شیخ رشید احمد۔۔۔پرائے کندھوں کا متلاشی!!

شیخ رشید احمد۔۔۔پرائے کندھوں کا متلاشی!!
 شیخ رشید احمد۔۔۔پرائے کندھوں کا متلاشی!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب سے شیخ رشید احمد نے میاں نواز شریف سے بے وفائی کی ہے اور ن لیگ کی دی ہوئی عزت ، وقار ، مقام اور مان کو جھٹک کر پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کا حصہ بنے ، تب سے ان کی سیاسی کشتی حالات کی بے رحم موجوں میں پھنس کر شرق و غرب کے تھپیڑے کھا رہی ہے۔ ڈکٹیٹرپرویز مشرف کی سیاست سے ذلت آمیز بے دخلی کے بعد شیخ رشید بھی عملاً سیاسی موت مر چکے ہیں۔ اپنی سیاست کے مُردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی مالی معاونت سے عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کی پوری جماعت ایک چنگ چی رکشے میں سما سکتی ہے۔اب چونکہ ان کے پاس اپنی سٹریٹ پاور اور وننگ ووٹ بنک نہیں ہے تو وہ ہر وقت دوسروں کے کندھوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔اس وقت وہ کسی صورت قومی اسمبلی کے ممبر نہ ہوتے ، اگر ان کو2013ء کے قومی الیکشن میں تحریک انصاف کا کندھا میسر نہ آتا اور آثار بتا رہے ہیں کہ شیخ صاحب آئندہ قومی الیکشن بھی تحریک انصاف کے کندھے پر بندوق رکھ کر ہی لڑیں گے۔


حالات و مفادات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ دو تہائی اکثریت کا مینڈیٹ رکھنے والی نواز حکومت پر12اکتوبر 1999ء کو شب خون مارنے کے بعد پرویز مشرف کو بھی بے ساکھیوں کی ضرورت تھی، جبکہ شیخ رشید احمد بھی کسی مضبوط کندھے کے متلاشی تھے۔ لہٰذا دونوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک دوسرے کی ضرورت پوری کی۔ جنرل (ر)پرویز مشرف کو اگر شیخ صاحب موجودہ حالت و کیفیت میں ملتے تو انہوں نے شیخ جی کو اپنے آمرانہ دورِ اقتدار میں بالکل لفٹ نہیں کروانی تھی،لیکن چونکہ شیخ رشید احمد مسلم لیگ(ن) سے وابستہ سیاستدان تھے ، اس لئے ان کو مسلم لیگ(ن) سے توڑنے اور میاں نواز شریف کے خلاف بولنے کے لئے اطلاعات و نشریات اور ریلوے کی وزارتیں عطاء کی گئیں۔ شیخ صاحب نے کندھے استعمال کرنے کا فن کہیں سے سیکھا نہیں،لکہ اپنے دیرینہ دوستوں کے کندھے بار بار استعمال کر کے یہ فن ان کے خون میں شامل ہو چکا ہے۔ راولپنڈی سے ممبر قومی اسمبلی شکیل اعوان، چودھری تنویر احمد، مئیر راولپنڈی سردار نسیم خان ، سابق ممبر قومی اسمبلی حاجی پرویز خان اور اعجاز خان جازی سمیت متعدد سیاستدان ہیں جن کا کندھا شیخ صاحب نے بار بار استعمال کیا،جس سے ان کی پرایا کندھا استعمال کرنے کی عادت پختہ ہوتی چلی گئی۔ دوسروں کے کندھے استعمال کرنے کے ساتھ یہ احتیاط بھی شیخ جی کرتے ہیں کہ کوئی ان کااپنا کندھا استعمال نہ کر پائے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا کندھا کبھی اس قابل رہا ہی نہیں کہ کوئی اسے استعمال کر کے فائدہ حاصل کر سکے۔اب تو المیہ یہ ہے کہ آج کل ہر دوسرا بندہ بالخصوص ہر سیاست دان کندھوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن شیخ جی کی ایک بہت خطرناک عادت اور بھی ہے جو انھیں دوسرے لوگوں سے ’’ممتاز‘‘ کرتی ہے۔وہ عادت یہ ہے کہ کندھا استعمال کرنے کے بعد شیخ صاحب ااس کندھے کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش بھی کر ڈالتے ہیں ۔ان کا سب سے فیورٹ کندھا بہت ’’مقدس‘‘ ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پرویز مشرف اسی ’’ تقدیس‘‘ کے نمائندہ تھے ، جن کا کندھا استعمال کرنے سے ان کو دو دو وزارتوں کے مزے لوٹنے کو ملے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ بے وفائیوں کا ’’ شاندار ‘‘ ٹریک ریکارڈ رکھنے کی وجہ سے اب کوئی سیاسی جماعت ان کو مستقبل میں کوئی وزارت تو کجا ، کسی چھوٹی موٹی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئر مین شپ بھی نہیں دے گی ۔ لہٰذا وہ ہر دوسرے نیوز چینل پر بیٹھے ’’ مقدس ‘‘ کندھے کو نہ صرف یاد کر رہے ہوتے ہیں،بلکہ اشاروں کنایوں میں ان کو ایک بار پھر ’’اقتدار ، اقتدار ‘‘ کھیلنے کی دعوت بھی دے رہے ہوتے ہیں،لیکن ظالم یہ ’’مقدس کندھا‘‘ بھی اب کافی با شعور اور سمجھدار ہوگیا ہے، جو ان کی دُھائیوں کو بے رحمی سے نظر انداز کرتا چلا جا رہا ہے۔


