تنخواہوں میں بیس فیصد اضافہ، بجلی مہنگی، صوبے ذراعت اور جائداد پر ٹیکس لاگئیں :وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی حکومت نے آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمیں کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے ، اور بجلی کے نرخ مزید بڑھانے، نیا ٹیکس نہ لگانے اعلان کیا ہے جبکہ صوبوں کوزراعت اور پراپرٹی ٹیکس لگانے کی تجویز دیدی ہے ۔ وفاقی کابینی نے اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظور دیدی ہے جو کچھ دیر میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاہم وزیر خزانہ کے تقریر کا کے کچھ حصے میڈایا کو جاری کردیے گئے ہیں ۔ اس تحریری تقریر کے مطابق وفاقی وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کو غیر مستحکم ، غیر متوازن اور ناگفتہ بہ حالت میں موجود معیشت ورثے میں ملی۔ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور اور روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے کاروباری حلقے اعتماد کھو چکے تھے۔ جولائی 2008ءسے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 145ڈالر کی تاریخی بلندی تک پہنچ چکی تھیں، ستمبر 2008ءمیں عالمی معاشی بحران میں ترقی یافتہ ملکوں کو کساد بازاری کا سامنا تھا۔ ترقی یافتہ معیشتوں کی شرح نمو اوسطاً 2.8فیصد تک گر چکی تھی جبکہ اس دوران پاکستان کی شرح نمو بھی 1.7فیصد تک کم ہو گئی تھی۔اُنہوں نے کہاکہ ایسے حالات میں مارچ 2008ءمیں اس حکومت نے ذمہ داریاں سنبھالیں اور سیاسی تبدیلیوں کے دوران وسیع پیمانے پر تیل اور خوراک کی قیمتوں کے بیرونی جھٹکے، عالمی معاشی افراتفری،سیکیورٹی پر بڑے پیمانے پر اُٹھتے ہوئے اخراجات اور زائد المیعاد پالیسیوں نے مکمل بحرانی کیفیت پیدا کر دی خاص طور پر2007-08ءمیں زراعت اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں میں کمزور کارکردگی کی وجہ سے GDPکی نمو سُست ہو گئی۔اکتوبر 2008ءمیں افراطِ زر 25فیصد تک پہنچ گئی جبکہ توانائی اور خوراک کے علاوہ افراطِ زر 18فیصد تک ہو گئی۔2007-08ءمیں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 14ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جو کہ GDPکا 8.5فیصد بنتا ہے۔2007-08ءمیں بجٹ خسارہ GDPکا 7.6فیصد تھا جس کی وجہ توانائی اور خوراک کی سبسڈی اور درآمدی قیمتوں میں اضافہ تھا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کے زرِ مبادلہ 16ارب ڈالر سے 11ارب ڈالر تک گر گئے۔2008ءمیں ملکی معاشی دباﺅ اور عالمی معاشی بحران کے سبب ڈالر پر غیر ضروری انحصار اور سسٹم سے سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی میں اضافے کا رحجان قوت پکڑ چکا تھا۔نتیجتاً 27اگست 2008ءکو کراچی سٹاک ایکسچینج کے تمام شیئرز کی قیمتوں کی کم سے کم حد بندی کرنی پڑی۔عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت کے پاس بین الاقوامی زرمبادلہ کے استحکام اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا جبکہ عین اسی وقت پاکستان کو 2010ءکے تباہ کن سیلابوں نے آ لیا جس کے نتیجے میں انفراسٹرکچر، سڑکیں، پل، بجلی گھر، ریفائنریز، سکولوں، ہسپتالوں، فصلوں اور مال مویشیوں کا بھاری نقصان ہوا۔ مجموعی نقصان کا اندازہ تقریباً 10ارب ڈالر لگایا گیا۔ سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 2011ءمیں ہونے والی تباہ کن بارشوں نے اس نقصان میں مزید 3ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا۔