وجاہت خان کا وہ کالم جو سب نے چھاپا لیکن صرف اپنی مرضی کے اقتباسات سے،اب آپ پورا پڑھیں

وجاہت خان کا وہ کالم جو سب نے چھاپا لیکن صرف اپنی مرضی کے اقتباسات سے،اب آپ ...
وجاہت خان کا وہ کالم جو سب نے چھاپا لیکن صرف اپنی مرضی کے اقتباسات سے،اب آپ پورا پڑھیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) بول کا پول کھلنے کے بعد اس کا حصہ بننے والے جن بڑے بڑے صحافیوں نے استعفے کا اعلان کیا انہیں میں ایک نام وجاہت ایس خان کا بھی ہے، لیکن ان کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ انہوں نے ”ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دے دیا“ کہہ کر بات گول نہیں کی بلکہ ایک طویل مضمون کی صورت میں وہ کڑوا سچ بیان کردیا کہ جس کی ان کے ساتھیوں کو ہمت نہ ہوئی، اور جسے ملک کے بڑے بڑے میڈیا ہاﺅسز نے یا تو شائع کرنے سے انکار کردیا، یا اپنے من پسند اقتباسات شائع کردئیے۔ وجاہت ایس خان کے چشم کشا مضمون کا مکمل ترجمہ ”روزنامہ پاکستان“ کے قاریئن کے لئے پیش خدمت ہے۔
مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔ جب خبر شائع ہونے سے پہلے بدھ کے روز ڈیکلن واش نے مجھ سے رابطہ کیا، مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔ جب انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور مجھے میرے اپنے ادارے کے بارے میں عجیب محسوس کروانے کے امتیازی استحقاق کا مظاہرہ کیا، مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔ جب میں نے اپنے افسران میں سے ایک سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ”نیویارک ٹائمز“ کس چیز پر کام کررہا تھا، اور ایک توقف سنا، اور پھر اعتماد سے خالی ”کسے پرواہ ہے، ہم ان کے خلاف مقدمہ کریں گے،“ مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔
مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا جب میں نے چمک، کاریں، پروٹوکول افسران، ویٹر اور شوفر دیکھے۔ مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا جب میں نے احتیاط سے تیارکیا گیا گھڑت امریکی لہجہ اور تاکید لفظی ہر جگہ سنا: ایلیویٹر میں سنائی جانے والی ریکارڈنگ میں جس نے مجھے بتایا کہ میں عالمی اشرافیہ کو جوائن کررہا تھا، ہیومن ریسورس افسران سے جنہیں مقرر کیا گیا تھا مجھے ریسٹورنٹ لیول باورچی فراہم کرنے کے لئے، اس فوٹوگرافر سے جس نے میرا ”برینڈنگ فوٹو شوٹ“ کرنا تھا، اس جم انسٹرکٹر سے کہ جس نے مجھے بڑی سکرین کے لئے تیار کرنا تھا۔
