ڈاکٹر زکریا ذاکر کو شاباش.....!!!

ڈاکٹر زکریا ذاکر کو شاباش.....!!!
ڈاکٹر زکریا ذاکر کو شاباش.....!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رواں ہفتے کے پہلے دن لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں پنجاب بھر کے اہل دانش کا بڑا اجتماع ہوا...گویا رنگ رنگ کے "پھولوں" سے مزین "گلدستہ" مہک رہا تھا.۔."اسلاموفوبیا کے اسباب اور سدباب "کے حوالے سے اس" اچھوتے سیمینار" کے میزبان اوکاڑہ یونیورسٹی کے "خوش فکر" وائس چانسلر جناب ڈاکٹر زکریا ذاکر تھے.....درویش انسان کو نا جانے کیا سوجھی کہ  110 کلومیٹر کا سفر کرکے صوبائی دارالحکومت پہنچے اور اسلامی دنیا کے ایک" اہم مسئلے "پر "دعوت فکر "کے لئے "اپنے خرچ" پر فکر انگیز محفل سجا ڈالی...

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کےسربراہ پروفیسرڈاکٹر فضل احمد خالد ،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی،پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر،یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم،جھنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، ایجوکیشن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، غازی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل،وائس چانسلر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا تمغہ امتیاز، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر اعجاز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیا القیوم، پروفیسر ڈاکٹر رؤف اعظم، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب،پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم،ڈاکٹر نظام الدین،ڈاکٹر راغب نعیمی ،مجیب الرحمان شامی،سجاد میر اور سلمان غنی سمیت ماہرین تعلیم اور صحافیوں نے محفل کو رونق بخشی.....

اوکاڑہ یونیورسٹی کے تعلقات عامہ آفیسر جناب شرجیل احمد کی خلوص بھری دعوت کے باوجود بوجوہ حاضری نہ ہوسکی جس پر ان سے دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں...امید تھی کہ یہ"عالی دماغ کانفرنس"اسلامو فوبیا کی وجوہات کا تعین کرکے اس کے تدارک کے لیے قابل عمل تجاویز دے گی مگر جتنے بڑے لوگ ایک چھت تلے جمع تھے اتنا بڑا مشترکہ اعلامیہ سامنے نہ آیا...چند ایک  اچھی باتوں کے سوا وہی نشستند و گفتند و برخاستند ..!!

اوکاڑہ یونیورسٹی کو اس خوب صورت کاوش کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی مگر ہمارے خیال میں یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے...بہتر ہوتا پنجاب بھر کی جامعات کے چانسلر صاحب یہ" بزم" اپنے بڑے سے "سرکاری لان" میں سجاتے....پنجاب کی وزارت تعلیم  اپنے جید اساتذہ کرام کے لیے "دیدہ و دل" فرش راہ کرتی یا پھر پنجاب یونیورسٹی ایسی بڑی درسگاہ"پلکیں"بچھاتی...اس سے جہاں ایک "نومولود یونیورسٹی" "مالی بوجھ "سے بچ جاتی وہاں مہمان نوازی کے کلچر پر بھی حرف نہ آتا...ہمارے خیال میں ڈاکٹر زکریا کی لاہور آکر کسی تقریب کی میزبانی کرنا آداب کیخلاف ہے...یہ ایسے ہی جیسے کوئی کسی کے گھر جاکر مہمانداری کرے ...بہرکیف ہمارے سماج میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے...

اوکاڑہ یونیورسٹی کے دعوت نامے کے مطابق سیمینار کے مہمان خصوصی عزت مآب گورنر پنجاب تھے جبکہ ہائر ایجوکیشن کے وزیر صاحب کو بھی خطاب کرنا تھا مگر شنید ہے کہ جناب چودھری سرور پہلی فرصت میں ہی"جھاتی"مار کرچلے گئے جبکہ جناب راجہ یاسر ہمایوں بھی تشریف نہ لائے...ہو سکتا ہے دونوں" حضرات گرامی "کا شیڈول بہت سخت ہو لیکن اگر ان کی کچھ اور مصروفیات تھیں تو وہ ادھر آنے کا وعدہ نہ کرتے.. ...

ہمارے خیال میں گورنر پنجاب اسلاموفوبیا پر بہتر گفتگو کرسکتے تھے کہ وہ نا صرف بطور شہری ایک عرصہ برطانیہ میں رہے بلکہ منتخب ہو کر وہاں کی پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے...وہ "انگریزوں" کے "مائنڈ سیٹ" کو اچھی طرح جانتے ہیں...اس لیے انہیں کلیدی خطاب فرمانا چاہئیے تھا...وہ تشریف لاتے تو تقریب اور "پر وقار "ہو جاتی کہ وہ پنجاب کی جامعات کے "سربراہ اعلی" ہیں جبکہ گورنر کے پروٹوکول کے بہانے میڈیا بھی کوریج کی زحمت کرلیتا کہ اسے تو بہر حال "بیچنے" کے لیے کوئی "سیاسی شخصیت "چاہئیے ہوتی ہے ... 

اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ میں مغربی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا کمال دیکھیے کہ انہوں نے چار گھنٹے پر محیط اسلاموفوبیا کیخلاف سیمینارکی کسی کو "کانوں کان خبر" نہ ہونے دی...اتنے اہم ایونٹ کو دو چار منٹ لائیو دکھایا نہ کسی نیوز بلیٹن میں جگہ دی...ہوائی جہاز میں جوڑے کی "حرکت" پر حرکت میں آنے والے" اینکرز "نے کوئی ٹاک شو کیا نہ ہی اگلے دن کسی قومی اخبار نے اساتذہ کرام کے پروگرام کو صفحہ اول یا آخر پر جگہ دی.....اس سے ہمارے میڈیا کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نزدیک تعلیم نہیں "حریم" سے بریکنگ نیوز بنتی ہے........

تقریب کے میزبان جناب ڈاکٹر محمد زکریا ذاکر نے اپنے افتتاحی خطاب میں قرار دیا کہ اسلاموفوبیا محض ایک مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے ساتھ لوگو ں کے بہت سے معاشی اور سیاسی مقاصد جڑے ہوئے ہیں...انہوں نے درست کہا کہ اسلاموفوبیا کے پھیلاو میں عدم برداشت، جمہوری اقدار کی پسماندگی اور مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی شامل ہے...ڈاکٹر اصغر زیدی نے بھی بجا فرمایا کہ مغربی جمہوری اقدار پر عمل کر کے ہم مزید کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں...ہمیں اس فوبیا کے مقابلے میں اپنی اقدار اور اپنے بیانیے بنانے چاہئیں...

جناب سلمان غنی نے بالکل درست نشاندہی کی کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم کو مضبوط بنانا ہوگا...بلا شبہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں" گرینڈ آپریشن" کی ضرورت ہے...ایک متوازن تعلیمی کورس کے ساتھ ہی متوازن سوچ پیدا کرکے ایسے چیلنچز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ....ہمارے ہاں مدارس کو شدت پسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر عصری تعلیمی اداروں کا بھی حال اچھا نہیں ...یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی تنگ نظری کی خلیج بڑھ رہی ہے...اپنے تئیں "اعلی تعلیم یافتہ "لوگوں کو دیندار طبقے سے اللہ واسطے کا بیر ہے...انہیں قرآن و حدیث پڑھے علمائے کرام کے چہرے پر سجی سنت رسولﷺ اور عمامہ پسند نہیں لیکن" سکھ دوستوں" کی داڑھی اور پگڑی دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے ہیں....کسی کے دھرم کا احترام اچھی بات مگر اپنے دین سے بیزاری کو کیا کہیں؟؟دلچسپ بات ہے کہ ہمارے یہ "روشن خیال" اپنی اس "پریکٹس" کو " انٹر فیتھ ہارمنی" کہتے ہیں حالانکہ یہ "اسلامو فوبیا" کی ہی ایک شکل ہے.....!!!


ہمارے خیال میں میڈیا،ڈپلومیسی،انٹرنیشنل ریلشنز والے لوگ اسلامو فوبیا کیخلاف انتہائی موثر   ہیں...ہمارے سفارت کار اچھے طریقے سے یہ مقدمہ لڑسکتے ہیں... اسلامک سٹڈیز ،پولیٹیکل اور سوشل سائنیسز والے بھی بہت اہم ہیں....اول الذکر تھوڑی دینیات اور موخر الذکر تھوڑی سفارت سیکھ لیں تو یہ سونے پر سہاگہ ہوگا کہ ہمیں اس میدان میں دینی اور عصری تعلیم سے بہرہ ور معتدل سکالرز کی ضرورت ہے... سیدھی سی بات ہے کہ دین کا علم ہو گا تو کسی کو دین کی بات اچھے طریقے سے بتائی جا سکے گی اور بات کرنے کا طریقہ آتا ہوگا تو دین کی بات صحیح طرح پیش کی جا سکے گی...


یادش بخیر!شہباز شریف کی وزارت اعلی کے دوسرے دور میں "گستاخانہ خاکوں" کیخلاف علمائے کرام کے اجلاس میں نامور اسلامی سکالر ڈاکٹر احمد علی سراج نے یونیورسٹیوں اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں میں "سیرت چئیرز' جبکہ پنجاب میں ایک "سیرت یونیورسٹی "کی بہترین تجویز دی کہ جہاں سیرت کے مختلف گوشوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو اور پھر یہی سکالرز اسلامو فوبیا کیخلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی سطح پر کام کریں ... "خادم اعلی" نے جھومتے ہوئے آئیڈیا پسند کیا اور ن لیگ کے "منصوبہ ساز"جناب احسن اقبال کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنادی...پھر بات آئی گئی ہوگئی اور اس "بے چاری کمیٹی" کا بھی وہی حال ہوا جو ہمارے ہاں اکثر کمیٹیوں کا ہوتا ہے.....

ہمارے خیال میں اسلامو فوبیا کیخلاف جنگ کسی یونیورسٹی تو کیا کسی ایک ملک  کے بس کی بات بھی نہیں . ...یہ او آئی سی لیول کا مسئلہ ہے...جس دن عربوں سمیت 56اسلامی ممالک نے ایک آواز ہو کر مغرب کے "انتہا پسند حکمرانوں "کو "شٹ اپ "کال دیدی،سارے "فوبیے شوبیے" "اڑن چھو"ہو جائینگے کہ" لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"...بہر کیف اوکاڑہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر زکریا ذاکر کو ایک نہیں دوبار شاباش بنتی  ہے کہ انہوں نے چلچلاتی دھوپ میں "داتا کی نگری" آکر "نفرت انگیز فکر" کیخلاف "فکری میلہ"سجایا..."فقیرانہ صدا" لگائی اور واپس چل دیے!!!!

مزید :

بلاگ -