2008-09ءکے دوران ملک خصوصاً شمال مغربی علاقوں میںسیکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کی وجہ سےکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے اور اضافی وسائل کی فراہمی کی ضرورت تھی۔ مزید برآں،سیکیورٹی کے حالات کی وجہ سے30لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے جس کے نتیجے میں بجٹ پر بے انتہاءاضافی بوجھ بڑھ گیا۔گزشتہ چار سالوں میں عالمی معاشی تقلیل، معاشی ہیجان، 2010ءکے تباہ کن سیلابوں، 2011ءکی بارشوں، تیل کی متواتر بڑھتی ہوئی قیمتوں اورسیکیورٹی کی مخدوش صورتحال جیسےبڑے چیلنجز کے باوجود حکومت نے کامیابیاں حاصل کیں۔سخت مالیاتی پالیسی اور مالی استحکام کے ذریعے معاشی استحکام اورشرح نمو کی بحالی دیکھی گئی۔ معیشت سیلابوں اور بیرونی دھچکوں کے بعد بحالی کی طرف گامزن ہے۔ زرعی پیداوار اور بڑی صنعتوں کی پیداواری افزائش کی بدولت GDPکی نمو 3.7فیصد تک کا تخمینہ لگایا گیا۔افراطِ زر 25فیصد کی بلندی سے کم ہو کر 12فیصد کے ہدف پر برقرار ہے۔مالی سال 2011ءکے دوران پاکستان کے بیرونی اکاﺅنٹ میں غیر متوقع بہتری نظر آئی جس نے معیشت کو کسی حد تک سہارا دیا۔ برآمدات 25.4ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں جو 28.4فیصد کا اضافیہ ظاہر کرتی ہیں، جبکہ درآمدات کی مد میں 14.7فیصد کا اضافہ ہوا۔ نتیجتاً پچھلے سال کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں 8.7فیصد کمی آئی۔ لہٰذا مالی سال 2011ءمیں کرنٹ اکاﺅنٹ بیلنس میں 2008ءکے 8.5فیصد خسارے کے مقابلے میں 0.3ارب ڈالر سرپلس دیکھنے میں آیا۔بیرونی ترسیلاتِ زر میں اضافے کا رحجان مسلسل تیسرے سال میں بھی جاری رہا۔ مالی سال 2008ءکے 6.2ارب ڈالر کے مقابلے میں سال 2011ءمیں 11.2ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئیں۔مالی سال 2011ءکے دوران مالی اکاﺅنٹ میں سرپلس کے کم ہونے کے باوجود مجموعی بیرونی بیلنس نے زرِ مبادلہ کو بڑھانے میں مدد کی۔ لہٰذا مالی سال 2011ءکے اختتام پر زرمبادلہ 18.2ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے۔موجودہ حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں ساتویں این ایف سی ایوارڈکے ذریعے وسائل کی عمودی تقسیم آبادی کے علاوہ، غربت، پسماندگی، محصولات کی پیداوار اور وصولیات اور آبادی کے پھیلاﺅکی بنیاد پر کی گئی۔ اس فارمولے کی بدولت بلوچستان کا حصہ 9.9فیصد تک بڑھ گیا جبکہ ڈویزیبل پول کا 70فیصد حصہ اب صوبوں اور مخصوص علاقوں کو منتقل ہو رہا ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ مالی سال 2010-11ءمیں چھٹے این ایف سی ایوارڈ کی رقوم 999ارب روپے تھی جبکہ مالی سال 2011-12ءمیں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 1204ارب روپے کی رقم کا تخمینہ لگایا گیا۔آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی بدولت کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ اور 17وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی ممکن ہوئی۔گلگت بلتستان کو خود مختاری دی گئی۔آغاز حقوق بلوچستان کے تحت چار سالوں میں کم ترقی یافتہ علاقوں کے لئے اضافی وسائل دیئے گئے۔ گلگت بلتستان کو پچھلے دو سالوں میں 32ارب روپے مہیا کئے گئے۔ آزاد کشمیر کے لئے 71ارب روپے اور فاٹا کے لئے 120ارب روپے مہیا کئے گئے۔