جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا!
کالم کے عنوان میں جس شعر کا مصرع درج ہے: پورا شعر کچھ یوں ہے:
بُوئے گُل، نالہءدل دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نِکلا، سو پریشاں نکلا
غالب کا یہ شعر اُن کے ابتدائی شعروں میں سے ہے۔ بُوئے گُل پھولوں کی خوشبو سے تعبیر ہے، جبکہ نالہءدل وہ آہ ہے جس کے بارے میں ہم سب آگاہ ہیں اور دودِ چراغ محفل، مجلس میں روشن اس چراغ کا دھواں ہے جو سب کے سامنے نکل کر ہوا میں ضم ہو رہا ہوتا ہے۔ شاعر کا مطلب یہ تھا کہ پھولوں سے نکلی ہوئی خوشبو بھی واپس نہیں آتی۔ دل سے نکلنے والی آہ بھی صرف ”ون وے ٹریفک“ ہے اور یہی کیفیت جلتے چراغ میں سے نکلنے والے دھوئیں کی ہے۔ غرض محبوب کی آنکھوں سے جو بھی گِرا، وہ واپس نہیں آ سکا۔ ہمارے یہاں اگر سیاسی نظام کی جانب نگاہ ڈالیں تو اس کی کیفیت بھی کچھ غالب کے اس شعر جیسی ہے۔
سکندر مرزا (صدر پاکستان) کو اُن کے اپنے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے نظروں سے دور، یعنی جلاوطن کیا تو وہ پھر اس ملک میں واپس نہیں آسکے، بلکہ جلاوطنی ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے ، جبکہ کنونشن مسلم لیگ سے ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو نکالا تو پھر وہ کبھی کنونشن لیگ میں نہ جا سکے، بلکہ آگے چل کر خود کنونشن لیگ پر جنرل یحییٰ خان نے پابندی لگا دی اور اس کے 9 کروڑ سے زائد کے پارٹی فنڈز بھی منجمد کر دئیے گئے.... 1969ءکا یہ وہ زمانہ تھا جب ملک محمد قاسم ، ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے اور پارٹی فنڈز اتنے زیادہ تھے کہ اس میں کئی کارخانے لگائے جا سکتے تھے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جن22 امیر ترین خاندانوں کو ختم کرنے کے لئے پیپلز پارٹی بنا کر نکلے تھے۔ انہی خاندانوں نے غریبوں کے لئے روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ لگانے والی اس سیاسی پارٹی پر قبضہ جمالیا اور غریبوں کو پارٹی سے ”منہا“ کر دیا گیا۔ یہ ضرب تقسیم کچھ ایسے پنپی کہ ہمارا آدھا ملک مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر الگ ملک بنگلہ دیش بن گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے جب مغربی پاکستان، یعنی، بچے ہوئے پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو اُنہیں متعدد خلفشاروں کا سامنا کرنا پڑا۔
پارٹی کے اندر سے وڈیروں، جاگیرداروں، صنعت کاروں کو ساتھ ملانے پر تنقید کا سامنا، 90 ہزار سے زائد فوجیوں اور سویلین شہریوں کا بطور جنگی قیدی ہندوستان کی تحویل میں ہونا، پاکستان کے بہت سے علاقوں اور دیہات پر بھارتی فوج کا قبضہ اور اندرون ملک نازک اقتصادی حالات۔ ان تمام امور سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی ذوالفقار علی بھٹونے تشکیل دی، اس میں سرفہرست علاقوں کی واپسی اور جنگی قیدیوں کی آزادی کا مسئلہ تھا۔ اس کے لئے انہوں نے ساری دنیا کے دورے کئے اور بہت سے ممالک کے ذریعے بھارت پر دباو¿ ڈالوایا۔ جنگی قیدی دو اڑھائی برس بعد واپس آگئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم اُمہ کو اسلامی سربراہی کانفرنس پر لاہور میں اکٹھا کیا۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اُن پر واضح کی، پاکستان کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے میں اُن کی امداد بھی طلب کی، جو ظاہر ہے کہ بہت سے برادر اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب کی طرف سے فراہم بھی کی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو پر پارٹی کے اندر سے بھی کافی دباو¿ تھا۔ سب سے پہلے تو اُن کی اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری جے اے رحیم اُس سے کنارہ کش ہوگئے۔ بظاہر تو اُنہیں وزارت سے فارغ کیا گیا، لیکن دراصل وہ دل ہی ہار چکے تھے ۔ انہوں نےذوالفقار علی بھٹو کو ظاہر میں جس جمہوریت کا چیمپئن دیکھا تھا، اقتدار سنبھالتے ہی وہ اس کے قطعی اُلٹ، یعنی سویلین ڈکٹیٹر بن گئے۔ نہ تو پارٹی اجلاس میں کسی نکتے پر بولنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کابینہ کے اجلاس میں۔ یہ پارٹی اب صرف سننے والی پارٹی ہی رہ گئی تھی جو اپنے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی آنکھ کی جنبش تک ہی محدود تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی میں ایک آدھ مرتبہ لیبر لیڈر مختاررانا، منہاج برنا، احمد رضا قصوری، ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، مصطفی کھر، غلام حسین، افتخار تاری، بابائے سوشلزم شیخ رشید، شیر پاو¿ اور چند دیگر زعماءنے اختلاف رائے کی کوشش کی تو ذوالفقار علی بھٹو صاحب غضب ناک موڈ میں ان کی طرف پلٹے۔ بہت سوں کو راندئہ درگاہ بنا دیا گیا۔ متعدد سے وزارتیں لے لی گئیں، جن میں چیف منسٹر سندھ ممتاز بھٹو اور چیف منسٹر پنجاب مصطفی کھر بطور خاص شامل تھے۔ ریلوے وزیر غلام حسین کی فیڈرل سیکیورٹی فورس سے ایسی ٹھکائی کرائی گئی کہ اُن کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ کچھ کو نظر بند کر دیا گیا۔ احمد رضا قصوری پر حملہ کرایا گیا، لیکن وہ تو بچ گئے، البتہ ان کے والد قتل ہوگئے....(اس قتل کے مقدمہ میں آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، بلکہ اس سزا پر عملدرآمد بھی ہُوا اور 4 اپریل1979ءکو بھٹو کو پھانسی بھی دے دی گئی.... پارٹی کے اصل جانثار تواب(1973ءسے 1977ءکے درمیان ) پیپلز پارٹی سے کنارہ کش ہونا شروع ہوگئے تھے، یا پھر خوف زدہ حالت میں پارٹی سے چمٹے رہنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب اُن کے دست راست غلام مصطفی کھر (سابق گورنر، چیف منسٹر پنجاب) بھی ان سے الگ ہوگئے اور ایک اور چیف منسٹر حنیف رامے بھی پارٹی چھوڑ گئے۔ یہ دونوں مسلم لیگ میں جا شامل ہوئے۔ ممتاز بھٹو بھی سندھ کی چیف منسٹری سے الگ ہو کر ناراض لوگوں میں شامل ہوگئے۔ گو اُنہیں مرکز میں وزیر مواصلات بنادیا گیا، لیکن وہ مسلسل ناراض ہی رہے۔
پارٹی پر اب لغاریوں، مزاریوں، مخدوموں، بلوچوں، اور سندھی جاگیرداروں کے علاوہ داو¿د حبیب گروپ جیسے صنعت کاروں کا قبضہ بھی مضبوط ہونا شروع ہوگیا، جبکہ ہر گھر میں بسنے والی غریبوں کی اس پارٹی کودیکھتے ہی دیکھتے ہائی جیک کر لیا گیا۔ آج اس کی 46 سالہ تاریخ پر روشنی ڈالیں تو آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر مبشر حسین (سابقہ وزیر خزانہ) سمیت پارٹی کے بہت سے قابل ترین نام اس سے الگ ہیں اور ”جو تری بزم سے نکلا، سو پریشان نکلا“ کے مصداق واپس اب تک کسی سمت نہیں جا سکے۔ لغاری بھی الگ ہوگئے۔ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیر زادہ بھی نہیں۔ بہت سے لیبر لیڈر بھی چھوڑ گئے، بلکہ اب تو اللہ کو پیارے ہوگئے، نہ تو آج حنیف رامے زندہ ہیں اور نہ ہی مولانا کوثر نیازی، نہ ہی بابائے سوشلزم شیخ رشید یہاں موجود ہیں اور نہ ہی پارٹی کی اپنی متاع، یعنی نصرت بھٹو یا محترمہ بے نظیر بھٹو، ایسی ہی حالت بعض دوسری جماعتوں کی بھی ہوئی، لیکن جس تیزی سے اس قدیم پارٹی کے والی وارث اس کو چھوڑ کر گئے ہیں، اس کی مثال کہیں اور یا دوسری پارٹی میں نہیں ملتی۔
