سسٹر واپس آ جاؤ

سسٹر واپس آ جاؤ
 سسٹر واپس آ جاؤ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹروں کو کوئی شخص بھائی نہیں کہتا، لیکن نرسوں کو ہر کوئی سسٹر کہہ کر پکارتا ہے ۔کتنا مقدس اور قابل احترام رشتہ ہے جو نرسوں سے جوڑا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ بہنیں تو سب کی ہوتی ہیں، پھر ایک نرس کو سسٹر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ مرد و خواتین سبھی انہیں سسٹر کہتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ نرسنگ وہ عظیم اور مقدس پیشہ ہے جو نرسیں ہی پورا کر رہی ہیں، یعنی بیمار کی دیکھ بھال اور اس کی نگہداشت ۔ایسے مریض جن کو ان کے گھر والے بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے، اس مریض کی دیکھ بھال نرسیں کرتی ہیں ۔لیکن اچانک یہ کیا ہو گیا ہے، اتنے مقدس اور قابل احترام پیشہ سے وابستہ خواتین کیوں سیم و زر کی دیوانی ہو گئی ہیں کہ ان کے دلو ں میں انسانیت کے درد کے بجائے پیسے اور مالی مفادات کے مرض نے گھر کر لیا ہے ۔نرسیں سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو تڑپتا چھوڑ کر کیوں سڑکیں بلاک کر کے بیٹھی ہیں، کیا اب صرف مالی مفادات اور پیکج ہی سب کچھ ہے ۔ڈاکٹرہوں یا نرسیں، ان کے کام کا معاوضہ پیسہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔مریضوں سے نرسوں کی ہمدردی اور حسن سلوک تو انسانیت کی معراج پھر کیوں روایات بدل گئی ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔حکومت وقت نے جہاں ڈاکٹروں کی فلاح و بہبود ،ترقی اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں تو دوسری طرف نرسوں کا معاملہ بھی پس پشت نہیں ڈالا ۔ابھی گزشتہ سال ہی وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی منظوری سے حکومت نے گریڈ 17میں ہیڈ نرسوں کی 2ہزا ر نئی آسامیاں پیدا کیں۔پہلے گریڈ 17کی صرف1200آسامیاں تھیں۔اس طرح حکومت نے ہیڈ نرسوں کی آسامیوں میں سو فیصد سے زائد کا اضافہ کیا اور 20،20سال سے ترقی کی منتظر00 18 نرسوں کو گریڈ 17میں ترقی دی گئی ۔


پنجاب پبلک سروس کمیشن سے بھی 500نرسوں کی گریڈ17میں بھرتی کی گئی، اس کے علاوہ گریڈ 16کی چارج نرس کی بھی سینکڑوں آسامیاں پیدا کی گئیں۔حکومت سرکاری ہسپتالوں میں فرائض سر انجام دینے والی نرسوں کو مارکیٹ سے 2گنا زیادہ تنخواہ دے رہی ہے ۔گریڈ 16کی نرس کو تقریبا40ہزار روپے ماہانہ ملتا ہے، جبکہ نجی شعبے میں ایک نرس کی اوسط تنخواہ صرف 20ہزار روپے ہے ۔گریڈ 16کی نرس کو میس اور ڈریس الاؤنس کے نام پر 11ہزار روپے اور گریڈ 17کی ہیڈ نرس کو ساڑھے7ہزار روپے اضافی ملتے ہیں ۔ایسا کوئی الاؤنس گریڈ 16یا17کے کسی دوسرے سرکاری ملازم کو نہیں ملتا۔حکومت نے نرسوں کو ان کے دیگر مسائل حل کرنے کے لئے فراح دلانہ پیشکش کی ہے ۔گزشتہ کئی دنوں سے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق ،سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نجم احمد شاہ اور ان کی پوری ٹیم وائی این اے کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے اور کئی کئی گھنٹے مذاکرات کر کے نرسوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،حکومت نے پہلے بھی ان کے مسائل حل کئے ہیں، آئندہ بھی کرے گی،لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہڑتالی نرسوں کی قیادت بات سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ان کے خیال میں مسائل کا واحد حل ہسپتالوں میں ہڑتال اور مال روڈ بند کر کے دھرنا دینے میں ہے۔