ظاہر ہے، میں نے بد کو نیک جانا۔ مجھے بہتر معلوم ہونا چاہیے تھا۔ جب تنظیمی خود یقینی کا بلبلا مذہبی بن گیا، پھر ترغیب، پھر جوش، مجھے معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن اعتماد، جو کہ ایگزیکٹ کے گروﺅں سے بول کے ایگزیکٹوز، بول کے ایگزیکٹوز سے مجھ تک اور مجھ سے ہزاروں دوسرے ساتھیوں تک بہہ رہا تھا، متعدی تھا۔ یہ وہ ادارہ تھا کہ جو شمالی کراچی کے ایک بیک آفس سے بڑھ کر ڈی ایچ اے کے چند بلاکوں پر محیط ہوچکا تھا، مجھے بتایا گیا تھا۔ یہ وہ ادارہ تھا کہ جو جدید، منسلک، آن لائن اور ٹیکنالوجی کی سمجھ رکھنے والے پاکستان کی حقیقی صلاحیت کا نمائندہ تھا، مجھے بتایا گیا تھا۔ یہ وہ ادارہ تھا کہ جس کا میں۔۔ ایک متوسط آمدنی والے ٹوٹے ہوئے گھر کا ناچیز بچہ جو کہ اتنا خوش قسمت تھا کہ اسے چند اچھے سکولوں میں جانے کا موقع ملا اور جو اتنا مستقل مزاج تھا کہ قومی منظر نامے پر آنے والی نشریاتی صحافت کی لہر پر سوار ہوسکا۔۔ درحقیقت مالک بنوں گا، ناکہ صرف اس کے لئے کام کروں گا۔ میں امکانات سے دنگ رہ گیا تھا۔
لیکن تکبر کی اپنی لے ہوتی ہے۔ انکار بہرہ کردینے والی خاموشی رکھتا ہے۔ اور سراب خود تعمیر کردہ ہوتے ہیں۔ میں نے تینوں میں حصہ ڈالا، میرے بول میں تین ماہ کے دوران۔ اور ان میں سے بہترین کے ساتھ سنگت کی، اس بنا پر کہ وہ کہاں سے تھے، وہ کون ہیںاور اس سب کا کیا مطلب ہے۔
پہلے، انکار: ایک ایسی صنعت میں، جو کہ شفافیت در شفافیت کے کاروبار میں ہے، میں وہ واحد شخص نہیں ہوں کہ جس نے سالہاسال کی دوڑ کے دوران آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے۔ سادہ لفظوں میں، پاکستانی میڈیا میں بقاءکی قیمت انکار ہے، اور کچھ بھی نہیں۔
جب میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میری نشریاتی نسل کے کئی ساتھیوں کی طرح میرے لئے بھی خاصا مشکل رہا تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ پاکستان میں براڈکاسٹنگ کے 12 سال کے دوران بول میرا ساتواں چینل تھا: انڈس، جیو، ڈان (آخری دو کولانچ کرنے میں مَیں نے مدد فراہم کی)، سمائ، پی ٹی وی سپورٹس، آج اور ایک دفعہ پھر جیو (جہاں میں نے حامد میر کے بعد ’پابندی‘ موثر ہوتے دیکھی) مجھے لے گئے، مجھے کھا گئے، اور مجھے سڑکوں پر ایک ناراض، یتیم اور شریر بچے کے طور پر نکال دیا، ہر دفعہ مجھے ”پرائیویٹ \ الیکٹرونک میڈیا“ رجیم کے بارے میں ایک گہرے، نفرت بھرے شک کے ساتھ مضبوط کرتے ہوئے۔ بعض اوقات، مجھے نکال دیا گیا۔ دیگر اوقات، میں نے اصول کی بنیاد پر چھوڑ دیا یا مجھے کسی بڑے ادارے نے بھرتی کرلیا۔ لیکن ہردفعہ، وہی۔ پرانا۔ وہی۔ پرانا زہریلا کاک ٹیل تھا۔۔ دفتری سیاست، محدود ادارتی آزادی، تاخیر سے ملنے والے تنخواہ کے چیک، سپانسروں کی تسکین، کارپوریٹ، سیاسی اور سیکیورٹی باسز جو کہ اپنی موجودگی محسوس کرواتے تھے لیکن تکنیکی طور پر کنٹرول کرنے والے نہ تھے، ہمارے اندرونی نظام اور ڈھانچے میں ناکافی ری انویسٹمنٹ برائے بقائے رد کلچر اور عوامی خدمت کے جذبات کہ صحافت کو کیا ہونا چاہیے، نہ کہ ریٹنگز کے تحت، خاندانی ملکیت، سوٹ اور بوٹ سے مغلوب چاپ شاپ، نواب و ملٹری کا ماﺅتھ پیس، ملک بھر کے نیوزرومز میں آج یہی کچھ ہے۔
لیکن زیادتی کی شکار، محتاج بیوی کی طرح مَیں اپنے ایزا رساں کے پاس لوٹتا رہا۔ میں انکاری تھا۔ بعض اوقات، میں نے خود کو یقین دلایا کہ میرے پاس چوائس نہ تھی، اور چلتا گیا، دیگر اوقات میں نے کسی فیلوشپ، غیر ملکی چٹکلے، یا پرنٹ ورک کی صورت میں نکل جانے کی کوشش کی، لیکن یہ سب باتیں بوسیدہ ہوگئیں، تیزی کے ساتھ۔ تمام تر ضروری احترام کے ساتھ، جیسا کہ میڈیا انڈسٹری کا ”گھومنے والا دروازہ“ ایک خوفزدہ کردینے والی مشین ہے، آپ دنیا کے سامنے کھڑاہونا سیکھتے ہیں، سوائے اپنے آپ کے، اس محتاجی کی وجہ سے۔ یہ ایک اچھے، پیہم منشیات کے سودے جیسا تھا: کوئی جائے فرار نہ تھی، اور میں اس پراڈکٹ کے کانٹے میں پھنسا ہوا تھا۔ ہم سب اسی طرح کرتے ہیں۔ ہم سب کرتے ہیں۔
ذاتی طور پر، مَیں اور کہاں جاﺅں گا؟ پرنٹ؟ وہاں رہ چکا ہوں، کر چکا ہوں، اور ابھی بھی کرتا ہوں۔ یہ جامد ہے، اگر زوال پذیر نہیں تو۔ علاقائی؟ بین الاقوامی؟ وہ بھی کرچکا ہوں۔ وہ محدود ہیں: سی این این اور این بی سی کام کے ہیں، لیکن مقامی طور پر متاثر کن نہیں ہیں۔ ٹویٹر؟ ایک بلاگ ہے۔ کسی صورت بھی نہیں۔
یہ پاکستان ہے، ego نے id سے کہا۔ یہ TV کی سرزمین ہے۔ اور ہم TV کی سرزمین میں رہتے ہیں، لیکن ایک سادہ اصول کے مطابق: کہانی۔۔ سوائے آپ کی اپنی کہانی کے۔۔ نکلنی چاہیے، کسی بھی قیمت پر۔ یہی حلف تھا جو کہ ہماری نفسیات پر ثبت کیا گیا۔ یہ جدید پاکستانی براڈکاسٹر کا شش و پنج تھا: دوسروں کے بارے میں بتاﺅ، اپنے بارے میں مت بتاﺅ۔
اس طرح، ”یہ میری نوکری ہے، یہ میری صنعت ہے، ہم یہی کرتے ہیں“ کی جبلت نے حکمرانی کی، اگرچہ صرف سطح پر۔ سو میں نے برے طریقے سے سیکھا۔۔ اور کبھی بھی سرعام بات نہ کی، آج تک، اگرچہ یہ کوئی راز نہیں۔۔ کہ پاکستان میں، آپ میڈیا کی خامیوں کو ایک خاندانی بیماری کے طور پر لیتے ہیں: ایک موجود حقیقت کے طور پر، ناگواری کے ساتھ، کبھی بھی ذاتی طور پر نہیں، بلکہ صرف مقدر کے طور پر، اور کبھی بھی غیروں کو نہ بتانے کے لئے۔ آخرِ کار، ہم ایک خاندان ہیں: کینا پرور اور بھائی بندی کے شوقین، لیکن ہم ایک ہیں۔ ہمارے بارے میں بولو اور دھتکارے جاﺅ، دوسرا اصول کہتا تھا۔ اور یوں عقبی کمرے کی گپ شپ عقبی کمرے میں ہی رہی، حتیٰ کہ جب ہمارے مالکان اور کمپنیاں اور ایڈیٹر گھومنے والے دروازے کے اردگرد بدلتے رہے۔ اس مالک سے کہ جو ٹوتھ پیسٹ بناتا تھا اور ایک کشتی پر جنسی فلمیں ریکارڈ کرتا تھا، عدلیہ سے قریبی گٹھ جوڑ رکھنے والے مالک تک، عرب شیوخ کے لئے کتب کی صفائی کرنے والے مالک تک، اس مالک تک کہ جس نے اپنے اداریے پر یو ایس ایڈ اور ڈی ایف آئی ڈی پروگرامنگ کی مہر کی اجازت دی، ہم نے برداشت کیا۔۔ نہیں بلکہ گلے لگایا۔۔ وہ انتہائی اہم، نازک خلاف ورزی: کلیسا بمقابلہ ریاست \ انتظامیہ بمقابلہ اداراتی تقسیم کی موت۔