ِٓ’’مقدس کندھے ‘‘ سے مایوس ہوکر ابھی شیخ صاحب مزید کسی نئے کندھے کی تلاش میں نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ان کو ’’ امام انقلاب‘‘ طاہر القادری کے آنے کی نوید سنائی دے گئی ۔ یہ خوشخبری سنتے ہی ان کو طاہر القادری کی شکل میں ایک ’’آزمودہ ‘‘ کندھا دکھائی دیا جو شیخ صاحب کے خیال میں ان کی دم توڑتی سیاست کو زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ایک بار پھر حالات و مفادات کی ستم ظریفی کہ طاہر القادری کو بھی کسی بے ساکھی کی ضرورت تھی اور شیخ جی کو کندھے کی ۔لہٰذا ایک مرتبہ پھر مشترکہ مفادات کے تحت دونوں نے ایک دوسرے کی طرف ایک بار پھر ’’دوستی‘‘ کا ہاتھ بڑھایا ہے۔قادری صاحب کے لاہور اتر تے ہی سیاسی حوالے سے پہلا فون شیخ رشید کا ہی آیا،جس میں دونوں نے بے تابی سے ملاقات طے کی اور پھر 15جون کو ان کی ملاقات ہو بھی گئی۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں ’’ناراض کزن‘‘ کو منانے اور مل کر ’’ جابر‘‘ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فارمولہ بھی طے کیا گیا۔ 2014ء کے دھرنے میں شیخ رشید کو عمران خان ، طاہر القادری اور ’’پردہ نشین سرکار‘‘کے تین ، تین کندھے میسر تھے اور انہوں نے ان کندھوں کو اپنی مُردہ سیاست زندہ کرنے کے لئے خوب استعمال بھی کیا تھا، لیکن اب ان تینوں کندھوں کو یک جا کرنا بہت مشکل ہی نہیں ، ایک حد تک ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک انصاف اب طاہر القادری اور شیخ رشید سے بہت محتاط دکھائی دے رہی ہے۔عمران خان کو پارٹی کے اندر سے دباؤ ہے کہ ’’ تنہا‘‘ اننگز کھیلیں ۔ خود عمران خان بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ شیخ رشید اور طاہر القادری کے ’’اتحاد ‘‘سے ان کو کچھ فائدہ نہیں،بلکہ شیخ رشید ان سے یک طرفہ سیاسی مفادات سمیٹ رہے ہیں،جبکہ طاہر القادری کے متعلق تحریک انصاف اس لئے محتاط ہے کہ ’’ کریڈٹ ‘‘ لینے اور دوسروں کی محنت اور جدو جہد کو ’’کیش ‘‘ کرانے میں قادری صاحب کا کوئی ثانی نہیں ۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ 2014ء کے دھرنے میں زیادہ محنت تحریک انصاف کے ورکر کرتے رہے جبکہ آخر میں سارا ’’کریڈٹ ‘‘ لے کر قادری صاحب خاموشی سے اپنے ’’وطن ‘‘ کینیڈالوٹ گئے تھے۔ اس لئے عمران خان کی کوشش ہے کہ بجائے اس کے کہ شیخ اور قادری ایک بار پھر تحریک انصاف کا کندھا استعمال کریں ، ان دونوں کو کسی طرح بہلا پُھسلا کر تحریک انصاف میں ہی شامل کر لیا جائے۔ شیخ رشید کو تو عمران خان نے باضابطہ تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دے دی ہے جبکہ شنید ہے کہ طاہر القادری کو بھی تحریک انصاف میں شامل کرنے کے لئے لابنگ کی جا رہی ہے۔تحریک انصاف کے ورکرز کے ان تحفظات کی وجہ سے اب شیخ رشید کے لئے پی ٹی آئی کا کندھا ایک بار پھر استعمال کرناشاید اتنا آسان نہ ہو،لیکن ’’شیخ قادری‘‘ اتحاد کے بعد کوئی چمتکار بھی ہو سکتا ہے۔ان دونوں کے پرائے کندھے استعمال کرنے کے وسیع تجربات باہم مل کر عمران خان کو ’’ رام ‘‘ بھی کر سکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوگیا تو شیخ صاحب کو ایک بار پھر دو آزمودہ کندھے مل جائیں گے ، جن کو استعمال کر کے شاید وہ آئندہ الیکشن میں اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے میں کسی حد کامیاب ہوجائیں ۔تلخ لیکن سچ یہی ہے کہ شیخ صاحب کو مُلک و قوم کا نہیں، اپنی سیاسی حیات کا مسئلہ درپیش ہے۔شیخ رشید احمد کی سیاسی زندگی کے ’’انقلابات‘‘ کو دیکھتے ہوئے اور اپنے صحافتی تجربے کی بنیاد پر میری پیش گوئی ہے کہ جس طرح کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ شیخ صاحب کبھی مسلم لیگ(ن) کو چھوڑیں گے یا میاں نواز شریف کے خلاف ذاتی بغض عناد رکھیں گے ، لیکن ایسا مفادات کے تحت ہوااور شیخ صاحب نے کر دکھایا، اسی طرح آج بھی کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شیخ صاحب پی ٹی آئی یا عمران خان کے خلاف کبھی نہیں ہو سکتے ہیں، ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آئندہ سال ہونے والے الیکشن کے بعد اگر شیخ رشید احمد اپنی سیٹ ہار گئے ، جس کے ابھی سے واضح امکانات ہیں ، تو پھر شیخ رشید احمد کی سیاست ایک اور موڑ لے گی کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف’’طبل جنگ‘‘ بجاتے ہوئے کسی اور جماعت کے کندھے پر اپنی بندوق رکھ کر ،بیانات کے ’’فائر‘‘ کھول دیں گے اور ان کی مخالفت کی شدت آج مسلم لیگ (ن) کے خلاف ان کی جاری بیان بازی سے کئی گنا زیادہ ہوگی ، بس تھوڑا انتظار!

مزید :

کالم -