گزشتہ چار سالوں میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پر مجموعی طور پر 2200ارب روپے خرچ ہوئے۔ گزشتہ برس کے 480ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 700ارب روپے مہیا کئے گئے ہیں۔ اس سے چار سالوں میں 657 منصوبوں کی تکمیل ہوئی۔پیپلز ورکس پروگرام کی مد میں پچھلے چار سالوں میں 130ارب روپے خرچ ہوئے جس میں سے 110ارب روپے PWP-IIاور 20ارب روپے PWP-Iکی مد میں شامل ہیں۔ یہ وسائل بجلی اور گیس کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، پانی کی فراہمی اور صفائی کی سینکڑوں سکیموں پر عملدرآمد کے لئے مہیا کئے گئے۔حکومت نے عوامی نقصانات کے ازالے کے پروگرام (Citizen's Damages Compensation Program) کے تحت متاثرین سیلاب کو 42ارب روپے مہیا کئے۔حکومت نے چار سالوں کے دوران سبسڈیز (Subsidies)کی مد میں اب تک (i)ایک ہزار ارب سے زیادہ بجلی کے صارفین کو سبسڈی دی جا چکی ہے۔ جس کا مقصد غریب تر لوگوں کو مہنگی بجلی کے دباﺅ سے بچانا تھا۔ (ii) 104ارب روپے کی پٹرولیم سبسڈی دی گئی۔ (iii) 110ارب روپے کھاد پر سبسڈی کے لئے دیئے گئے ۔ اور (iv)137ارب روپے غذائی اعانت کی مد میں خرچ کئے۔ مزید برآں حکومت نے پٹرولیم کی قیمت کو کم رکھنے کے لئے پٹرولیم لیوی کی مد میں 136ارب روپے کی چھوٹ دے دی۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب مستحقین کے لئے حکومت نے 138ارب روپے کے اضافی وسائل مہیا کئے۔بے نظیر ایمپلائز سٹاک آپشن پروگرام کے تحت 5لاکھ ملازمین کو 80سرکاری اداروں کے 12فیصد شیئرز دیئے گئے۔انٹرن شپ پروگرام کے تحت حکومت نے ایک لاکھ ماسٹر ڈگری رکھنے والے نوجوانوں کو 10,000روپے ماہانہ کے حساب سے انٹرن شپ دی۔ریلوے کو چار سالوں میں مجموعی طور پر 119ارب روپے دیئے۔ جن میں سے 85ارب جاری اخراجات کے لئے اور 34ارب روپے ترقیاتی اخراجات کے لئے تھے۔شعبہ توانائی میں حکومت نے کچھ سرکاری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کی۔ اس کے علاوہ متبادل توانائی کے پروگراموں کا آغاز کیا اور بجٹ کی بہتر نظم و ضبط اور گردشی قرضوں کے مسئلے کے حل کے لئے پیش رفت کی۔ٹیکس کے نظام کو آسان بنانے (Tax Simplification) کے لئے حکومت نے (i) ٹیکس نظام کے طریقہ کار کو بہتر کیا۔ (ii) انکم ٹیکس کے اطلاق کی کم از کم سطح ایک لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ مقرر کی۔ (iii) ٹیکس نظام کو نئے ٹیکس دہندگان کی شمولیت سے وسیع کیا۔ (iv) ٹیکس انتظامیہ کی استعداد کار کو بہتر بنایا۔ (v) سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ کیا۔ (vi) فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا مرحلہ وار خاتمے کا آغاز کیا۔ (vii)392اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹیز کا خاتمہ کیا اور (viii)کلیدی شعبوں پر صفر تناسب (Zero Rating) کا خاتمہ کیا۔ان کاوشوں کے نتیجے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس وصولیات 2007-08ءکے ایک ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 2011-12ءمیں 2ہزار ارب روپے ہو گئیں۔شرح نمو اور قومی پیداوار کے اعداد و شمار ہر سال مئی میں دستیاب ہوتے ہیں۔ان اعداد و شمار کا اعلان پاکستان بیورو آف سٹیٹسکس (پی بی ایس) کی نیشنل اکاﺅنٹس کمیٹی کرتی ہے۔تاہم پی بی ایس بڑے پیمانے پرمینو فیکچرنگ سےمتعلق ماہانہ اعدادو شمارمہیا کرتی ہے۔2010-11ءمیں سالانہ شرح نمو 3.0فیصد پر ریکارڈ کی گئی جو کہ 2010ءکے تباہ کن سیلابوں کے پیش نظر قابل ستائش ہے۔