اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 157

Jul 01, 2019 | 04:29 PM

حضرت ابوبکر واسطیؒ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ دونوں جہان کے وسائل و اسباب سے بے نیاز ہوکر صرف نگاہ اسی کی طرف رکھے۔ توحید شناس وہی ہے جو عرش تک تمام چیزوں کو توحید کے آئینے میں دیکھتے ہوئے خدا کی وحدانیت کے راز معلوم کرے۔“
٭٭٭
حضرت بکر بن عبداللہ المزنیؒ کہتے ہیں کہ ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر دل و جان سے فدا تھا۔ ایک دن پڑوسیوں نے کنیز کو کسی کام سے کھیتوں میں بھیجا۔ وہ عاشق زار بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا اور کھیت میں جاکر اس سے لپٹ گیا۔
وہ کہنے لگی ”اے جوانمرد! میں تجھ پر تجھ سے بھی زیادہ مرتی ہوں لیکن اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہوں۔“
وہ بولا ”اگر تو ڈرتی ہے تو میں کیوں نہ ڈروں؟“
یہ کہہ کر توبہ کر لی اور اسے چھوڑ کر واپس چل دیا۔ راستہ چلتے چلتے اسے پیاس نے ستانا شروع کیا اور پیاس اس قدر غالب ہوگئے کہ اس کے ہلاک ہونے کا خطرہ تھا۔ عین اس وقت ایک شخص جو پیغمبر وقت کا قاصد تھا اور کسی کام سے کہیں جارہا تھا۔ اس قصاب سے ملا اور کہا کہ تجھ پر کیا آفت ٹوٹ پڑی ہے جو اس طرح نڈھال ہوا جارہا ہے۔“

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 156 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قصاب نے جواب دیا کہا ”پیاس کے مارے میرا بُرا حال ہوا جارہا ہے۔“
اس قاصد نے کہا کہ ”آﺅ ہم دونوں مل کر دعا کریں کہ جب تک ہم شہر میں نہ پہنچ جائیں بادل ہم پر سایہ کیے رہیں۔“
قصاب نے کہا ”میری دعا کیا قبول ہوگی۔ مَیں نے تو کبھی بھول کر بھی عبادت نہیں کی۔ ہاں البتہ یہ کرسکتا ہوں کہ تم دعا مانگو اور مَیں آمین آمین کہتا جاﺅں گا۔“
قصہ کوتاہ قاصد نے دعا کہنی شروع کی اور قصاب آمین کہتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بدلی سی آسمان پر نمودار ہوگئی اور اس کا سایہ ان کے عین اوپر پڑنے لگا اور وہ اس کے نیچے نیچے چلتے گئے۔ آخر وہاں تک پہنچ گئے جہاں سے اُن کے راستے الگ ہو جاتے تھے۔
قصاب کے سر پر تو بادل نے بدستور سایہ کیے رکھا اور قاصد بچارہ سورج کی تمازت میں رہ گیا۔ تب اُس نے قصاب سے کہا کہ ”اے جوانمرد! تو نے کہا تھا کہ مَیں عابد نہیں ہوں لیکن اب یہ راز کھلا کہ بادل تو تیرے لیے ہی چھایا تھا۔ اپنا اصل حاصل تو بیان کردو۔“
اس نے کہا ”میں سوائے اس کے کچھ نہیں جانتا کہ ابھی تھوڑی دیر قبل مَیں نے توبہ کی تھی اور وہ بھی اس کنیز کی بات سن کر۔“
قاصد نے کہا ”ہاں واقعی یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو شرف قبولیت توبہ کرنے والے کو حاصل ہے وہ کسی اور شخص کو نہیں ہوسکتی۔
٭٭٭
جب شیخ جلال الدین تبریزیؒ بدایوں میں پہنچے تو ایک دن گھر کی دہلیز پر بیٹھے تھے۔ ایک شخص دہی بیچنے والا سر پر دہی کا کونڈا رکھے دروازے کے سامنے سے گزررہا تھا۔ یہ دہی بیچنے والا ڈاکوﺅں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔
اس کی نظر شیخ جلال الدینؒ کے چہرہ مبارک پر پڑی تو ایک ہی جھلک میں اس کا باطن فنا ہوگیا۔ جب شیخ نے اس کو تیز نگاہ سے دیکھا تو کہنے لگا ”محمد ﷺ کے دین میں ایسے صاحب کمال بھی ہیں۔“ اور پھر اُسی وقت ایمان لے آیا۔
شیخ نے اس کا نام علی رکھا۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنے گھر گیا اور ایک لاکھ چتیل لے کر خدمت حاضر ہوا۔ شیخؒ نے قبول کرلیے اور فرمایا کہ ان چاندی کے سکوں کو اپنے پاس ہی رکھو۔ جہاں مَیں کہوں گا خرچ کرنا۔
القصہ اس نے اس چاندی کی نجشیش شروع کی اور کسی کوسو درہم دیتا تھا اور کسی کو پچاس، کسی کو زیادہ اور کسی کو کم اور جس کو تھوڑا دینے کا حکم ہوتا اس کو پانچ چتیل دیت۔ا شیخ کا کم سے کم صدقہ پانچ چتیل ہوتا تھا۔ تھوڑے عرصہ میں وہ سب چاندی ختم ہوگئی۔ صرف ایک چتیل باقی رہ گیا۔
علی کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اب میرے پاس ایک چتیل سے زیادہ نہیں۔ اور شیخؒ کی کم سے کم بخشش پانچ چتیل کی ہے۔ اگر وہ کسی کو کچھ بخشنے کا حکم دیں تو میں کیا کروں گا۔ اسی اندیشہ میں تھا کہ ایک سائل آیا اور سوال کیا۔ شیخؒ نے مجھ کو حکم دیا کہ ایک چتیل اس کو دے دو۔
٭٭٭
حضرت حماد بن ابی حنیفہؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت داﺅد ؒطائی کے دروازے پر پہنچا۔ تو اندر سے آپ کی آواز سنائی دے رہی تھی اور آپ فرمارہے تھے کہ تو نے ایک بار گاجر کی فرمائش کی اور میں نے تجھے لا کر دے دی۔ اب تو ایسا ہی سر چڑھنے لگا کہ خرما کی فرمائش کررہا ہے لیکن یاد رکھ تو اسے ہرگز نہ پائے گا اور نہ ہی مزے لے لے کر کھاسکے گا۔ تو نے اپنے آپ کو سمجھا کیا ہے؟“
میں جب اندر داخل ہوا تو وہاں آپ کے سوا کوئی نہ تھا اور آپ اپنے آپ سے مخاطب تھے۔ (یعنی اپنے نفس کو تنبیہہ کررہے تھے)(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 158 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں