وزیراعظم علاج کے لئے جاتی عمرہ سے والدہ کی دُعائیں لے کر روانہ ہوئے
ہفتہ رفتہ ملی جلی سرگرمیوں کا تھا، اسی میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی لندن روانگی شامل تھی، وہ جاتی عمرہ سے والدہ کی دُعائیں لیتے ہوئے گئے کہ ڈاکٹروں کی تجویز کے مطابق بائی پاس آپریشن کے لئے تیار تھے۔ ان سطور کے قارئین تک پہنچتے پہنچتے یہ آپریشن ہو چکا اور اب تک خیریت کی اطلاع بھی آ گئی ہو گی۔ گزشتہ روز پاکستان کے وقت کے مطابق دوپہر12بجے ہونا تھا۔ اس کی کامیابی کے لئے ہر طرف سے دُعائیں کی گئیں، دو روز قبل وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف بھی دونوں صاحبزادوں اور اہل خانہ سمیت لندن پہنچ گئے تھے، وہاں سے وزیراعظم نے ویڈیو لنک سے قومی اقتصادی کونسل اور کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کی تو وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے بھی اپنی روایت برقرار رکھی اور لاہور میں شیڈول ان تمام اجلاسوں کی ویڈیو لنک ہی سے صدارت کی اور احکام جاری کئے، وزیراعلیٰ تو پہلے بھی ویڈیو لنک سے سرکاری فرائض کی انجام دہی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ بہرحال قوم آج اچھی خبر کی منتظر ہے۔
یہ وقت اور مہینہ بجٹ مہینہ ہے، وفاقی بجٹ منظور ہوا اور امکانی طور پر آج قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ پنجاب کا صوبائی بجٹ بھی تیاری کے آخری مرحلے میں ہے یہ9 جون کو پیش کو ہو گا کہ بجٹ سیشن شروع ہو گا، پنجاب کے بجٹ میں معمول کے مطابق کسی نئے ٹیکس کا امکان نہیں۔ تاہم پہلے موجود ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل یقینی ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ یہ بجٹ ترقیاتی بجٹ ہو گا اس میں عوامی مسائل کو ترجیح دی جائے گی۔
مُلک کے سیاسی منظر نامے میں کوئی تبدیلی نہیں، حسبِ معمول یہاں بھی پاناما لیکس کے حوالے سے بحث جاری ہے، جبکہ معاشرے کے مختلف طبقات اپنے مطالبات کے لئے سڑکوں پر ہیں۔ گزشتہ دِنوں پاکستان ہائیڈرو الیکٹریکل ورکرز یونین نے سیکرٹری جنرل خورشید احمد کی قیادت میں مظاہرہ کیا۔ ان محنت کشوں نے مزدوروں اور کارکنوں کی بہبود کے لئے بجٹ میں رعائتوں کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ20ہزار روپے مقرر کی جائے، پنشنروں کی شرح بھی سرکاری ملازمین کے مطابق ہو اور جہاں ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم30فیصد اضافہ کیا جائے وہاں پنشنروں کی پنشن بھی اِسی تناسب سے بڑھائی جائے، اس میں اولڈ ایج (بزرگ شہری) والی پنشن بھی اِسی شرح سے بڑھائی جائے۔
ادھر شہریوں نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ رمضان المبارک آ رہے ہیں اس سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی ہو گئی اور منافع خوروں نے بتدریج نرخ بڑھائے یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ دینی فریضہ کی انجام دہی بھی ایسے مشکل حالات میں ہوتی ہے اور تاجر بھائی کسی کا کچھ خیال نہیں کرتے۔ اس سال دالوں، سبزیوں، پھلوں اور اشیائے ضرورت کے نرخوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا جو35سے50فیصد تک شمار کیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے آٹے، چینی اور گھی کے لئے سبسڈی کا اہتمام ضرور کیا، لیکن اس سے عام آدمی کے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ دالیں، سبزیاں اور گوشت (مرغی+گائے+بکرا) بھی ضرورت ہے اور ان سب اشیاء کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئے اور ہر کوئی بلبلا رہا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے مجسٹریٹ مقرر ضرور کئے گئے، لیکن یہ نظام قیمتوں میں کمی کرانے سے قاصر ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں لوگ معاشی اور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے ٹھیک سے عبادت بھی نہیں کر پائیں گے، وزیر امورِ مملکت پانی و بجلی کی طرف سے ایک بار پھر یہ تسلی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سحر و افطار کے وقت لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی، لیکن یہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کہ ماضی میں بھی ایسے اعلانات اور تجربات ہوتے رہے جو ناکام ثابت ہوئے تھے۔
ہفتہ رفتہ ہی کے دوران28مئی کا وہ دن بھی آیا جسے یوم تکبیر سے موسوم کیا گیا ہے اس روز چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کئے گئے اور پاکستان ایک ایٹمی قوت بن کر ابھرا آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک دفاع کے لحاظ سے مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے، معمول کے مطابق یوم تکبیر پُرجوش طریقے سے منایا گیا اور قوم نے دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے عزم صمیم کا اعادہ کیا۔
ادھر یہاں مطالبات منوانے کے لئے مظاہروں کے سلسلے بھی جاری ہیں انجمن وحدت المسلمین کی طرف سے فقہ جعفریہ سے متعلق افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جو پریس کلب کے سامنے لگایا گیا ہے، وقتاً فوقتاً کارکن یہاں سے مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی تک بھی چلے جاتے ہیں۔
ادھر فیصل چوک میں دھرنا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ گزشتہ تین روز سے نرسوں کا دھرنا ہو رہا ہے۔ فیصل چوک میں نرسوں نے مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا ان کا مطالبہ سروس سٹرکچر اور ہیلتھ الاؤنس کا ہے۔ اس سلسلے میں سوموار کو انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ہوئے جو ناکام ثابت ہوئے، چنانچہ گزشتہ روز بھی یہ مظاہرہ اور دھرنا جاری رہا۔ فیصل چوک سے ٹریفک بند ہو جانے کے اثرات پورے شہر پر ہوتے ہیں کہ اس چوراہے سے شہر کے شمالی اور جنوبی حصے منسلک ہیں۔ یہاں ٹریفک بند ہو تو متوازی سڑکوں پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ میٹرو اورنج لائن ٹرین کی کھدائی کی وجہ سے متعدد سڑکیں یوں بھی متروک اور بند ہیں اِس لئے اس مظاہرے کی وجہ سے بھی شاہراہ قائداعظم اور نواحی سڑکوں پر ٹریفک بری طرح جام رہی۔
پنجاب حکومت کی متعلقہ انتظامیہ اس سلسلے میں ہمیشہ تاخیر سے کام لیتی ہے، حالانکہ بات ہر صورت مذاکرات تک پہنچتی ہے، بہتر عمل تو جلد از جلد بات چیت کر کے معاملے کو نمٹانا ہوتی ہے، لیکن تاخیر سے کام لیا جاتا ہے، نرسوں کے مظاہرے اور دھرنا سے بھی یہی صورت حال سامنے آئی کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھر سے کوئی رابط نہیں کیا گیا۔