ سے زائد ہومیو ڈاکٹر اور اطباءحضرات اس پیشے سے منسلک ہیں ،جن میں خوف وہراس اور شدید نفرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد خاندان اور 70فیصد آبادی کے غریب مریض حضرات جوکہ ان غریب پروراطباءاور ہومیو ڈاکٹروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ پریشان ہیں کہ ایک سازش کے تحت پاکستان سے طب اور ہومیو کے فن کا خاتمہ کیا جارہا ہے، جبکہ یورپ اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں ہربل میڈیسن اور ہومیو پیتھی علاج ایلوپیتھی کے مدمقابل مقبولیت اختیار کرچکا ہے۔ خودایلوپیتھی معالجین اس کے منفی اثرات سے پریشان ہیں۔ ہمارے پڑوس بھارت میں ان فنون کی حوصلہ افزائی کرکے صحت کے مسائل پر قابو پالیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او روایتی میڈیسن Alternative Medicinesکو تسلیم کرکے ان کی حوصلہ افزائی چاہتا ہے۔ چین ہربل میڈیسن کے ذریعے اس شعبے میں پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہے۔ موجودہ حکومت جو کہ عوام کی خدمت کا عزم لے کر برسراقتدار آئی ہے ،وہ پہلے سے گونا گوں قومی وبین الاقوامی مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، ملک بھر کے اطباءاور ہومیو پیتھک ڈاکٹر حضرات اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر آتے ۔صوبائی اور قومی اسمبلی کے باہر احتجاج پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔

اس شریف پیشے سے منسلک لاکھوں افراد سڑکوں پر آنے یا احتجاج کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے ، ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت اور وزارت صحت ریگولیٹری ہیلتھ اتھارٹی راست اقدام سے پہلے ہی ہومیو اور اطباءحضرات کی تنظیموں اور بااثر افراد سے مذاکرات کرکے اس پریشانی کو دورکرنے کا اہتمام کرے۔ حکومتیں عام طورپر کان رکھنے کے باوجود سنتی نہیں۔ آنکھ رکھنے کے باوجود دیکھتی نہیں، اور جب تک لوگ ماڑدھاڑ پر نہ اتر آئیں، سرکاری ایوانوں اور حکمرانوں تک کوئی آواز قابل سماعت نہیں سمجھی جاتی ۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان جوکہ ہربل میڈیسن اور ہومیو پیتھی میں دنیا بھر کو رہنمائی دے سکتا ہے اس وطن میں طب کے قتل کے اس عاجلانہ فیصلے پر عملدرآمد کو روکا جائے گا۔ طب کے ساتھ ایسا ظلم تو انگریز کے دور اور غلامی کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا کجا کہ آزادی کے اس دور میں جس میں قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق اس پیشے اورفن کی ترقی کا وعدہ کیا گیا تھا۔  ٭

مزید :

کالم -