اور پھر بول آیا، سرخ اور سفید اور دمکتا ہوا اور سنہری۔ اس کی مجازی حقیقت میں بھی، جسے ہم نے تقریباً ایک جعلی ڈگری کی طرح خریدا کیونکہ ہم اتنے بے تاب تھے۔۔ ہیں۔۔ ہمیں ایک موقع نظر آیا۔
یہاں ایک موقع تھا کہ جو انڈسٹری کے بہترین اور قابل ترین لوگوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا: وہ لوگ کہ جنہیں میں ایک دہائی سے زائد سے جانتا تھا، وہ لوگ کہ جن کی مَیں نے تقلید کرنا چاہی تھی، نقالی کرنا چاہی تھی، ان جیسا سنائی دینا چاہا تھا؛ میرے خود پر مسلط کردہ رول ماڈل، نیوز روم کے دیوتا، میدان کے رہنما کہ جن کی میری نسل نے اندھا دھند تقلید کی ہے ایمرجنسیوں اور پکڑ اور آواز بندی کے احکامات اور آنسو گیس کے حملوں اور پیمرا کی جنگوں میں اور جن کے لئے جی ایچ کیو اور پی ایم سیکرٹریٹ سے رات گئے کی کالز لیں۔ وہ لوگ جو ایسا اعتماد ابھارتے ہیں کہ جب آپ کو آبپارہ میں بلایا جاتا ہے، تو آپ پہنچتے ہیں، محض نظر نہیں آتے، کیونکہ آپ یقین رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو آپ کو تعلیم دیتے ہیں، اور آپ کے ذریعے ملک کو یاد دہانی کراتے ہیں، کے سچ غالب آتا ہے، اور یہ کہ پاکستان میں ابھی بھی اس کی کچھ اہمیت ہے۔
اس کے باوجود ان لوگوں نے خود کو مایوس کیا۔ انہوں نے مجھے مایوس کیا۔ انہوں نے میرے دوہزار ساتھیوں کو مایوس کیا۔ اور انہوں نے ملک کو بھی مایوس کیا۔ بہت ایمانداری سے، ممکن ہے کہ میں نے ان کی مدد کی ہو، اور اس وجہ سے نہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔
عزائم بھی تھے۔ پیش کیا جانے والا کیس ایساہی مضبوط تھا جیسے کہ اس کے مشہور پیشکار، پاکستانی براڈ کاسٹ کے علمبردار: کہ ہم مشین توڑ دیں گے۔ کہ ہم دھونسو باپ بیٹے کے جوڑ، مفاد پرست سرپرستوں اور شاہی سیکیورٹی رجیم سے ہدایات یا رات گئے کی کالز نہیں لیں گے، بلکہ ہماری اپنی قسم کے لوگوں سے: ایڈیٹرز اور رپورٹروں سے، پروڈیوسروں اور کیمرہ پرسن سے، رہنماﺅں اور بہترین لوگوں سے۔
بلا شبہ، ایک وعدہ بھی تھا۔ کہ ہمیں وقت پر ادائیگی کی جائے گی، تبدیلی کے طور پر۔ کہ ہم عوام کے سامنے ہوں گے، اور مشترکہ ملکیت ہوگی، اور لائف انشورنس، اور میڈیکل کوریج، اور مشکل وقت کے لئے فنڈ، اور ایک کافی مشین جو کہ چلتی بھی ہو۔ کہ ہمیں اپنے بے باک اور پرائیویٹ جہازوں میں گھومنے والے سیٹھوں سے اس چیک کے لئے بھیک نہیں مانگنی پڑے گی کہ جو تین ماہ قبل واجب تھا، کیونکہ اب ہم مالک ہیں۔ ہم مالک ہیں، خالق ہیں، اس صنعت کے حقیقی آقا ہیں کہ جو ہمارے رسک پر چلتی ہے، لیکن کبھی ہمیں نوازتی نہیں۔
