سعودی وفد کی آمد اور کرنے کی باتیں
پا کستان اور سعودی عرب کے تعلقات نہایت دوستانہ اور بہت گہرے ہیں۔ سعودی سربراہان اور ذمہ دار شخصیات نے ہمیشہ پاکستان سے قلبی تعلق کا اظہار کیا اور پاکستان کو اپنا دوسرا وطن اور گھر قرار دیا۔ نہ صرف اپنے تعلق خاطر کو بیان کیا بلکہ ہرمشکل گھڑی میں عملی طور پر ثابت بھی کر دکھایا۔۔۔ سعودیوں کی طرح اہل پاکستان کی طرف سے بھی ہمیشہ سعودی عرب والوں سے عقیدت اور محبت ہی کا مظاہرہ کیا گیا اور کیوں نہ ہوتا کہ وہ مرکز عقیدت و ایمان حرمین سے تعلق خاص بھی رکھتے ہیں اور ہمارے ملک و قوم کے محسن بھی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات جس خوبی سے نبھائے جاتے رہے ہیں، اس کی ایک درخشندہ تاریخ ہے، دونوں طرف کے ذمہ داران کے ’’منصبی تعلقات‘‘ کی گہرائی اور گیرائی کا تقاضا بھی تھا اور ’’ایمان محبت و عقیدت‘‘ کی ضرورت بھی کہ ’’وفود‘‘ کی آمدورفت لگی رہے۔۔۔ پاکستان کے رہنے والوں کی تو دلی تمنا ہوتی ہے کہ خواہ کسی بہانے دیار حرم میں اذن باریابی ہو جائے چنانچہ گاہے بگاہے جانا لگا رہتا ہے مگر سعودی عہدیداران بھی گاہے گاہے تشریف لاتے رہتے ہیں۔
اگرچہ آمدورفت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے خصوصاً جب سے یمن کا تنازعہ شروع ہوا ہے سعودی وفود (اعلیٰ سطحی بھی اور وسطی سطحی بھی) ایک کثرت سے ورود فرمانے لگے ہیں کہ تسلسل و کثرت کے گویا ریکارڈ بننے لگے ہیں۔۔۔ ہم ان وفود کی آمد کے مقاصد و مطالب پر تفصیلی گفتگو نہ بھی کریں تو بھی عوام (ذرائع ابلاغ کے ذریعے پہلے ہی سے ان کے بارے میں) آگاہ ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی عرب (و دیگر عرب ممالک) کا پاکستان سے جو (محسنانہ) تعلق رہا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اور ان کو نبھانے میں ہم کتنے کامیاب رہے ہیں اور کتنے ناکام؟۔۔۔ یا عرب ممالک ’’اپنے احسانات‘‘ کے بدلے میں ہم سے کیا کچھ چاہتے ہیں اور ہم کیا کچھ دے سکتے ہیں؟
ان دنوں ایک اور اعلیٰ سطحی سعودی وفد جناب ڈاکٹر سلیمان بن عبداللہ ابا الخیل کی قیادت میں پاکستان میں ہے اور یہاں کے مذہبی حلقوں کو اپنی زیارت و نوازشات سے بہرہ ور کر رہا ہے۔ جناب ابا الخیل مذہبی امور کی ذمہ دار وزارت پر بھی فائز رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سعودی جامعات (یونیورسٹیوں) کے ہیڈ اور ریاض یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔ سعودی حکومت میں ان کو خوب عمل دخل ہے۔ وہ گزشتہ کئی روز سے پاکستان میں ہیں اور مختلف شہروں میں جاجاکر مؤثر مذہبی حلقوں سے ملاقات اور خطابات فرما رہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ لاہور میں بھی تشریف لائے، مختلف تقریبات سے خطاب کیا اور عوام میں گھل مل بھی گئے۔ گزشتہ رات 106 راوی روڈ میں علماء سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ’’پاکستان اور اہل پاکستان‘‘ کے بارے میں انہی دلی جذبات و احساسات کا اظہار فرمایا جو ان سے پہلے آنے والے وفود کے سربراہان اور سعودی عرب کے حکمران فرماتے رہتے ہیں۔ ’’وہی جذبہ وہی خلوص، وہی محبت، وہی الفت‘‘ جو ہمیشہ سے، سعودی ذمہ داران کے بیانات سے مترشح ہوتی رہی ہے، ان کے بیان میں سے بھی چھلک رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا ’’سعودی عرب اور پاکستان دوستی کے لازوال رشتوں میں بندھے ہیں۔ پاکستان کا استحکام عالم اسلام کا استحکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے حکمران اور عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان ہمارا دوسرا وطن ہے ہم یہاں آئیں تو اپنے گھر جیسا سکون محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت جس خلوص اور تن دہی سے دہشت گردی کے خلاف مصروف جہاد ہے وہ قابل تحسین ہے اور دنیا کو امن سے ہم کنار کرنے کی طرف ایک مثالی قدم بھی ہے۔ سعودی عرب، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر دنیا کو امن سے آشنا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اس میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کیلئے تحمل و اعتدال کا دامن تھام کر اپنی علمی و تعلیمی صلاحیت کو بہتر سے بہتر کرنا ہوگا اور امت مسلمہ کی یکجہتی سے دنیا کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے‘‘۔
جناب اباالخیل نے جو کہا، بجا کہا۔۔۔ اچھے جذبات و احساسات کا اظہار اور ہر پاکستانی کے دل کی بات ہے۔۔۔ میں ان کا خطاب بھی سن رہا تھا اور سعودیوں کے پاکستان سے تعلقات کی نوعیت کو پرکھتے ہوئے سوچ بھی رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں سعودی وفود کی آمد اور ذمہ داران کے دوروں کو تحسین کی نظر سے دیکھنے کی بجائے کسی اور ہی نظر سے پرکھا جاتا ہے؟ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر کھل کر دونوں ممالک کے تعلقات پر اس انداز سے تبصرے ہوتے ہیں کہ ’’ہم فخر کرنے کی بجائے جھینپ جائیں‘‘۔۔۔ احسانات و نوازشات کی بہتات اور تسلسل کو فراموش کرکے ایسے ایسے تجزیئے اور مطالبات کی کثرت کانوں میں زہر گھولتی ہے کہ جیسے سعودی عرب سے دستانہ اور قریبی تعلق نہ ہو، غلامی کی زنجیر ہو جو گلے کا بوجھ بن چکی ہو۔
سعودی ذمہ داران سے کرنے کی چند ضروری باتیں بھی ہیں جو ماحول کو خوب سے خوب تر بناسکتی ہیں۔ وہ جہاں پاکستانی حکومت اور اداروں سے محبت کا تعلق نبھا رہے ہیں وہاں بعض مذہبی و عوامی حلقوں کو بھی نوازتے ہیں مگر یہ نوازشات اکثر چند افراد تک محدود رہتی ہیں۔ وہ افراد محض ذاتی مفادات، پراپرٹی خریدنے‘ بڑی گاڑیوں کے مزے اڑانے یا دیگر تعیشات میں پڑے رہنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ (ایسے افراد کی رنگین کہانیاں الگ سے ایک المیہ ہیں جن کو قلم لکھنے اور زبان کہنے سے کترائے)۔ سعودی سفارتی حلقے، پاکستانی عوام اور صحافتی حلقوں سے ’’حجاب‘‘ کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی ’’ایمانی سیاحت‘‘ حج و عمرہ کے ذریعے سعودی عرب سے تعلقات کی بہتری کا جو موقع ملتا ہے اس میں بھی مخصوص ٹریول ایجنسیاں اور مخصوص افراد مزید تلخی پیدا کردیتے ہیں۔ رہی سہی کسر سعودی ایئرپورٹ پر موجود عملے کی بدسلوکیاں پورا کردیتی ہیں۔ احرام کی حالت میں پاکستانیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا، واپس آکر حجاج جو کہانیاں سناتے ہیں وہ اچھی نہیں لگتیں۔۔۔ سعودی ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ خوشامدیوں (جنہیں ہمارے ہاں ’’ریالی‘‘ یا ’’رومالی‘‘ کہا جاتا ہے) کی باتوں سے ہٹ کر عام افراد تک بالخصوص باخبر حلقوں تک رسائی حاصل کریں تاکہ حقائق سے آگاہی ملتی رہے یا پھر کم از کم سفارتی دفاتر میں ایسے ’’شکایات سیل‘‘ اور ’’آگاہی رابطے‘‘ ہوں کہ جہاں کھل کر اطلاعات پہنچائی جاسکیں۔