دُنیا کے دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟ ( 2)

دُنیا کے دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟ ( 2)
دُنیا کے دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟ ( 2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں جس بات نے اتفاق رائے کی کھوج پر مائل کیا، وہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ میں ٹرانس باؤنڈری واٹر مینجمنٹ کی ڈائریکٹرMs.Sjomander Magnusson کی تحقیق ہے،جس میں انہوں نے مختلف ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان تمام آبی تنازعات کا احاطہ کیا ہے۔ اپنی تحقیق میں وہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پانی کے معاملات پر جنگیں ہونے کے جس خطرے کا گذشتہ چند عشروں کے دوران پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ، وہ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔جن علاقوںیا ممالک کے درمیان آبی تنازعات موجود تھے انہوں نے پانی کی تقسیم کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں ۔ اپنی تحقیق میں انہوں نے پانی پر جنگوں کے نظریہ میں تبدیلی کی جو بنیادی وجہ بتائی ہے وہ لوگوں میں پیدا ہونے والا یہ ادراک ہے کہ پانی انسانی زندگی کیلئے لازم ہے اور اسے بانٹ کر استعمال کرنا چاہیء۔انسانی تہذیب کے ارتقاء سے ہم مارک ٹوئین کے زمانے کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں ،جب انہوں نے امریکہ میں پانی کے جھگڑوں سے مایوس ہو کر طنز بھرے لہجے میں لکھا تھا کہ ’’وہسکی پینے کیلئے ہے اور پانی لڑائی کیلئے‘‘۔
اقوام اور علاقوں کے درمیان پانی پر تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ تاہم دریاؤں پر قابو پاکر آبی ذخائر تعمیر کرنے کی صلاحیت حاصل ہونے کے ساتھ ان تنازعات نے شدت اختیار کرلی۔آبی ذخائر ڈیموں کی تعمیر پر زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگ ہمیشہ بالائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ۔کیونکہ اِس طرح زیریں علاقوں کیلئے دریاؤں کے پانی کا بہاؤ متاثر ہوسکتا تھا۔ ان تنازعات کے نتیجے میں اصول اور قوانین وضع کئے گئے تاکہ زیریں علاقوں میں آباد لوگوں کے پانی استعمال کرنے سے متعلق تاریخی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
پہلے پہل پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اقوام اور علاقوں کے درمیان مشترک دریاؤں اور آبی وسائل پر جنگ ہو گی۔ تاہم تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ جنگوں میں الجھنے کی بجائے بیشتر صورتوں میں کئی ممالک باہمی تعاون اور پائیدار معاہدوں کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان میں سمجھا جاتا ہے کہ پانی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، مگر اِس سلسلے میں بین الاقوامی تنازعات کے کامیاب حل سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے، کہ ہم بھی اپنے آبی تنازعات بشمول کالاباغ ڈیم جیسے غیر معمولی مسئلے کو حل کرنے کیلئے اتفاقِ رائے کے امکان کو تلاش کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے مسائل پر اتفاق میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر واٹر مینجمنٹ اور تنازعات کے حل کے بارے پوری طرح واقف نہیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیئ کہ یہ مسائل صرف پاکستان میں ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے ممالک نے بھی اِن مسائل کا سامنا کیا ہے اور اکثر صورتوں میں وہ ان کا حل تلاش کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ پانی کے بارے میں دنیا بھر کے بین الاقوامی اور قومی تنازعات کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے نہ صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے جن کی وجہ سے ہم باہمی تعاون کے کسی متفقہ معاہدے تک نہیں پہنچ پاتے۔
محترم قارئین! اِس ضمن میں ایک واقعہ مثال کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا، جس کی بدولت ہمارے ملک میں پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کا حصول بری طرح متاثر ہوا۔ پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کیلئے جنرل پرویزمشرف نے نومبر 2003 ء میں ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی اور ایک قابلِ احترام انجینئرجناب اے این جی عباسی کو اس کا چیئرمین تعینات کیا۔ عباسی صاحب زرعی معیشت کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر کی ضرورت سے بخوبی آگاہ تھے،تاہم انہیں اس بات کا موقع نہ مل سکا کہ وہ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا مطالعہ کرسکیں۔اِن کی رپورٹ میں اِس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وُہ دنیا کے چندبڑے دریاؤں میں پانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے لیکن کمیٹی میں شامل دیگر ارکان نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ٹیکنیکل کمیٹی اِس بات کیلئے تیار ہوجاتی تو ان کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ یکسر مختلف ہوتی۔ بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے بھی دوراندیشی پر مبنی کردار ادا نہیں کیا اور کمیٹی کے ارکان کیلئے اس اہم بین الاقوامی مطالعہ کا موقع ضائع کر دیا گیا، ورنہ اس مطالعہ کی بدولت پانی کے مسائل پرصوبوں کے درمیان کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی تھی۔
گذشتہ سال مجھے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عُقیلی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ انجینئرنگ کے شعبہ میں ایک نامور استاد ہیں اورامریکی دریا کولاراڈو کے علاقے کا دورہ کرچکے ہیں۔ اُنہیں اِس بات پر بہت حیرت تھی کہ دریائے کولاراڈوکے مقابلے میں دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ دریائے کولاراڈوپر سالانہ اوسط بہاؤ کے مقابلے میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 497 فیصد جبکہ دریائے سندھ پردس فیصد سے بھی کم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیںآبی وسائل سے متعلق اپنے مستقبل کے انتظام کے بارے میں جانناہے تو عالمی تجربات کی غیرجانبدارانہ تحقیق اِس کام کا نکتۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔
دُنیا میں 263 دریا اور جھیلیں جبکہ تقریباً 300 آبی ذخائر ایسے ہیں جو بیک وقت ایک سے زائد ممالک کی حدود میں واقع ہیں۔ دُنیا کے مجموعی تازہ پانی کا 60 فی صد ان دریاؤں اور جھیلوں میں بہتا ہے ۔ جبکہ دُنیا کی 40 فی صد آبادی اِن دریاؤں اور جھیلوں کے پانی سے استفادہ کرنے والے علاقوں میں مقیم ہے۔ دنیا کے کم و بیش 148 ممالک ان بین الاقوامی دریاؤں اور جھیلوں میں شراکت دار ہیں، جبکہ 21 ممالک کلی طور پر ان دریاؤں اور جھیلوں کی حدود میں واقع ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تاحال بین الاقوامی دریاؤں کے 60فیصد میں کوئی مشترکہ انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود پانی کے مشترکہ وسائل پر گذشتہ صدی کے دوران مختلف اقوام کے درمیان محض سات معمولی جھڑپیں ہوئیں ۔ جبکہ اسی عرصہ میں پانی کے معاملات کو طے کرنے کیلئے 300 معاہدے طے پائے۔