رواں سال (2011-12)کے لیئے معیشت کی افزائش کا تخمینہ 3.7فیصد ہے۔زرعی شعبہ3.1فیصد،صنعتی شعبہ 3.4فیصد اور خدمات کے شعبہ کی افزائش کا تخمینہ 4فیصد ہے۔ یہ اُن تباہ کن بارشوں کے باوجود ہے جو سندھ میں وسیع پیمانے پر زرعی پیداوار اور جائیداد کی تباہی کا باعث بنیں۔پی بی ایس نے حال ہی میں جولائی تا مارچ 2012ءکے لئے بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔ افزائش جولائی تا مارچ 2011ءکی 1فیصد کے مقابلے میں جولائی تا مارچ 2012ءمیں 1.1فیصد تھی۔ ٹیکسٹائل کے شعبہ، پٹرولیم پیداوار، دوا سازی، مشروبات، چمڑے کی مصنوعات، غیر دھاتی معدنی پیداوار اور ربڑ و کاغذ کی پیداوار میں خاص طور پر افزائش ریکارڈ کی گئی۔زرعی پیداوار کو اگست میں آنے والے سیلابوں نے خاص طور پر صوبہ سندھ میں بری طرح متاثر کیا۔ چاول، سرخ مرچ، پیاز، ٹماٹر اور آلو کی فصل کے ساتھ ساتھ زیادہ تر کپاس کی فصل متاثرہوئی۔سندھ میں تباہ ہونے والی کپاس کی فصل کی صوبہ پنجاب میں کپاس کی زیادہ پیداوار سے تلافی ہو گئی تاہم حالیہ اعداد و شمار کے مطابق کپاس کی پیداوار 13.6ملین گانٹھ تک ہوگی۔جدید معاشی تصور یہ ہے کہ ملک میں مقابلے کی فضا کے قیام سے نمو بہتر ہوتی ہے۔ حکومت کا کردار مارکیٹ میں مقابلے کی سہولیات کی دستیابی ہونا چاہیے۔حکومت بہت سے محاذوں پر کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایک Energy Policyمرتب کی گئی ہے جس سے توانائی کی فراہمی میں بہتری ہوگی۔ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اس اہم مقصد کے ساتھ کہ ان کے منافع میں اضافہ ہو، تعمیر نو کر رہی ہے۔حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ Low Tax Baseکی وجہ سے سرکاری شعبہ کے اداروں (PSEs) کو موثر طور پر نہیں چلا سکتی۔ اس لیئے یہ 8منتخب شدہ PSEsکی تشکیل نو کے ایجنڈے پر سرگرمی سے کام کر رہی ہے۔ جس کا مقصد ان اداروں کو منافع بخش بنانا ہے۔توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں صنعتی پیداوار کے حوالے سے کافی گنجائش ہے۔ حکومت بجلی اور گیس کی مد میں سرمایہ کاری کر رہی ہے تاکہ صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔حکومت نے حال ہی میں توانائی کے شعبے اور تین PSEsجو کہ پاکستان سٹیل مل، پاکستان ریلوے اور پاکستان ایئر لائنز ہیں کے حوالے سے Task Forceتشکیل دی ہے۔فنانس بل 2011-12ءمیں حکومت نے 100فیصد مالکانہ حقوق کی حامل صنعتوں کو Zero Taxکی اجازت دی ہے۔ مقابلے کی فضا پیدا کرنے کیلئے حکومت نے مختلف قسم کی Tax Exemptionsمہیا کی ہیں۔سال 2008-09ءمیں افراطِ زر 20.8فیصد تھا جو کہ 2010-11ءمیں کم ہو کر 13.7فیصد ہو گیا۔مئی 2012ءکے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر سال بہ سال اپریل 2011ءمیں 12.5فیصد کے مقابلے میں 11.3فیصد ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءکے حوالے سے یہ 10.7فیصد اور غیر غذائی اشیاءمیں 11.6فیصد رہا۔ اصل افراطِ زر (خوراک اور توانائی کے علاوہ) 10.8فیصد رہا۔بینکنگ سسٹم سے ادھار کی بڑھتی ہوئی ضرورت ایک کلیدی عنصر ہے جو افراطِ زر کے خدوخال کو متاثر کر رہا ہے۔ دوسری طرف نجی شعبہ کی برائے نام طلب ایک وجہ ہے کہ افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ کیوں نہیں ہو رہا۔ کئی عوامل اشیاءکی قیمت میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ جب رسد میں اضافے کے لیئے نجی شعبہ برائے نام سرمایہ کاری کر رہا ہو اور جب سٹیٹ بنک آف پاکستان حکومت کے لیئے پیسوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیئے روپے چھاپ رہا ہو تو معیشت میں نقدِ زر بڑھ جاتا ہے جو کہ طلب میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے۔ دوسری وجہ اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہے جیسے کپاس، پٹرولیم اور پام آئیل وغیرہ کی قیمتیں۔ جب یہ قیمتیں بڑھتی ہیں تو درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں۔ہمارے ہاں دونوں سیلابوں نے بھی سبزیوں اور زرعی پیداوار میں کمی کرتے ہوئے ان کی قیمتوں پر بوجھ ڈالا ہے۔ تاہم اب ان کی بہم رسانی بہتر ہو گئی ہے۔اس سال گندم خریدنے کے لیئے اس کی امدادی قیمت مبلغ 1,050روپے فی من مقرر کر دی گئی ہے جبکہ پچھلے سال یہ 950روپے فی من تھی۔ پٹرولیم کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گیس کی فراہمی میں کمی کے باعث اس کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح بجٹ میں خسارے کی وجہ سے حکومت کے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔یہ سارے عوامل آنے والے ہفتوں میں افراطِ زر میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔ تاہم اس بات کا اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر مالی سال 2011-12ءمیں افراطِ زر اوسطاً 11سے 11.5فیصد تک رہے گا۔حکومت اپنی مالی اور معاشی پالیسیوں کے ذریعے افراطِ زر پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت ایک سخت معاشی پالیسی اختیار کرنا چاتہی ہے تاکہ بجٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان سے کم سے کم قرضہ لینا پڑے۔علاوہ ازیں حکومت قیمتوں پر باقاعدہ نظر رکھے ہوئے ہے اور کابینہ کو رپورٹ کر رہی ہے۔ ضلعی سطح پر قیمتوں کے بارے میں Monitoring Committeesصارفین کے لیئے قیمتوں پر باقاعدہ نظر رکھتی ہے۔سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اکتوبر 2011ءمیں شرح سود 13.5فیصد سے کم کرکے 12فیصد کر دی ہے۔ شرح سود میں یہ کمی سرمایہ کاری میں اضافے میں معاون ہوگی کیونکہ نجی ادارے کم لاگت پر قرض لینے کے قابل ہو جائیں گے۔تجارتی بینک گورنمنٹ سیکورٹیز میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں (کیونکہ بنک ان کو Risk-freeتصور کرتے ہیں) اور نجی اداروں کو سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیئے کم دے رہے ہیں۔ تجارتی بینک نجی کمپنیوں سے3-5فیصد تک اونچی شرح سود وصول کر رہے ہیں۔حکومت انتہائی سخت مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی۔ شرح سود کا تناسب افراطِ زر پر منحصر ہوگا یعنی افراطِ زر بڑھنے پر شرح سود بڑھا دی جاءگی اور کم ہونے پر شرح سود بھی کم ہو جائے گی۔پچھلے کئی سالوں سے مالی خسارہ پر قابو پانا مشکل تھا۔ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک موجودہ معاشی حالات میں بجٹ خسارہ پر قابو پانے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہندوستان نے مالی سال 2011-12ءکے بجٹ میں مالی خسارہ 4.6فیصد کا اعلان کیا تھا جو کہ اب بڑھ کر 5فیصد سے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔حکومت پاکستان اس کوشش میں ہے کہ رواں مالی سال 2011-12ءمیں اپنا بجٹ خسارہ GDPکے لحاظ سے 5.0فیصد سےبڑھنے نہ دے۔