خوشامد اور چاپلوسی کا وائرس
کووڈ19وائرس سے دنیا غیر محفوظ ہو چکی،کوہ و دمن،مرغزار،صحرا، سمندر،فضاء ہر جگہ کورونا کا زہر رسائی حاصل کر چکا،کچھ خبر نہیں یہ ان دیکھا دشمن کہاں پناہ لئے ہوئے شکار کا منتظر ہے۔ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر،پسماندہ اور غریب ممالک کسی مقام پر انسان کو تحفظ حاصل نہیں،خوف کی چادر نے ہر شئے اور مقام کو ابھی تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،گنجان آباد شہر تو بری طرح، انسانیت کے دشمن اس وائرس کی زد میں ہیں،وائرس بڑی تیزی سے انسانیت پر وار کر رہا ہے،روزانہ متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ سے ہر انسان خوف میں مبتلاء ہے،اپنی،اپنے اہل خانہ کی زندگی بارے متردد ہے۔ماہرین اس صورتحال بارے عرصہ سے چیخ چلا رہے ہیں،احتیاط اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی،ہر کوئی اپنی دنیا اور کاروبار میں مگن ہے،لگتا ہے دوسروں کی ایک طرف کسی کو اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں،لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک سے اموات کے خدشہ کے بعد حکومت نے چھٹی دیدی،نتیجے میں ہر جانب سے موت کی خبریں،نحوست،مریض،متاثرین،ہسپتال اٹ گئے۔اس صورتحال میں مادہ پرستوں نے کاروبار کی راہ نکال لی،اور دونوں ہاتھوں سے مریضوں کو لوٹنے لگے،اس افراتفری اور آپا دھاپی میں ہم نے بھی شہر سے فرار کی راہ ڈھوندی اور مری کے پہاڑوں میں پناہ تلاش کرنے کیلئے ملکہ کوہسار کی راہ لی،شائد ان قدرتی مناظر، اونچے نیچے راستوں،وادیوں،ڈھلوانوں،اونچائیوں میں کورونا سے نجات مل سکے اور سکون کے چند سانس بے خوفی میں لے سکیں،اگر چہ حالت یہاں بھی اطمینان بخش نہیں۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اب کے تغیر کہیں دکھائی نہیں دے رہا،دنیا اس موذی وائرس کے خاتمے کیلئے ویکسئین کی تیاری میں مگن ہے،اور ہم منافع خوری کرتے ان کی ”کامیابی“کیلئے دعا گو ہیں،مگر کیا ہماری دعا دل سے نکل رہی ہے اور اس کی قبولیت کا کوئی امکان ہے کہ ہم اس آسمانی عذاب کے دوران بھی خود کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔مصحف پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”ان کے گمان میں بھی نہیں اللہ کا عذاب کدھر سے آئے گا،یہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ جائیں گے“کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا،کسی کو خبر نہیں کدھر سے کووڈ 19حملہ آور ہو اور ہنستی بستی زندگی کو ویران کر دے،مگر قراٰن شاہد ہے جب عذاب آیا تو ملعون قوم نے معافی معذرت استغفار کاراستہ اپنایا مگر ان قوموں کو واضح بتا دیا گیا کہ جب فرشتے عذاب کا حکم لے کر زمین پر آتے ہیں تو توبہ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں،ہم ایسے خوش گمان کہ اب بھی توبہ کرنے پر تیار نہیں اور اگر توبہ کرتے ہیں تو اپنے کرتوت چھوڑنے پر آمادہ نہیں،قراٰن پاک میں اللہ جل شانہ نے اہل ایمان کو ہر طرح سے رعائت دی ہے،فرمایا”اے محبوب آپ کے ہوتے ہم ان پر عذاب نازل کرنے والے نہیں“نبی پاک نے امت کی ہمدردی میں سوال کر ڈالا ’اور میرے بعد“جواب آیا”آپ کے بعد بھی جب تک امت توبہ استغفار کرتی رہے گی عذاب نہیں بھیجا جائے گا“اے امت محمدیہ سوچو اس سے زیادہ کیا سہولت چاہئے،مگر ہم اول تو توبہ کی طرف جاتے نہیں اور جاتے ہیں تو اپنے اعمال سے اجناب پر تیار نہیں۔