یہ ایک بڑا خیال تھا۔ یہ یقین کرنا اچھا لگتا تھا کہ بول والی نسل ہی وہ ہوگی کہ جو خون آلود، بل کھاتے، اپنی نسل کو کھانے والے پاکستانی میڈیا کو علاج کے لئے جدید اور ضروری ترتیب میں کھڑا کرے گی۔ لیکن ہمارے خود صالح عزم، ہمارے عظیم تر مقصد، نے ہمیں خود برباد بنادیا۔ ہم نے ان چاہا حصہ کاٹ پھینکنے کے لئے خود پر ہی جراحی کرنا چاہی۔ لیکن ہم ایک تھے۔ اور ہم ایک ہی ہیں، خامیاں اور سب کچھ۔
اس کے باوجود ہمارا خیال تھا کہ ہم مختلف تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم مختلف ہیں، سانپ کا تیل بیچنے والوں کی طرف سے، ہم نے ان کی فوری کامیابی کی نقل کی بے تابی سے کوشش کی، کیونکہ ہم پرعزم تھے، اور بھوکے، اور ہاں، ہمارے اپنوں میں سے صالح ترین سے متاثر تھے۔
یہ ایک مجبور کردینے والی فروخت تھی، جو کہ بولے اور لکھے گئے لفظ کے وقت کے آزمائے ہوئے جنگجوﺅں نے کی تھی جن پر کہ مَیں نے، اپنی حد تک، یقین کرنے کی قسم کھائی تھی (اور نہیں، یہاں میری مراد فوج نہیں ہے، اگرچہ میری کبھی بھی صریحاً حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی نہیں کی گئی تھی، کسی بھی مارشل کواٹر کی طرف سے، جن کی میں رپورٹنگ کرنا چاہتا ہوں، اس ضمن میں)۔ مجھے یہ مشن ان لوگوں کی طرف سے بیچا گیا تھا کہ جنہیں انڈسٹری، نہیں، ملک دہائیوں تک بیچا گیا تھا۔ اور ہاں، رقم بھی بری نہیں تھی، اگرچہ ریکارڈ کی خاطر، بول گہرے طورپر، شاید بے محل طور پر بھی، اوپر سے بھاری تھا \ ہے۔ میری کتب اپنی گواہی دیتی ہیں۔
یوں، میری حماقتیں: میری واجب جانفشانی میرے رہنماﺅں کے چمکدار وعدوں کے سائے تلے آگئی، جو کہ کاروبار کے بہترین لوگ تھے، جو کہ شاید اپنے عزائم اور گریٹ گیم کو بدلنے کی اپنی ہی نیک نیتی کے ہاتھوں اندھے ہوگئے تھے۔ اور اگرچہ میری وفاداری کی قیمت میرے نیٹ ورک کے آقا کے ریٹائرمنٹ پلان یا ان کی آرمرڈ گاڑیاں نہیں تھیں، میرے بول کے ساتھی اورمیں ارادتاً چلتے رہے، حتیٰ کہ خاندان اور دوستوں کے طعنوں کے درمیان بھی۔۔ کہ ہم انڈرورلڈ مالکان، ملٹری بھوتوں، پراپرٹی ٹائیکونوں کے مبینہ ”فرنٹ“ ، یا ”پراجیکٹ“ تھے۔۔ کیونکہ ہم اس تراشیدہ اور چمکدار اور مالدار اور حد سے زیادہ مقبول کامیابی پر یقین کرنا چاہتے تھے، یہ ممکن ہے، حتیٰ کہ صحافیوں کے لئے بھی۔