یہ بجلی اوراشیاءکے بقایاجات کی رقم 319(نیپرا کے تعین شدہ اور حکومت کے اعلان شدہ) کو حکومت بجٹ کے ذریعے Tariff differential subsidyکی صورت میں پیپکو PEPCOاورKESCکو ادا کر رہی ہے۔مزید براں صوبوں اور صارفین کی طرف سے بڑی تعداد میں بل واجب الادا ہیں ان میں سے زیادہ تر واجب ادا کلیمز متنازعہ ہیں اور اسکے باعث بجلی کے نظام میں خلل واقع ہوتا ہے۔اس وقت سسٹم میں گردشی قرضہ کی رقم 325ارب روپے ہے۔اس کے حل کے لیئے حکومت (1) بجٹ کے ذریعے Tariff differential subsidy ادا کر رہی ہے۔ (2) بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ (3) کارکردگی بڑھانے، حاکمیت کی بہتری اور Line Lossesمیں کمی کے مقصد کے تحت تقسیم کار کمپنیوں کی تعمیر نو کر رہی ہے۔ (4) بل ادا نہ کرنے والوں کے بجلی کنکشن منقطع کرنے پر کام کر رہی ہے۔ (5) پیداواری کمپنیوں کے آڈٹ کا اہتمام کر رہی ہے۔ (6) فرنس آئل کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے طریقہ کار کو ہائیڈل بجلی پیداوار کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیئے حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ (7) بجلی کی پیداوار کے لیئے گیس کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے۔پاکستان کا GDPکے لحاظ سے ٹیکس کا تناسب کم یعنی تقریباً 10فیصد ہے(فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا جی ڈی پی کے لحاظ سےٹیکس کا تناسب 9.5فیصد ہے)۔ زرعی پیداوار، جائیداد اور سٹاک ایکسچینج کی منتقلیوں پرٹیکس یاتو بہت کم ہے یا بالکل نہیں ہے۔ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی فارشات کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس دورانیے کے آخری سال 2014-15تک جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کے پندرہ فیصد تناسب کے حصول کی غرض سے Leakagesمیں کمی اور ریونیو میں اضافے کے لیئے ٹیکسیشن کی بہتری کے لیئے ٹیکس وصولی کے نظام کو سبک رو بنانا ہوگا، صوبوں کو زراعت اور جائیداد کےشعبوں پرٹیکس لگانےکےلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کواس سلسلےمیں انتظامی اور قانونی اقدامات کرنا ہوں گے تاہم ابھی تک اس سلسلے میں ہلکی سی پیش رفت سامنے آئی ہے۔اخراجات کے لحاظ سے وفاقی حکومت کے تمام تر دستیاب ریونیو (صوبوں کو ریونیو کی منتقلی کے بعد) سود کی باز ادائیگی(قرضوں پر سود) اور دفاع پر خرچ ہوتے ہیں۔ حکومت کو اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی، حکومتی وزارتوں کو چلانے، خدمات کی فراہمی، بجلی پر سبسڈی کی ادائیگی، فلڈ ریلیف کے اقدامات، این ایف سی کے علاوہ صوبائی گرانٹس اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیئے ادھار لینا پڑتا ہے۔2007-08ءمیں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 13.9ارب ڈالر تھا تاہم ملک نے 2010-11ءمیں 214بلین ڈالر زائد سرمایہ کا اظہار کیا۔ سرپلس کی بڑی وجہ برآمدات میں تاریخی اضافہ ہے جو کہ تمام وقت 25.4ارب ڈالر سے زیادہ رہا۔ ایک اور وجہ ترسیلاتِ زر میں تاریخی اضافہ تھا جس نے 11.2ارب ڈالر کی حد کو چھولیا۔حکومت برآمدات کے شعبے کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ حکومت توانائی کی مسلسل رسد کو یقینی بنانے کے لیئے کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت یورپین کمیشن میں برآمدات کا کوٹہ بڑھانے کے لیئے بھی کام کر رہی ہے۔30اپریل 2012ءکے اختتام پر غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 16.4ارب ڈالر پر ہیں۔ 