سلیبس مکمل نہ ہونے سے طلبہ کے پاس ہونے کی شرح میں کمی آئی، ادیب جاودانی

سلیبس مکمل نہ ہونے سے طلبہ کے پاس ہونے کی شرح میں کمی آئی، ادیب جاودانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(پ ر)آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ادیب جاودانی اور ان کی تنظیم کے رہنما چوہدری واحد احمد‘ جاوید انجم ‘ عامر مشتاق‘ رانا ندیم صابر ایڈووکیٹ اور کاشف ادیب نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت نہم اور میٹرک کے امتحانات میں ہر سال 56 فی صد طلباء طالبات فیل ہو جاتے ہیں۔ فیل ہونے کی بڑی وجہ طلباء و طالبات کا سلیبس مکمل نہ ہونا اور ثانوی تعلیمی بورڈ کی طرف سے پیپرز صحیح طور پر نہ چیک کرنا ہے۔ 26جولائی کو جو میٹرک کا رزلٹ آ رہا ہے، خدا کرے کہ وہ صاف وشفاف ہو ۔ہزاروں طلباء و طالبات کا رزلٹ بھی لیٹر آن کر دیا جاتا ہے۔ فیل ہونے والے بچوں کو اپنے پیپرز چیک کروانے کے لئے ثانوی تعلیمی بورڈز کو اچھی خاصی رقم بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ ری چیکنگ کروانے کے بعد بھی بچوں کو پاس ہونے کا رزلٹ بھی نہیں ملتا۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کو امتحانات شفاف طریقے سے لینے چاہئیں، تاکہ کسی بچے کی حق تلفی نہ ہو۔
ادیب جاودانی نے کہا کہ پنجاب کے ثانوی تعلیمی بورڈز نے مختلف کاموں کے لئے بہت زیادہ فیسیں مقرر کر رکھی ہیں۔ نام ، ولدیت اور تاریخ پیدائش کی درستگی کے لئے طالب علموں سے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ ایک ہی بورڈ کے مختلف سیکشن مختلف ناموں سے طالب علم سے روپے بٹورتے ہیں۔ نام ، ولدیت اور تاریخ پیدائش کی غلطی میں اکثر اوقات قصور بورڈ کے متعلقہ اہلکاروں کا ہوتا ہے مگر جیب طالب علموں کی ہلکی کی جاتی ہے۔ حکومت کو ایسے معاملات کا نوٹس لینا چاہیے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ادیب جاودانی نے یہ بھی کہا کہ ثانوی تعلیمی بورڈ کا رجسٹریشن کے ساتھ اصل سند کی فیس 550 روپے وصول کرنے کا کیا جواز ہے؟ اگر کوئی طالب علم میٹرک پاس نہیں کر پاتا تو اسے سند بھی جاری نہیں ہو گی پھر اس سے 550 روپے بورڈ کیوں وصول کرتا ہے؟ اب جبکہ بورڈ کا سارا سسٹم آن لائن ہو گیا ہے تو پھر بورڈ کے اخراجات میں کمی ہونی چاہیے۔ ادیب جاودانی نے کہا کہ پنجاب ثانوی تعلیمی بورڈ نے میٹرک امتحانات میں جو عمر کم از کم 14 سال مقرر کی ہے، اس سے سینکڑوں بچوں کا مستقبل داؤپر لگ گیا ہے۔ ملک کے دوسرے تینوں صوبوں میں اس قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ 14 سال عمر مقرر کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