سپاہی مجھے بتاتے ہیں کہ گولی مارے جانے کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ لڑائی میں بھی، جب آپ اس کی امید کررہے ہوتے ہیں، اس میں ایک چبھن ہوتی ہے، پھر ایک جلن، پھر ایک کمزوری، پھر زبان اور حواس کا سست پڑ جانا، پھر ایک عمومی رفع فریب نظر، اور پھر تاریکی۔ یہی کچھ ہوا ہے کہ جب سے میں نے ایک ہفتہ قبل والش کی تحریر پڑھی۔
ہفتے کے دوران جب میں نے اسے بار بار پڑھا، اس کی وحشی منطق اور اس کی ٹھوس صناعی کے لئے، ساتھ اس غلاظت و فصاحت کے کہ جسے اس نے سوشل اور قومی میڈیا پر جنم دیا، میں نے حد سے بالا منظم ایگزیکٹ اور پھر بول کی ترتیب کو ٹکڑے ہوتے پایا۔ میں نے اپنے دیوتاﺅں کی لے میں جھجھک پائی؛ میں نے ان کی خود یقینی کو مرجھاتا محسوس کیا جب ان کی خشخشی داڑھی بڑھتی گئی، ان کی کامل خطابت مبنی بَروَہم خطبوں میں زوال پذیر سنائی دی۔ میں نے اپنے کبھی کے جارح رپورٹروں کو آنکھیں چراتے محسوس کیا، ان کی پیٹھ خمیدہ تھی۔ میں نے فائیو سٹار کیفیٹیریا کے کھانے کے ذائقے کو پھیکا محسوس کیا، اور اپنے فیول کارڈ کو ناکارہ ہوتے دیکھا۔ یہاں تک کہ جاروب کش بھی لاپتہ محسوس ہوئے۔ جب ڈھانچہ چرمرا گیا اور بات چیت کلبی تر ہوگئی، میں نے محسوس کیا کہ مشین۔۔ جو کہ سب مشینوں کو توڑنے جارہی تھی۔۔ خود ہی ٹوٹ گئی۔ ابلاغ، ادغام، بھائی چارہ۔۔ رمزیہ الفاظ جو کہ ہماری بنیادی ترجیحات تھے۔۔ ہر شخص صرف اپنے لئے کے غدر میں بدل گئے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس پر یقین نہیں کرسکتا، لیکن ٹویٹر پر استعفیٰ دینا، جو کہ غالباً قانونی نہیں ہے، ایک ضرورت بن گیا تھا، جیسا کہ ہمارا بنیادی کام۔۔ عوامی خدمت گار ہونا۔۔ ہمارے خود پر، حتیٰ کہ ایک دوسرے پر، عدم یقین کی وجہ سے معطل ہوگیا تھا۔
آخر میں، ہمارے ناقدین ہمارے حقیقی یا تصوراتی شراکت دار یا مہربان نہ تھے، نہ ہی عامیانہ ساتھی یا حاسد ناقدین، بلکہ ہمارے اپنے باسز اور خالق اور، ہاں، بے شک، حتیٰ کے ہم خود، ہم بھولے تھے، بے شک، لیکن متحرک اور کم حس بھی تھے، ایک سخت، بے چشم دفاعی بیٹھک میں، سب ہڑپ کرجانے والے، ناشکرے گھومنے والے دروازے کے خوف میں جو کہ پاکستانی براڈ کاسٹ میڈیا ہے۔
اور یوں، جنگوں میں کٹھور بنائے گئے سورما لیکن پھر بھی پیادے، خود ساختہ جھوٹے پیغمبر اس تمام کے کہ جو غلط اور غیر منصفانہ ہے اس برباد سرزمین میں، ہم پھر سے سڑک پر ہیں۔ پھر بھی، ہم اسی دروازے سے واپس چلے جائیں گے، کیونکہ ہم اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس دفع یہ ہماری خاموشی نہیں بلکہ ہماری پشیمانی ہے، جو ہمیں اندر واپس لے جائے گی۔
(وجاہت ایس خان بول ٹی وی کے سابق ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹتھے   جنہوں نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ NBC News کے نامہ نگار برائے پاکستان کے طور پر کام کررہے ہیں۔)

مزید :

ڈیلی بائیٹس -