”اُردو میں لسانی تحقیق“

”اُردو میں لسانی تحقیق“
”اُردو میں لسانی تحقیق“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اُردوکا حلقہ ئ اثر روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے، مگر افسوس کہ پاکستان میں اس کا جو مقام و مرتبہ روزِ اول سے متعین ہو جانا چاہئے تھا؟ ہنوز نہیں ہو پایا۔ اپنے ہاں قومی زبان کے ساتھ متواتر ناقدری و بے دردی کا برتاؤ روا رکھا گیا ہے۔

”اُردو میں لسانی تحقیق“ محترمہ ڈاکٹر فائزہ بٹ صاحبہ کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس نے ایک ضخیم کتاب کی شکل اختیار کر لی ہے۔721 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کیا کیا ہے؟ کیا کیا نہیں ہے؟ انہوں نے ”سپاس“ میں یہ لکھا ہے کہ اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں اُردو لسانیات پر بین الاقوامی شہرت کی حامل کوئی تحقیق تاحال منظر عام پر نہیں آ سکی، مگر اس کے باوجود اُردو کے ماہرین لسانیات کا معیاری، مستند اور قابل ِ قدر تحقیقی سرمایہ متعدد متنوع موضوعات کے تحت کتب و رسائل اور جرائد میں منتشر ہے، جس کے اجتماع،انتقاد اور تجزیاتی مطالعے کے بعد ہی اُردو لسانیات پر تحقیقی کام کیا جا سکتا تھا“۔


یہ میرے لئے گویا ایک انکشاف ہے کہ قومی زبان پر اس پہلو سے ماہرین لسانیات نے ابھی تک کوئی قابل ِ قدر، جامع اور شہرہئ آفاق کام نہیں کیا، عجیب بلکہ غضب ہے۔اگر کوئی پوچھے کہ ہمارے زبان دوست اہل ِ قلم نے اس پہلو سے اب تک کیا کِیا ہے تو انہیں کیا جواب دیا جائے!

کہا جاتا ہے،اور اغلباً درست ہی کہا جاتا ہے کہ اچھی کتابیں ہمیشہ بُری کتابوں کے بعد ہی لکھی جانی چاہئیں۔ یہ ایک اچھی،بلکہ بہت اچھی کتاب ہے۔ باوجودیکہ قبل ازیں کوئی نقش کامل نہیں ملتا۔میری معلومات کے مطابق یہ محترمہ ڈاکٹر فائزہ بٹ صاحبہ کی پہلی کتاب ہے، لیکن ان کے کہنہ مشق ہونے پر غماز! اپنے موضوع کے اعتبار سے شاید ہی کوئی پہلو تشنہ  تحقیق و طلب رہ گیا ہو!


محترمہ ڈاکٹر فائزہ بٹ صاحبہ آج کل کنیرڈ کالج میں استاد ہیں، جہاں تحقیقی سفر میں ڈاکٹر شیبا عالم صاحبہ نے حصولِ منزل کے لئے کمال شفقت سے ان کی سرپرستی فرمائی تھی۔اس ماحول میں جبکہ لکھنے والے بھی عموماً پڑھتے نہیں، فائزہ بٹ کا وجود غنیمت ہے۔ وہ نہایت خلوص سے اُردو کے گیسو سنوارنا چاہتی ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ان کا قلم مشاطہ کا کام کرے گا۔ مشاطہئ فکر و فن! یہ کتاب ہر پہلو سے ایک معرکے کی چیز ہے۔ مُشاقِ اُردو، اساتذہئ زبان و ادب اور طالب علموں کے لئے ایک خاص تحفہ! ان کی قومی سطح پر پذیرائی ناگزیر ہے۔کسی نے کہا تھا کہ مطالعہ کرنا، زبان سیکھنا اور نئی کتاب لکھناگویا ایک ورزش ہے، جو دماغ کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتی!

مزید :

رائے -کالم -