اللہ والے ........!!!!

اللہ والے ........!!!!
اللہ والے ........!!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ والوں کی اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی انداز ہوتے ہیں...دنیا داروں کی سمجھ سے بالا...6-2005 کی بات ہے....یہ روزنامہ خبریں کا زمانہ تھا.....شکرگڑھ سے ہمارے دوست ڈاکٹر لقمان ریاض چاہتے تھے کہ ہمیں خواجہ خان محمدؒ سے ہر صورت ملنا چاہئیے...جب ملتے کہتے آپ خانقاہ کندیاں شریف جائیں اور خواجہ صاحب سے ضرور مل کر آئیں....مگر ہم صحافتی بکھیڑوں میں الجھے ہوئے تھے......

جناب لقمان ریاض کی بھی سن لیجئے ...دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں اللہ والوں کی بستی کا کوئی باشندہ ہے. . ..دراز قد .....خوب صورت متشرع داڑھی...سر پر جناح کیپ.....نظریں خم....گفتگو کم ....کوئی لالچ نہ ہوس زر...اپنے نام کی طرح ہی حکیم و دانا...سچی بات ہے کہ ڈاکٹر نہیں مسیحا ....ڈاکٹر ابن ڈاکٹر... ان کے والد گرامی ڈاکٹر ریاض 1962میں سول ہسپتال شکرگڑھ آئے...پھر1963میں ریاض ہسپتال کی بنیاد رکھی اور خوب نام کمایا...شہر کی ایک بڑی مارکیٹ ان سے منسوب ہے...اسی مارکیٹ میں ایک پیاری سی مسجد بھی بنائی جہاں نمازاورخطبےکا انتہائی معتدل رائج ہے ...مسجد کے امام و خطیب قاری عبدالقادر ہومیو ڈاکٹر اور روحانی معالج بھی ہیں ...ڈاکٹر ریاض اپنی مارکیٹ میں ہی سالہا سال سے کلینک چلا رہے ہیں...اسی محلے میں ریاض ہسپتال بھی ہے جو ڈاکٹر لقمان صاحب کی اہلیہ چلاتی ہیں ... . ہمارے یہ" درویش دوست" چاہتےتواپنےوالد گرامی کےکلینک کو" گدی"کادرجہ دیکر ساری عمر بیٹھ کر کھاتے یا پھر ریاض ہسپتال سے زندگی بھر تجوریاں بھرتے رہتے کہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفا بھی رکھی ہے مگر وہ ہیں کہ سرکاری نوکری پر ہی قانع ہیں ...کوئی چودہ پندرہ سال پہلے مجھے معدے کا شدید مسئلہ بنا...اتنا شدید کہ میرا خیال تھا اب جی کا جانا ٹھہر گیا.. . پھر میڈیسن سے وابستہ ایک دوست مجھے ڈاکٹر لقمان کے پاس لے گئے...انہوں نے طبی معائنہ کے بعد ہلکی پھلکی دوائی دی اور اگلی صبح ہی ریلیف مل گیا...اب چودہ برس ہو گئے ہیں وہ میرے آن لائن فری معالج ہیں ...کوئی مسئلہ ہو فون کرتا ہوں. .. میڈیسن بتاتے ہیں اور اللہ شفا دے دیتا ہے...پچھلے سال ستمبر میں پھر معدے کا عارضہ ہوا...36گھنٹےلاہورکےدو نجی ہستال "بھگتنے" کے بعد انہیں فون کیا.۔.کہنے لگے فوری کسی سرکاری ہسپتال پہنچیں...گنگا رام گیا اور پھر اسی طرح اگلے دن ہی ریکوری شروع ہو گئی...کوئی دس سال پہلے میری والدہ کا بلڈ پریشر خوفناک حد تک شوٹ کر گیا....جناب ابرار الحق کے سہارا سے مایوس ایمبولینس پر جنرل پہنچے اور پھر میو ہسپتال ..... ادھر بھی وہ قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے اور پھر اللہ نے شفا دیدی.....اور آج تک اللہ کا کرم ہے...گمان تھا کہ وہ کسی صاحب نظر سے فیض یاب ہیں... اب سمجھ آ رہی ہے کہ یہ کس مکتب کی کرامت ہے...

بات ہو رہی تھی خواجہ صاحبؒ  کی.....مرشد مولانا عبدالحفیظ مکیؒ اور مولانا منظور چنیوٹیؒ پر گفتگو کے بعد سوچ رہا تھا کہ حضرت خواجہ خان محمدؒ اور اپنے مرشد اول سید نفیس الحسینی شاہؒ بارے لکھوں کہ شاعر ختم نبوتﷺ..شاعر صحابہؓ و اہلبیتؓ جناب سید سلمان گیلانی نے خواجہ صاحب اپنی یادداشتیں شئیر کر کے گویا ہمارے جذبے کو مہمیز دیدی..... دل تڑپا اور گلبرگ کے مرکز سراجیہ میں چارپائی پر لیٹے بابا جی سے پہلی اور آخری ملاقات یاد آگئی....

