سیاسی پارٹیاں خود اپنے ممبران کا احتساب کرتیں تو نیب کی ضرورت پیش نہ آتی
فیصل آباد(منیر عمرا ن سے) سینئر سیاستدان‘ سابق وفاقی وزیر اور رن کچھ کے ہیرو راجہ نادر پرویز نے ’’پاکستان‘‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ماضی میں (ن) لیگی قیادت سے بھی اور پی ٹی آئی کی قیادت سے چند غلط سیاسی فیصلے ہوئے جس کے اثرات ہماری قومی سیاست پر پڑے. 2008ء میں جنرل مشرف نے ان پڑھ قسم کے لوگوں کو اسمبلی سے باہر کرنے کیلئے گرایجوایشن کی شرط رکھی تھی جوپڑھی لکھی پارلیمنٹ کیلئے ایک اچھا شگون تھی مگر 2013ء میں بی اے کی شرط ختم کر کے دوبارہ انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کا بل پاس کروا لیا گیا اور تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی اور تعلیم کی اس شرط ختم ہونے کے نتیجے میں آصف زرداری صدر بن گئے. اس طرح ایک ایسی پارلیمنٹ بن گئی جس کے کئی ممبرز نے اپنے پانچ سالہ دور میں ایوان میں کھڑے ہو کر ایک فقرہ بھی نہیں بولا‘صرف ترقیاتی فنڈز لینے‘ نوکریوں اور تبادلوں کی فائلوں پر دستخط کروانے پر لگے رہے مگر قانون سازی کے عمل میں ان کی کارکردگی صفر رہی ‘انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے ممبرز کا خود ہی احتساب کرتیں‘ قبضہ گروپوں کو پارٹی کی ممبر شپ نہ دیتیں تو آج نیب کو ان کا احتساب کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی‘ انہوں نے کہا کہ 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر پہلی مرتبہ میں نے الیکشن لڑا تھا. وہ جنرل ضیاء الحق کا دورہ تھا اس دور میں میاں نواز شریف ان کے وزیر تھے. اس وقت پیپلزپارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا میں اس وقت بھی الیکشن جیت گیا تھا جونیجو گورنمنٹ بھی تقریبا اڑھائی سال تک چلی اور پھر جونیجو حکومت ختم کر دی گئی اس وقت میں وفاقی وزیر تھا ہم چند لوگ جونیجو کے ساتھ تھے اس کے خاتمہ میں میاں نواز شریف کا رول تھا‘ انہوں نے کہا کہ 1988ء میں الیکشن ہوا اور میرا حلقہ الگ کر دیا گیا مجھے دوسرے حلقہ میں الیکشن لڑنے کا حکم دیا گیا پھر 1990ء میں مجھے چک جھمرہ سے الیکشن لڑنے کیلئے بھیج دیا گیا جہاں سے میں پھر کامیاب ہو گیا. اگلا الیکشن آیا تو میاں نواز شریف نے مجھے میری مرضی کے خلاف فیصل آباد سے نکال کر گوجر خان کے ایک حلقہ میں یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اگر آپ وہاں راجہ پرویز اشرف کے مقابلہ میں نہ گئے تو مسلم لیگ وہ سیٹ ہار جائے گی میں وہاں سے 1400کی لیڈ سے جیت تو گیا مگر میرا فیصل آباد سے تعلق ٹوٹ کر رہ گیا اور وہ الیکشن میری زندگی کا مشکل ترین الیکشن تھا انہوں نے کہا کہ میں 2013ء کے الیکشن کے بعد اس وقت کے حلقہ پی پی 72میں ن لیگی امیدوار خواجہ محمد اسلام کو نااہل قرار دے دیا گیا اور ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے شیخ خرم شہزاد کو ٹکٹ دے دیاہمیں ان کو کامیاب کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہم نے بڑی محنت کے بعد شیخ خرم شہزاد کو وہاں سے کامیاب کروایا جن کو اب 2018ء کے الیکشن میں این اے 107سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دے دیا گیا اس حلقہ سے میرے بیٹے راجہ اسد نادر نے بھی اپنے کاغذات جمع کروا دیئے جو ایک نظریاتی کارکن ہے اس حلقہ سے سابق وفاقی وزیر میاں زاہد سرفراز کے صاحبزادے میاں علی سرفراز نے بھی اور سابقہ امیدوار بریگیڈئیر (ر) ممتاز کاہلوں نے بھی کاغذات داخل کروائے. پی ٹی آئی کی قیادت نے جانے کس سروے یا کس فارمولے کی بنیاد پر شیخ خرم شہزاد کو ٹکٹ دینے کا اعلان کر دیا حالانکہ ان کا اس حلقہ سے برادری کی سطح پر یا کسی اور سطح پر ٹکٹ کا جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ یہاں راجہ اسد نادر‘ میاں علی سرفراز اور بریگیڈیئر (ر) ممتاز کاہلوں میں سے کسی ایک کو امیدوار نامزد ہونا چاہیے تھا مگر ان کو نظر انداز کر دیا گیا‘ تینوں امیدواروں نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے رابطے کئے مگر کوئی پازیٹو جواب نہ ملنے پر احتجاجی بیان بھی دیئے گئے پھر بھی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت نے ان تینوں سے کوئی رابطہ نہ کیا وہ آخری وقت تک اپنی اعلی قیادت کا انتظار کرتے رہے کہ کوئی نہ کوئی جواز انہیں بتایا جائے گا. اس حلقہ میں نامزدگی پر نظرثانی کئے جانے کی سیاسی طور پر تبدیلی کی امید کی جا رہی تھی مگر کسی نے بھی ان کے ساتھ رابطہ نہ کیا اگر وہ مخلص نظریاتی کارکن نہ ہوتے تو وہ بھی بغاوت کا علم بلند کر کے کسی اور حیثیت سے الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں آ جاتے مگر انہوں نے حقیقی نظریاتی کارکن ہونے کا ثبوت دے دیا جس کے نتیجے میں گزشتہ روز راجہ اسد نادر اور میاں علی سرفراز دونوں نے اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود این اے 107سے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک راجہ اسد نادر کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی اپنی قیادت کے فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا اور اپنے قریبی ساتھیوں اور ووٹرز کو بھی پارٹی کے ساتھ وفاداری قائم رکھنے پر ہی قائل کر لیا حالانکہ پارٹی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ نارض کارکنوں سے براہ راست رابطہ کرتی اور پی ٹی آئی کی یہ ایک سیاسی غلطی ہے دعا ہے کہ قیادت کے اس طرز عمل کے اثرات اچھے ہی رہیں۔