30جون 2011ءکو یہ ذخائر 18.3ارب ڈالر ریکارڈ کئے گئے۔ یہ اثاثہ جات 30جون سے 1.8ارب ڈالر کم ہوئے جس کی بڑی وجہ درآمدات میں اضافہ ہے۔تاہم صورتحال بہت خوش آئند ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر جون 2012ءکے آخر تک 15.5سے 16بلین ڈالر کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔حکومت نے معیشت میں ساختیاتی/تعمیراتی اصلاحات کے عمل کو تقویت دیتے ہوئے توانائی کے شعبے اور سرکاری شعبہ کے تین اداروں (PSEs)کو توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ Power Sector Recovery Plan 2010کے تحت اس شعبے کے Reform Plan 2010کا عملی نفاذ تیز تر اور بلند تر کیا ہے۔ 30اکتوبر 2011ءکو PEPCOکی تحلیل (Dissolution)مکمل کی گئی اور NTDCیعنی National Transmission and Dispatch Companyاور سنٹرل پاور پرچیز اتھارٹی (CPPA)کو متعلقہ عملی کام سونپے گئے۔ CPPAکو نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی مدد سے oprationalبنایا گیا ہے۔ ایک پیشہ ورانہ مہارت کے حامل چیف ایگزیکٹو آفیسر کی بھرتی کا عمل شروع ہو چکا ہے جو کہ جلد ہی مکمل ہو جائے گا۔ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (Disos.)جو کہ تعداد میں 9ہیں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور GENCOS Holding Companyکی تشکیل نو ہو چکی ہے اور ماہر CEOکی بھرتی زیرِ عمل ہے۔TDSکی بروقت ادائیگی اور KESCاور فاٹا کی ماہانہ سبسڈی یقینی بنائی جا رہی ہے۔مارچ 2012ءتک کا سبسڈی کلیم ادا کیا جا چکا ہے۔صوبائی اور وفاقی حکومت کےاداروں کی وصولی (Recovery)کوآسان بنایا جا رہا ہے۔جولائی تا نومبر 2011ءکے دوران چھ عدد DISCOsکے نجی شعبے کے نادہندگان 3.7ارب روپے تک کم کی جا چکی ہیں۔ DISCOsکے ماہانہ اہداف کی وصولی پرنظر رکھی جا رہی ہے۔موجودہ بلوں کی 100فیصد وصولی کی کوششیں زیر عمل ہیں۔تقریباً 1000میگاواٹ بچانے کےلیئے بارانصرامی اورتحفظی اقدامات پرعملدرآمدہورہا ہے۔منگلا ڈیم کواونچا کرنے کا کام مکمل ہو چکا ہےاورمنصوبے کاافتتاح بھی ہو گیا ہے۔ 4500میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے منصوبے دیامیر بھاشا ڈیم کا افتتاح ہو چکا ہے۔پاکستان سٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل ہو چکی ہے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے CEOکی تعیناتی کے لیئے چناﺅ کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کی تعمیر نو کے لیئے کاروباری منصوبہ کابینہ نے منظور کر دیا ہے۔سرکاری اداروں کی تعمیر نو کی کابینہ کمیٹی (CCOR)نے پاکستان ریلویز کےلئے تعمیر نو کے فریم ورک کو فعال کر دیا ہے۔40لوکو موٹوز کی مرمت ہو چکی ہے جو فنکشنل ہو گئے ہیں۔ روٹ کی معقولیت جانچی جا رہی ہے اور نقصان کے حامل روٹ بند کئے جا رہے ہیں۔ فنانشل ریسٹرکچرنگ پلان کے تحت 96لوکوموٹوز کی مرمت کےلئے تجارتی قرضہ حاصل کر لیا گیا ہے۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی تعمیرنو کامنصوبہ مکمل ہوچکا ہےجوفرماں روائی، انسانی وسائل کی معقولیت، مالیات اور افعال کی تعمیر نو، انجینئرنگ کی بہتری، ماحاصل اور لاجسٹک، مارکیٹنگ اور بیڑے (fleet)، ایئرپورٹ خدمات اورسامان کی ترسیل کے لیئے انحصار جیسے معاملات کا احاطہ کرنا ہے۔افرائش کے لیئے نیا فریم ورک افزائش حکمت عملی (Growth Strategy)ہے جس پر پلاننگ کمیشن نے غور کیا اور قومی اقتصادی کونسل (NEC)نے اس کی منظوری دی۔