قسط نمبر 136۔ ۔ ۔ مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز

قسط نمبر 136۔ ۔ ۔ مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز
قسط نمبر 136۔ ۔ ۔ مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم نے جمال کو ذرا غور سے دیکھا۔ سب کچھ وہی تھا۔ صرف اتنا فرق تھا کہ جمال کی ناک قدرے لمبی اور نوک دار تھی جو ان کے سرخ و سفید چہرے اور پتلے پتلے سرخ ہونٹوں کی وجہ سے کافی نمایاں تھی۔ یوں سمجھئے لمبی ناک جمال اور ندیم میں مشترک تھی۔ ہم نے دل میں سوچا بھئی یہ بھی خوب رہی۔ ہمیں جو بھی ہیرو ملتا ہے، لمبی ناک والا ہی ملتا ہے۔
ہم نے جمال کو مخاطب کیا ’’آپ بمبئی سے کب آئے؟‘‘
جمال نے مختصر سا جواب دے دیا۔
ہم نے دوسرا سوال کیا ’’کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟‘‘
وہی مختصر جواب
نسیم الثقلین ثاحب مسکرائے اور جمال سے کہنے لگے ’’میاں۱ اتنی مختصر بات کیوں کر رہے ہو۔ کھل کر بات کرو۔ وہ تمہاری آواز اور لب و لہجہ سننا چاہتے ہیں‘‘۔
جمال نے اس بار ہمارے سوال کا قدرے لمبا جواب دے دیا۔ ہم غور سے جائزہ لیتے رہے۔ چائے پینے کے بعد جمال رخصت ہوگئے۔

مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔قسط نمبر 135 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نسیم صاحب نے پوچھا ’’کیوں، کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’ٹھیک تو ہے مگر۔۔۔‘‘
بولے ’’کیا اسکرین ٹیسٹ لینا چاہتے ہیں؟ ایس ٹی زیدی صاحب بھی اپنی اگلی فلم کیلئے ان کا اسکرین ٹیسٹ لینے والے ہیں۔ آپ بھی دیکھ لینا، پھر فیصلہ کرنا‘‘۔
ہم نے کہا ’’نسیم صاحب! ہمیں اب ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لڑکا ہماری فلم کے کردار کیلئے بالکل مناسب ہے‘‘۔
جمال کی آواز، قد و قامت کے مقابلے میں پتلی تھی۔ آواز میں زیرو بم بھی نہ تھا مگر تربیت سے اس کو بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ چہرے پر بہت زیادہ تاثر تو نہیں تھا مگر بالکل سپاٹ چہرہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے اسی وقت جمال کو ’’سزا‘‘ کا ہیرو بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن انہوں نے اپنے اصلی نام کے بجائے جمیل کے نام سے فلم میں کام کیا۔ اس کی وجہ پہلے بتائی جاچکی ہے۔ اول الذکر جمال کو ہم نے بھی دیکھا تھا۔ وہ مضبوط جسم اور مناسب قد و قامت کا نوجوان تھا۔ رنگت سانولی تھی لیکن ناک نقشہ اچھا تھا۔ آواز میں بھی گہرائی تھی۔ لیکن وہ ہماری فلم کے کردار کیلئے مناسب نہ تھا۔ جمال نے دلجیت مرزا کی فلم میں کام کیا۔ یہ فلم تو درمیانہ درجے کی رہی مگر جمال فلم انڈسٹری میں کامیاب نہ ہوسکے۔
ہم نے نسیم صاحب سے کہا ’’نسیم صاحب! آپ ہمارا کانٹریکٹ ٹائپ کرادیجئے۔ ہماری فلم میں جمال کا نام جمیل ہوگا‘‘۔
نسیم صاحب دستاویزات ٹائپ کرنے میں بہت ماہر تھے۔ ان کے اکثر دوست اس قسم کے کام ان ہی کے سپرد کردیتے تھے۔ انہوں نے اسی وقت اسٹامپ پیپر لانے کیلئے عملے کے ایک کارکن کو روانہ کردیا۔ جمیل سے ہم نے تین فلمون کیلئے معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے میں یہ شرط نمایاں تھی کہ جب تک ’’سزا‘‘ ریلیز نہ ہوگی وہ کوئی دوسری فلم سائن نہیں کریں گے اور اس کے بعد بھی ہماری اجازت کے بغیر کسی اور کی فلم میں کام نہیں کریں گے۔
اس طرح ہماری ہیرو کی تلاش ختم ہوئی اور جمیل کو ہماری فلم کا ہیرو منتخب کرلیا گیا۔
یہ وہی جمیل یا جمال ہیں جو بعد میں بمبئی چلے گئے تھے اور بمبئی کی مشہور فلمی ہیروئنوں فرح اور تبو کے والد ہیں۔ ان کی ایک بیٹی فرح نے بمبئی کی فلمی دنیا میں دھومیں مچائیں۔ آج کل ان کی چھوٹی بیٹی تبو نے بھی اداکاری شروع کردی۔ مگر ان کے والد جمال (جمیل) فلمی دنیا اور بیوی بچوں کو چھوڑ چکے ہیں۔
یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے۔ پاکستان میں جمیل کی فلمی سرگرمیوں کی داستان آپ آگے پڑھیں گے۔ فی الحال ان کی صاحب زادیوں کے حوالے سے کچھ بیان ہوجائے۔
جب جمیل فلم ’’سزا‘‘ میں کام کرنے کیلئے آئے تھے تو وہ شادی شدہ تھے اور شادی بھی عام شادی نہیں بلکہ ’’لو میرج‘‘ جو دونوں نے اپنے اپنے خاندانوں کو مخالفت کے باوجود کرلی تھی۔