درجِ ذیل معاہدوں کی بدولت نہ صرف دو یا دو سے زائد فریقین کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد ملی بلکہ مشترکہ آبی گزرگاہوں سے متعلق جدید بین الاقوامی قانون بھی وضع کئے گئے:
-1میڈرڈ اعلامیہ 1911 ء کے تحت دریا کے قرب و جوار میں واقع ممالک کو یہ اجازت حاصل ہوئی کہ وہ اپنے پانی کو آزادانہ طور پر مصرف میں لا سکتے ہیں بشرطیکہ اُن کا یہ عمل کسی دوسرے شراکتی ملک کیلئے نقصان دِہ نہ ہو۔
-2ایک سے زائد ممالک کے مابین ہائیڈرالک پاور کو ترقی دینے کیلئے 1923 ء کا جنرل کنونشن
-3سوئیڈن اور ناروے کے درمیان 1929 ء میں طے پانے والا کنونشن
-4امریکہ اور کینیڈا کے مابین 1909 ء میں باؤنڈری واٹر معاہدہ
-5کولاراڈو اور لوئر گرینڈے معاہدہ، امریکہ اور میکسیکو کے درمیان اس معاہدے پر 1944 ء میں دستخط ہوئے۔
-6امریکہ اور کینیڈا کے مابین دریائے کولمبیا کے بارے میں 1961ء کا معاہدہ
-7دریائے نیل کا معاہدہ : برطانوی راج کے دوران 1929ء میںیہ معاہدہ مصر اور سوڈان کے درمیان طے پایا۔ لیکن 1956ء میں سوڈان نے آزادی کے حصول پر اسے منسوخ کر دیا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان 1959 ء میں یہی معاہدہ ازسرِنو طے پایا۔
-8ماحولیاتی تحفظ کیلئے زیمبیزی دریا کے مشترکہ انتظام کی خاطرجنوبی افریقہ ڈویلپمنٹ ایگریمنٹ 1987 ء
-9ایمزون تعاون معاہدہ، جس پر 1978 ء میں دستخط کئے گئے۔
-10دریائے پارانا ، گواہرا آبشار اور وائے گازو دریا کے استعمال کیلئے 1973 ء میں پیراگوئے اور برازیل کے درمیان طے پانے والا معاہدہ
-11اسرائیل، اُردن اور تنظیم آزاد�ئ فلسطین کے درمیان 1994 ء کا امن معاہدہ
-12دریائے میکونگ کی پائیدار ترقی کیلئے تعاون کا اعلامیہ، جس پر 1995 ء میں تھائی لینڈ ، لاؤس ، کمبوڈیا اور ویت نام نے دستخط کئے اور جس کی بدولت میکونگ ریور کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مذکورہ بالا تفصیل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں تنازعات سے خائف نہیں ہونا چاہیئ بلکہ ان کے حل کیلئے راہ تلاش کرنی چاہیء۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے ایسے شعبوں کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں مختلف ممالک پانی کے وسائل سے استفادہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ یہ مثالیں ہمارے لئے اس بات کی تکلیف دِہ یاد دہانی ہیں کہ ہم اپنے خود ساختہ شکوے شکایات سے دست بردار ہونے کیلئے سیاسی صف بندی کو خیرباد کہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں صورتِ حال واضح کرنے کیلئے چند مثالوں کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ مضامین کے زیرِ نظر سلسلے کی آئندہ چند اقساط میں ایسی مثالیں پیش کی جائیں گی، جو پانی کے تنازعات حل کرنے کیلئے ہماری سوچ اور ذہنوں میں وسعت پیدا کرسکیں اور کسی ایسے طریقہ کار کی نشاندہی ہوسکے جس کی مدد سے ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون کے جذبہ کے تحت ان مسائل کو حل کیا جاسکے۔

مزید :

کالم -