8-2007 کی بات ہے روزنامہ لاہور کے ایڈیٹر سرکولیشن جناب شاہد اسرار ہماری انگلی پکڑے ہمیں خواجہ صاحب کی خدمت میں لے گئے کہ یہ صحافی ہیں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں.....خواجہ صاحب کافی علیل تھے.....پھر بھی ماتھے پربل نہیں آیا.....میں نے کہا حضرت خانقاہ کسے کہتے ہیں....فرمایا اللہ والوں کے بیٹھنے کی جگہ جہاں اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے.....ختم نبوتﷺ سے متعلق سوال پرکہا کہ یہ بہت مقدس کاز ہے....جتنا ہوسکے اس میں معاون بنیں.. ایک آدھ سوال اور تھا...سچی بات ہے کہ خواجہ صاحب سے یہ مختصر ترین انٹرویو نہیں وقت کے ولی اللہ کی زیارت کا بہانہ تھا.... لگ رہا تھا کہ ڈاکٹر لقمان نے ہمارے تخیل میں جس خواب کے تانے بانے بنے تھے اسکی تعبیر مل گئی ہے...دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ انٹر ویو روزنامہ اسلام نہیں بلکہ جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت لبرل روزنامے آج کل کے سٹی پیج پر دو کالم تصویر کے ساتھ چھپا........جس کی اشاعت کا سارا کریڈٹ روشن خیال مگر اللہ والوں سے پیار کرنے والے سید جناب تنویر عباس نقوی کو جاتا ہے .....یہ تھی خواجہ خان محمدؒ سے پہلی اور آخری ملاقات کا احوال... ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولنے والے معتبر شاعر جناب سید سلمان گیلانی نے شیخوپورہ میں اپنے محلے دار کا ایمان افروز واقعہ لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ صاحبؒ کس مقام ولایت پر فائز ہیں .....لکھتے ہیں کہ اسلم میرے والد جناب سید امین گیلانی سے بات کرنے لئے بے تاب تھا......اس نے والد صاحب کو بتایا کہ مجھے رسول کریمﷺ کی تین مرتبہ خواب میں زیارت ہوئی ...آقا کریمﷺ فرمارہے ہیں کہ خواجہ خان محمد کی بیعت کرو.....میں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ میں انہیں نہیں جانتا تو فرمایا سید امین گیلانی سے کہیں وہ ملا دینگے.....شاہ جی یہ خواجہ صاحب کون ہیں؟؟؟اس مکالمے کے بعد میں چلا ہی تھا کہ کسی نے کہا شاہ جی خواجہ صا حب تشریف لائے ہیں.....میں نے ادھر ہی اسلم کو آواز دی کہ لے بھائی اللہ نے خواجہ صاحبؒ کو آپ کے لئے شیخوپورہ ہی بھیج دیا .....