نرسوں کی اکثریت فرض شناس اور اپنا کام نہایت ذمہ داری سے کرتی ہے، لیکن ہر ہسپتال میں چند عناصرایسے ہیں جو پوری کمیونٹی کوبدکام کرنے اور ہسپتالوں کا ماحول خراب کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔ہڑتالی نرسوں کا سرفہرست مطالبہ یہ ہے کہ انہیں ڈاکٹروں کی طرز پر 20ہزار روپے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس دیا جائے ۔پہلے ان کا مطالبہ تھا کہ ہیلتھ رسک الاؤنس دیا جائے ۔حکومت پیرا میڈیکس کو 1500روپے ماہانہ رسک الاؤنس دے رہی ہے ۔سیکرٹری ہیلتھ نے پیشکش کی کہ وہ نرسوں کو بھی 1500روپے رسک الاؤنس کے لئے حکومت سے رجوع کریں گے، لیکن نرسیں اس بات سے مکر گئیں اور انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ ڈاکٹروں کے برابر انہیں ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس دیا جائے ۔مذاکرات میں مشیر صحت اور سیکرٹری صحت نے ان پر یہ بات واضح کی کہ 20ہزار روپے ماہانہ الاؤنس دینا ممکن نہیں کیونکہ اس طرح دیگر تمام سرکاری ملازمین کا استحصال ہو گا، جنہیں یہ 20ہزار روپے نہیں ملتے، پھر اس کا سالانہ خرچ 5ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے اور دیگر شعبہ جات کے ملازمین بھی ہیں ،لہٰذا اتنا بڑا مالی بوجھ حکومت نہیں اٹھا سکتی۔نجم احمد شاہ نے نرسوں کو یہ پیشکش بھی کی کہ حکومت نرسوں کے لئے ہیلتھ انشورنس کی سکیم متعارف کرانے کے لئے تیار ہے تا کہ اگر کوئی نرس دوران ڈیوٹی کسی انفیکشن کا شکار ہو جائے تو اس کا علاج ہیلتھ انشورنس کے ذریعے ہوسکے لیکن نرسوں کی قیادت نے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی ۔نرسوں نے کہا کہ وہ ہوسٹل کے ایک کمرے میں تین تین لڑکیاں مل کر رہتی ہیں اور ان کا انفرادی طور پر ہاؤس رینٹ کٹتا ہے علاوہ ازیں کنونس الاؤنس بھی کٹتا ہے ۔


سیکرٹری نجم احمد شاہ نے آفر کی کہ وہ اس مسئلے کوبھی حکومت تک لے جانے کے لئے تیار ہیں کیونکہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے لیکن نرسوں نے ایک نہ سنی، وہ صرف ایک ہی مطالبے پر بضد تھیں کہ 20ہزار روپے ماہانہ ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کا ٹوٹیفکیشن ان کے ہاتھ میں دیا جائے ۔کیا مطالبات منوانے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ سڑکیں بلاک کی جائیں ،جس کا دل چاہے خواہشات کی ایک طویل فہرست کو مطالبات کا نام دے کر بزور بازور حکومت سے بات منوانے کے لئے نکل کھڑا ہو اور سڑکیں بند کر کے بیٹھ جائے ۔اس میں بے چارے عام شہریوں کا کیا قصور ہے ، ان کو یہ احتجاجی عناصر کس بات کی سزا دیتے ہیں ۔سڑکیں بلاک کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح عوام میں ان کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں گے،ہرگز ایسا نہیں، بلکہ رائے عامہ ان کے خلاف ہو رہی ہے ،آئے روز مال روڈ اور اس سے ملحقہ یہ تماشا لگا رہتا ہے ۔عوام سڑکوں پر گھنٹوں بند ٹریفک میں اذیت برداشت کرتے ہیں ،ایمبولنسیس چیختی رہتی ہیں اور مریضوں کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ وہ مریض جن کی جان بچانے کی قسم نرسوں نے کھائی تھی، آج وہی مریض نرسوں کی لا پرواہی اور غفلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ امیر اور دولت مند آدمی کا مسئلہ نہیں، اس کے لئے تو پرائیویٹ ہسپتالوں کے ٹھنڈے کمرے موجود ہیں، جہاں ڈاکٹر اور نرسیں اس کا پُرتپاک استقبال کرنے کے لئے چشم برا ہ ہے، مسئلہ تو ان غریب مرد و خواتین اور معصوم بچوں کا ہے جو سرکاری ہسپتالوں کے وارڈز میں پڑے ہیں اور عوام دہائی دے رہے ہیں: ’’سسٹر واپس آ جاؤ ہمیں تمہاری ضرورت ہے‘‘۔

مزید :

کالم -