لاہور کی ذہن و جسم جھلساتی گرمی سے نجات مری آکر مل گئی مگر کورونا کا خوف یہاں بھی لاحق رہا ،اگر چہ یہاں سماجی فاصلے ازخود قائم ہیں کہ آبادی کم اور گھر دور دور ہیں،سیاح موجود نہیں سڑکیں ویران ہیں،ہاں دور دراز کے وہ باسی یہاں نظر آتے ہیں جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنا رکھے ہیں مگر کوہ مری کے مستقل رہائشی اب بھی احتیاط کرنے کو تیار نہیں،نتیجے میں یہ پر سکون اور جنت نظیر وادی بھی غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ان حالات میں تشویشناک بات اپوزیشن کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے،ان پر آشوب حالات میں جبکہ قوم کو یکجہتی کی ضرورت تھی تاکہ مل جل کر انسانیت پر حملہ آور وائرس کا مقابلہ کیا جا سکے،لیکن صرف حکومت کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنے کیلئے عدم تعاون کی روش برقرار ہے،کہیں حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی خبریں اور کہیں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی باتیں،اور حکومتی ذمہ داران بھی ان حالات میں عقل و شعور سے عاری اقدامات اور بیانات سے گریزاں نہیں۔اتحادی جماعتوں کے رہنماء احساس محرومی کے ساتھ ساتھ بے یقینی سے بھی دوچار ہیں،اپوزیشن بھی متحد دکھائی نہیں دیتی،پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت بچانے کی فکر ہے،ن لیگ پنجاب میں اقتدار حاصل کرنیکی کوششوں میں مصروف ہے،فضل الر حمٰن کی سیاست کا دارومدار کے پی کے میں زمام کار سنبھالنا ہے خواہ کسی طرف سے یہ بھیک ملے،اگر تحریک انصاف بھی ان کو کے پی کے پیش کرے تو وہ تمام اختلافات فراموش کر نے کو دل و جان سے تیار ہوں گے۔
حالات کو پیچیدہ بنانے میں حکومت میں شامل نا تجربہ کار،غیر ذمہ دار،غیر منتخب معاونین،مشیران کا بھی بہت بڑا کردار ہے،کوئی مانے نہ مانے اتحادی اور اپنے بھی پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں، عثمان بزدار کا المیہ یہ ہے کہ انہیں سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں جھولی بردار چاپلوس اور خوشامدی لوگوں کی ضرورت ہے۔
آٹا چینی کے بعد پٹرول سکینڈل سے یہ واضع ہو گیا کہ ملک میں مافیاز کا کنٹرول ہے،حکومت مجبور ہے،آٹا چینی کے بعد پٹرول کا ایشو ہونا ہی نہیں چاہئے تھا،ستم یہ کہ جب پٹرول سستا ہوا تو کمیاب ہو گیا اور جیسے ہی قیمت بڑھی دستیاب ہو گیا،کہاں ہے حکومت،وزارت تیل و گیس،اوگرا،کوئی نہ سمجھ پایا کہ اس کارٹل میں صرف ن لیگ پیپلز پارٹی کے لوگ شامل نہیں تحریک انصاف کے لوگوں نے بھی مفادات حاصل کئے،شائد اب کوئی کمیشن بھی نہیں بنے گا،جو اس کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرے اگر چہ کارروائی نہیں ہونا کہ چینی اور آٹا سکینڈل کے ملزم بھی محفوظ بیٹھے ہیں،اسی طرح میڈیسن، ماسکس، حفاظتی لباس،ٹیسٹوں،پلازما سکینڈل کے ملزم بھی محفوظ رہیں گے،اب کوئی بتائے کہ قوم کہاں جائے،کہاں پناہ تلاش کرے، کس سے مدد مانگے، کہ کوہ و دمن، مرغزار، وادیاں، گھاٹیاں سب کرپشن کے وائرس کا شکار ہیں، مافیاز کے کاٹلز کی حکمرانی ہے،حقیقی سیاستدان از خود پس پردہ چلے گئے کہ اس گند سے محفوظ رہیں،ایسے میں خوشامد،چاپلوسی،جھولی برداری کا کورونا بھی متحرک اور فعال ہے،اس سے کیسے بچا جائے جبکہ ہم بچنا چاہتے ہی نہیں۔