اب عاشق رسول سید نفیس شاہؒ صاحب سے بیعت کی داستان بھی پڑھ لیں ......1999کے اوائل میں روزنامہ صحافت سے صحافتی کیرئیر شروع کرنے کے کچھ مہینے بعد ہمارے نیوز روم کے دوست سید عمران علی شاہ نے کچھ دوستوں سے کہا آئو ایڈ ونچر کرتے ہیں.....گوجرانوالہ میں ایک دوست شہر کا پہلا روزنامہ نکالنا چاہتے ہیں...لاہور سے ٹیم لے جانی ہے ..ہم نے سامان باندھا اور پہلوانوں کے شہر چل دیے...آج سےبیس سال پہلے کے حساب سے شہر کا اخبار تو بہت ہی زبردست آئیڈیا تھا مگر دو مہینے بعد ہی یہ بد قسمت اخبار ایڈیٹر صاحب کی "لوسٹوری" کی بھینٹ چڑھ گیا....لانچنگ سے پہلے محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی اس اخبار کے دفتر تشریف لائیں ...ہم نے تعارفی کلمات میں کہہ دیا کہ یہ اخبار لبرل ہوگا نہ انتہاپسند بلکہ معتدل ......ہمارے ایڈیٹر نے اس کا تھوڑا برا بھی منایا کہ لبرل والی بات کیوں کر دی....پراجیکٹ کے" انہدام "کے بعد ادھر ہی ہماری ملاقات روزنامہ جرات کے ایڈیٹر جناب عرفان اطہر سے ہوگئی..وہ ان دنوں وہاں سے روزنامہ تجارت کو بہتر طریقے سے نکالنا چاہتے تھے....وہاں سرفراز مہر بڑے دلچسپ ایڈیٹر تھے .....تیز سرخی کے جلال سے ہی کانپ اٹھتے اور کہتے کہ تھوڑی" نرم "کرو...خیرسات آٹھ مہینے ادھر ہی گذارے.... ہمیں اس ایڈونچر کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ ہماری سید نفیس شاہؒ سے بیعت کا وسیلہ بن گیا......کہتے ہیں ناں سفر وسیلہ ظفر......گوجرانوالہ میں قیام کے دوران ہمیں رہائش کا مسئلہ درکار تھا....کرتے کراتے ہم سیالکوٹی دروازے میں واقع عالمی مجلس ختم نبوتﷺ کے دفتر میں قیام پذیر ہوگئے. .. . وہاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺکے مبلغ مولانا فقیر اللہ اختر کالج کے زمانے سے ہمارے مہربان تھے....انہوں نے ہمیں عالمی مجلس کا ڈویژنل سیکرٹری اطلاعات بھی مقرر کیا تھا...وہاں پنجابی کے مشہور شاعر بابا طالب بھی ہوا کرتے تھے. . . یوں خوب گذرتی.....بابا جی نے بتایا کہ اس دفتر میں سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کئی مرتبہ آئے اور اس ہال میں اس جگہ سوتے .....پھر میں انہیں "ایموشنل بلیک میل" کرے کہتا کہ دیکھیں شاہ جی اپنے زمانے کے صحافی جناب شورش سے کتنا پیار کرتے تھے ....مجھے بھی اس ہال میں شاہ جی والی جگہ پرسونا ہے.....اور وہ اللہ کے بندے نا صرف مان جاتے بلکہ سردیوں میں اچھا کمبل اور ہیٹر لگا کر دیتے....وہ مجھے چھیڑتے کہ ہال کے اوپر والے کمرے میں جن مقیم ہے. . . ادھر سو کر دکھاؤ .....ہم کہتے تمہارے جن کی ایسی تیسی .....
مولانا فقیر اللہ کہتے کہ ناشتہ آپ کے ذمہ ہے... میں مذاق میں کچھ سخت الفاظ بول کر کہتا بابا جی یہ کیسے مولوی ہیں کہ مہمانوں سے کھانا کھاتے ہیں.....بابا جی مسکراتے اور کہتے کہ عثمانی صاحب ان کو کچھ نہ کہا کریں .... یہ مولوی بڑے قیمتی ہیں کہ ختم نبوتﷺ کے کام کیلئے مقرر ہیں...اپنے گھروں سے دور یہ بھی پردیسی ہیں.... ناشتے کی یہ نشست بڑی مزے دار ہوتی ہے...ایک مرتبہ مولانا فقیر اللہ اختر کو انگریزی سیکھنے کا شوق پیدا ہوا کہ لندن میں تبلیغ کرنی ہے ...لیکن ہم بڑی محنت کے باوجود انہیں صرف!oh...my God کے سوا کچھ نہ سکھا سکے... خیر یہ تو محبت کی باتیں ہیں....وہاں فقیر اللہ اختر صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ہم سید نفیس شاہ صاحب کی بیعت کریں.....ایک روز قبولیت ہوگئی اور اللہ کا یہ فقیر ہمیں گوجرانوالہ سے راوی روڈ لاہور کے علاقے کریم پارک میں شاہ صاحب کی خانقاہ لےآیا....حضرت نے خوش آمدید کہا ....یوں ہم نے ایک اور صحافی کے ساتھ ان کے ہاتھ پر زندگی کی پہلی بیعت کی...انور حسین نفیسؒ رقم.....اللہ کے ولی....خطاطی کے امام...اللہ کے آخری رسول ﷺ.....صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے سچے عاشق...ان کا کلام گل ہائے عقیدت ہے جبکہ قلم سے مسجد حرام کے دروازے پر بکھرے موتی آج بھی جگمگ جگمگ کر رہے ہیں .. . بلا شبہ وہ اللہ کے منتخب اور مقرب بندوں میں سے تھے......

روزنامہ تجارت چھوڑ کر پھر لاہور واپسی ہو گئی لیکن غم روزگار کا برا ہو کہ ہم دوبارہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے لیکن ان سے نسبت ہمارے لئے اثاثہ بن گئی ...شاہ صاحب کی رحلت پر ایسے لگا جیسے راستہ کھو سا گیا ہے لیکن اللہ کی قدرت دیکھیں کہ وہ کیسے کڑی سے کڑی ملاتا ہے...شاہ صاحب سے پہلی بیعت...پھر کچھ سال بعد خواجہ صاحب کی زیارت اور پھر انہی دنوں مولانا عبدالحفیظ مکیؒ سے ملاقات اور ان کے ہاتھ پر دوسری بیعت اور آخری سانس ےتک محبت بھرا تعلق . . بلکہ مکیؒ صاحب نے تو اپنے سمندر اتنے گہرے دل میں جگہ دیدی...ہمارے ایسے لاپروا صحافی کی کسی منصوبہ بندی کے بغیر ایک اللہ والے کے آستانے سے دوسرے نیک بندے کی درگاہ پر حاضری بھی عجب روحانی سفر ہے ...یہ کیا سائنس ہے ....؟؟؟؟اللہ کی اللہ ہی جانیں....!!!!بہر کیف ختم نبوتﷺ کے محاذ پر مامور ان تین بڑے بزرگوں سے کسی نہ کسی صورت "spirtual link"ہمارے لئے روشنی کی کرن ،بڑے حوصلے کا باعث اور توشہ آخرت ہے......

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطعہ نظر ہے ،ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