شیطان کا آسان ہدف
گزشتہ چند روز سے صبح ہوتے ہی محلے کے بچوں کے درمیان پٹاخہ بازی کا جو مقابلہ شروع ہوتا ہے ،وہ رات گئے تک جاری رہتا ہے، کبھی کبھار تو کوئی پٹاخہ اس زور دار طریقے سے پھٹتا ہے کہ دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ ان ہولناک دھماکوں سے راہ چلتا مسافر چونک کر خوفزدہ ہو کر سہم جائے تو من چلوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان کے زور دار قہقہے بلند ہوتے ہیں جو خوفزدہ شخص کو اس کی کمزور دلی کا احساس دلانے یا اسے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ پھر بہت دور تک یہ قہقہے اس غریب کا تعاقب کرتے ہیں۔ خوفزدہ مرد ہو یا عورت، اس کی کمزور دلی سے محظوظ ہونے کے لئے کوئی من چلا خاموشی سے مخالف سمت سے آکر ایک آدھ مزیدپٹاخہ ڈرنے والے کے قرب و جوار میں چلا دیتا ہے۔ مذکورہ بالا واقعات گزشتہ کئی روز سے وقتاً فوقتاً اپنی گلی میں واقع کینال ریسٹ ہاؤس روڈ شجاع آباد میں دیکھ رہا ہوں ،انہیں دیکھنے کے بعد ایک عجیب قسم کا ناقابل اظہار غصہ میرے اندر در آتا ہے اور مَیں پٹاخے چلاتے بچوں کی نادانی کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی کم علمی و ذہنی پسماندگی پر شدت سے کڑھتا ہوا گھر پلٹ آتا ہوں۔ پٹاخے چلانے والے بیشتر بچے شعور کی عمروں کو چھو رہے ہیں ،مگر نہ تو انہیں کچھ خیال ہے، نہ ہی ان کے والدین کو ان کی پرواہ ہے کہ وہ کیسے قبیح فعل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
شعبان المعظم کا چاند نظر آتے ہی بچے تو بچے بڑے بھی پٹاخہ بازی کے جاہلانہ کھیل کا باضابطہ حصہ بنے نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اس فضول سی مشق کو اپنی مذہبی روایات کا حصہ سمجھتے ہوں۔ تبھی تو کسی طرف سے اس ناپسندیدہ فعل کی روک ٹوک کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا جاتا۔ سرکاری سطح پر محض خانہ پری کے لئے متعلقہ تھانوں کو ہدایت کر دی جاتی ہے کہ وہ آتش بازی کے سامان کی خرید و فروخت نہ ہونے دیں۔ ہر سال یہ سرکاری اعلان شب برات سے چند روز قبل یا ایک آدھ ہفتہ قبل اس وقت کیا جاتا ہے، جب شہر بھر میں پٹاخوں کی خفیہ یا اعلانیہ ترسیل شروع ہو چکی ہوتی ہے، پھر پٹاخہ سازی پر سرمایہ کاری کرنے والوں کے پاس ایک ہی طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کارروائی کو روکنے کے لئے پولیس کی مٹھی گرم کرتے ہیں، یوں پندرہ سولہ شعبان تک پابندی کے باوجود شہر پٹاخوں کی آوازوں سے گونجتا رہتا ہے۔ بھتہ وصول کر کے پٹاخہ بازوں کو نظر انداز کرنے والی فرض شناس پولیس کو معاملات پر گرفت کے حوالے سے جھنجھوڑا جائے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے۔۔۔ ’’بچوں کا شوق ہے جی۔۔۔ اس میں کسی کا کیا نقصان ،کسی کی جان تو نہیں لے رہے نا، پٹاخے ختم ہوں گے تو خود ہی گھروں کو چلے جائیں گے‘‘۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
مجھ سمیت بہت سے لوگ ہیں جو موٹر سائیکل پر شب ڈھلے گھروں کو لوٹتے ہیں ،ایسے بہت سے لوگوں پر شرارتی نوجوانوں کی ٹولی پٹاخوں سے حملہ آور ہوتی ہے۔ ایسی کارروائیوں کی باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے ،حملہ آوروں کا تو یہ شغل ہوتا ہے، مگر اس شغل میں ہی متعدد حادثات میں بے شمار لوگ زخمی یا پھر عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں جو ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ میرا ریاستی ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ بچوں کے والدین سے بھی یہی سوال ہے کہ انہوں نے شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو کیا سمجھ لیا ہے؟ اس رات کا بڑا تقدس ہے ،اسے محض حلوے مانڈوں اور پٹاخہ بازی کی نذر کرکے اپنی عاقبت برباد کرنے والے ہوش کے ناخن لیں۔ اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں۔بیشتر لوگ اور پڑھے لکھے گھرانے مذہبی حدود و قیود کو محض فرسودہ روایات کہتے نہیں چوکتے۔ وہ صرف آگے بڑھنے کے لئے نصاریٰ اور یہود و ہنود سے مقابلے کو ہی اپنی کامیابی کا زینہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔ روایت ہے کہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب پوری کائنات کے اعمال رفتہ رب العزت کی بارگاہ میں لائے جاتے ہیں ،اس رات دنیا میں پیدا ہونے اور مرنے والوں کے علاوہ تمام مخلوق کے رزق کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ (واللہ عالم بالصواب) اور ہم ایسے لہو و لعب میں خود کو مصروف رکھتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔ کیا پٹاخہ بازی اور آتش بازی بے جا اسراف نہیں؟
پندرہ شعبان کو پٹاخہ بازی کے ذریعے کیا عبادات میں مشغول افراد کی عبادتوں میں خلل نہیں ڈالا جاتا۔ بوڑھے اور کمزور دل افراد سمیت معصوم بچوں کو پٹاخوں اور دھماکوں سے دہلانا کون سا نفع بخش عمل ہے۔۔۔حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (عبادت) کا بندوبست کرو اور دن میں روزہ رکھو۔۔۔اللہ تعالیٰ اس شب غروب آفتاب سے ہی آسمان دنیا پر اپنی خاص تجلیوں کا ظہور فرماتا ہے اور منادی کرا دی جاتی ہے کہ ’’ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ مَیں اسے بخش دوں۔ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ مَیں اسے مالا مال کر دوں، ہے کوئی شفاعت طلب کرنے والا کہ مَیں اسے عافیت عطا کر دوں‘‘ ۔روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے یہ منادی آئندہ روز طلوع فجر تک جاری رکھتے ہیں۔۔۔ (سنن ابن ماجہ جلد دوم ص 160)
گستاخی معاف: آج ہمارے معاشرے میں عبادتوں کی مخصوص شب کو بھی ہندو وانہ رسوم و رواج کے قالب میں ڈھال لیا گیا ہے ،جس طرح ویلنٹائن ڈے، فاردر ڈے، مدر ڈے، بسنت ڈے اور ہولی ڈے منائے جا رہے ہیں ،اسی طرز پر متبرک و مقدس اسلامی ایام اور راتوں کو منانے کا چلن عام ہو چکا ہے، جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے کیا ہم قرآن کا درس بھول گئے۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ العصر میں عصر کے اہم وقت کی قسم کھا کر کہا کہ انسان خسارے میں ہے اور کیا اپنے اعمال کی بدولت آج خسارے سے دو چار نہیں؟شعبان المعظم کی پندرہویں شب نہ تو حلوے بنا کر بانٹنے اور کھانے کے لئے آتی ہے اور نہ ہی پٹاخہ بازی کے لئے، نہ ہی ایسی کوئی دوسری خرافات اس شب کے حوالے سے ثابت ہیں تو پھر ہم مسلمان کیوں ان خرافات کے پیچھے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ پٹاخہ مافیا نے عبادت کے لئے مخصوص اس رات کا انتخاب کب، کیوں اور کس کے کہنے پر کیا اس بات کی بھی تحقیق کی جانی چاہئے۔ پٹاخے چلا کر دوسروں پر پھینکنا اور خوفزدہ کرنا کون سی تہذیب کا حصہ ہے ؟اس سلسلے میں والدین کو بھی سوچنا ہوگا کہ اپنے بچوں کی غلط خواہشات کی تکمیل میں اپنے رب کی ناراضگی کیوں مول لے رہے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ شیطان کا سب سے آسان ہدف ماں باپ کی اولاد سے محبت ہے، جو اسے سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ،مگر جن کا ایمان سلامت اور قلوب اللہ کے احکامات کے پابند ہوں ،وہ شیاطین کے ایسے حملوں سے بہر حال محفوظ رہتے ہیں۔۔۔ (دما توفیقی الاباللہ)