جماعت اسلامی سے بھی بہت سے لوگ بیس بیس برس لگا کر الگ ہوئے ہیں، لیکن جماعت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔ جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ق) کا تعلق ہے تو یہ تھوڑا عرصہ قبل، یعنی 2002ءمیں تو آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیوں نے پرویز مشرف کے کہنے پر بنائی تھی اور اس میں بھی پرانے مسلم لیگی ہی سرفہرست تھے جو میاں نواز شریف کے جدہ جلا وطن ہونے کی بدولت تنہا رہ گئے تھے، لہٰذا اب دس گیارہ برس بعد یہ جماعت بھی اپنی موت آپ مر گئی ہے، جو بھی اس میں سے گیا ہے، واپس نہیں آیا، بلکہ کئی کئی جگہوں پر اُنہیں جانا پڑا ہے۔ ان میں سے70 یا 80 فیصد تو واپس اپنے میاں نواز شریف کے کھونٹے پر پہنچ چکے ہیں، جبکہ بعض اب مصیبتوں میں ہیں۔ خاص طور پر میاں منظور احمد وٹو، کیونکہ انہوں نے اپنی مقبولیت کا اندازہ قدرے غلط لگا لیا تھا۔ جب بھی آپ اپنے اصل سے ہٹ جائیں گے تو پھر یاد رکھیں کہ” جزو کبھی کُل“ نہیں ہو سکتا۔ جوں ہی یہ وائیں کے زمانے میں سپیکری سے چیف منسٹر بنے تھے، اس وقت سے انہیں عوام نے میر جعفر اور میر صادق کی فہرست میں ڈال دیا تھا اور ظاہر ہے کہ نہ تو آج تک میر جعفر اور میر صادق اس فہرست سے نکل سکے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی نکال سکے گا۔
میرے خیال میں جو سیاست دان یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا یا اُن کے بغیر دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، اُنہیں ایک نظر اپنے ہی ملک کے قبرستانوں پر بھی ڈال لینی چاہئے۔ ان قبرستانوں میں وہ نامور لوگ بھی عام انسانوں کے ساتھ دفن ہیں، جنہیں آج کے حکمرانوں جیسا ہی دعویٰ تھا کہ اُن کے بغیر اس ملک کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا، لیکن ملک تو پھر بھی چل رہا ہے۔ زندگی کی گاڑی بھی رواں دواں ہے۔ سیاسی پارٹیاں ٹھیک ویسے ہی چل رہی ہیں، جیسی وہ چھوڑ کر گئے تھے، بلکہ شاید ان میں بے پناہ اضافہ بھی ہُوا ہے۔ گھاٹے میں ہمیشہ وہی رہتے ہیں جو ہر لمحہ تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپنی انفرادی حیثیت کو اہم سمجھتے ہیں اور اجتماعیت کی طرف محض اس لئے رجوع نہیں کرتے کہ شاید انفرادی حیثیت کہیں گُم ہی نہ ہو جائے ، حالانکہ اگر آپ کسی بھی سسٹم پر غور کریں تو آپ کی انفرادی حیثیت بھی گُم نہیں ہو سکتی ،کیونکہ آپ جو بھی ملک اور قوم یا اپنے کسی سسٹم یا پارٹی کے لئے کرتے ہیں، وہ سب کو ٹھیک ٹھیک اور صاف صاف دکھائی دے رہاہوتا ہے اور اُسے کوئی چھپا نہیں سکتا، کیونکہ کسی اور کو علم ہو یا نہ ہو، کم از کم آپ تو اپنی اس صورت حال سے مطمئن ہوتے ہیں۔
یاد رکھیں جو بھی مرکزی دھارے سے دور ہوتا ہے، پھر واپسی ممکن نہیں رہتی۔ مصطفی کھر ہو یا مرحوم فاروق لغاری اور حنیف رامے، منظور وٹو ہو یا مصطفی جتوئی مرحوم، ممتاز بھٹو ہوں یا حفیظ پیرزادہ، ڈاکٹر مبشر حسن ہوں یا پنڈی کے شیخ رشید احمد، جھنگ کی بیگم عابدہ حسین ہوں یا مشاہد حسین سید.... ”جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا“۔ ٭