جمیل ایک خوب رو آدمی تھے۔ وہ ایرانی النسل ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد ایران سے آکر ریاست حیدر آباد (دکن) میں آباد ہوئے تھے۔ بعد میں وہ بمبئی اور پونا چلے گئے جہاں فلمی مراکزہیں۔ اداکاری بننے کا شوق انہیں ابتدائی عمر سے ہی تھا مگر بھارتی فلمی دنیا میں انہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی تو انہوں نے پونا میں ایک ریستوران قائم کرلیا۔ اپنی بیوی رضوانہ سے ان کی ملاقات پونا میں ہی ہوئی تھی۔ رضوانہ کا خاندان حیدر آباد دکن میں رہائش پذیر تھا جن میں سے بیشتر لوگ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ اختر صاحب سے ان کی قدرے دور کی رشتے داری تھی۔ گویا جمیل (جمال) اختر صاحب کے بھانجے نہیں تھے۔ ان کی بیگم سے اختر صاحب کی رشتے داری تھی۔
اداکاری کا شوق جمیل کو پاکستان لے آیا تھا۔ جب وہ لاہور آئے تو ان کی بیٹی فرح کی عمر پانچ سال کے لگ بھگ تھی۔ فرح بہت پیاری بچی تھی۔ گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، نازک نقش و نگار، سنہری مائل بال اور بھوری آنکھیں۔ وہ شرارت نہیں کرتی تھی، بس خاموشی سے بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتی رہتی تھی۔ بچپن میں ہم نے اسے سنجیدہ اور خاموش ہی دیکھا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ جمیل کو غصہ بہت آتا تھا اور غصے میں وہ بچی کی پٹائی تک کردیا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ سہمی سہمی رہتی تھی۔ ان کی دوسری بیٹی تبو پاکستان سے واپس جانے کے بعد پیدا ہوئی وہ بھی پیاری شکل کی بچی ہے۔ اپنی بہن کی دیکھا دیکھی اس نے بھی اداکاری کا شوق ظاہر کیا تو خود فرح نے اس کی شدید مخالفت کی مگر ماں کی ضد کے آگے ایک نہ چل سکی۔ اب تبو بھی بھارتی فلموں میں اداکاری کر رہی ہے۔ فرح کے مزاج میں بھی ماں باپ دونوں کے مزاجوں کا پر تو ہے۔ سنتے ہیں کہ وہ بھی مغلوب الغضب اور ضدی ہے۔ ضد اسے ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ورثے میں ملی ہے۔ جمیل کے گھر کی بربادی میں خود ان کے غصے اور ضد کے علاوہ اس کی بیگم کے غصے اور ضد کا بھی نمایاں ہاتھ ہے۔ پاکستان سے واپس جانے کے بعد بھی ان دونوں کے لڑائی جھگڑے حسبِ معمول جاری رہے۔ کئی بار علیحدگی بھی ہوئی مگر ہم نے یہ دیکھا تھا کہ غصے اور مستقل لڑائی جھگڑے کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے اور زیادہ دیر علیحدہ نہیں رہ سکتے تھے۔ لاہور کے قیام کے دوران میں بھی رضوانہ لڑ جھگڑ کر چلی جاتی تھیں مگر پھر لوٹ آتی تھیں یا جمیل (جمال) انہیں مناکر لے آتے تھے۔ فرح کو اداکارہ بنانے میں ان کی والدہ رضوانہ کی ضد کا بہت دخل تھا۔ جمیل بیٹی کو اداکارہ بنانے کے حق میں نہیں تھے مگر بھارت واپس جانے کے بعدجب بیٹی بڑی ہونے لگی تو ان کا اثر کم ہونے لگا۔ رضوانہ نے فرح کو اداکارہ بنانے کی کوشش شروع کی تو میاں بیوی میں اختلافات شدید ہوگئے یہاں تک کہ پہلے علیحدگی اور پھر طلاق ہوگئی۔ اس کے بعد رضوانہ اور فرح کو کھلی چھٹی مل گئی۔
فرح کی شکل و صورت اور بے تکلفی کی داستانیں فلمی دنیا میں عام ہوئیں تو فلم سازوں اور ہدایتکاروں نے گھر کے پھیرے لگانے شروع کردیے۔ باپ کا سایہ سر پر نہیں رہا تھا اور فرح کی سرکش طبیعت پر قابو پانا ان کی والدہ رضوانہ کے بس میں نہیں رہا تھا۔ فرح نے فحش گوئی اور بے ہودہ گالم گلوچ کے حوالے سے بھی بہت شہرت پائی بلکہ اس اعتبار سے وہ بمبئی کی فلمی دنیا میں بدنام ہیں۔ بعض مرد حضرات بھی ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی بھی قابلِ فخر نہیں ہے۔ مختلف لوگوں سے ان کے اسکینڈلز عام ہوتے رہے یہاں تک کہ اب انہوں نے مشہور پہلوان اور اداکار دارا سنگھ کے بیٹے سے شادی کرلی ہے جس کے بارے میں ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب یہ رشتہ ٹوٹ جائے۔
کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ دولت اور شہرت کی جھلک نے تبو کو بھی اداکاری کی طرف مائل کردیا حالانکہ فرح نے انہیں (غالباً اذاتی تجربات کے پیش نظر) روکنے کی بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔ تبو مزاجاً فرح سے مختلف ہیں۔ مگر فلمی دنیا تو اسکینڈلز کی آماجگاہ ہے اور ان کے نام سے بھی اب نت نئے سکینڈلز منسوب ہونے لگے ہیں۔ فرح تو قابو سے نکل گئی ہیں مگر اب رضوانہ تبو کی سرپرست کے فرائض سراناجام دے رہی ہیں مگر کب تک؟یہ کوئی نہیں جانتا۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)