علامہ بشیر رزمی کی شامِ پذیرائی!
ہم بھی عجب بُھلکڑ واقع ہوئے ہیں، ابھی تک لاہور کے سب سے بڑے یعنی ’’ اصلی تے وّڈے، علامہ‘‘ کو فراموش کئے ہوئے تھے۔ ہم نے اپنے مختلف کالموں میں لاہور کے مستند ’’علامہ‘‘ گِنواتے ہوئے علامہ گوہر نوشاہی، علامہ صدیق اظہر، علامہ اصغر علی کوثر وڑائچ، علامہ عبدالستار عاصم اور تازہ بہ تازہ علامہ سعید اظہر کے نام درج کئے، یعنی ’’درجِ گزٹ‘‘ کئے تھے، کالم ایک طرح کا گزٹ ہی ہے جس کا نام کالم میں آ گیا اور جس لاحقے کے ساتھ آ گیا، وہ اَمر ہو گیا یا رفت گزشت ہو گیا۔ کچھ نہ کچھ بہرحال ہو ضرور گیا۔۔۔!
اِن سب مقتدر متذکرہ علاماؤں میں ایک علامہ، حضرت علامہ بشیر رزمی نجانے کیسے ہم سے بچے ہوئے تھے گویا:
اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا
سو وہ اب نہیں بچ پا رہے، ہمیں پروفیسر ڈاکٹر اخلاق گیلانی کا محبت بھرا، اصرار بصد اصرار سے بھرپور فون ملا کر وہ اپنے استادِ گرامی قدر حضرت علامہ بشیر رزمی کے اعزاز میں ایک شامِ پذیرائی کی صدارت کے لئے مجھ سے ملتمس ہیں، پھر جناب ممتاز راشد لاہوری کے S.M.S پرS.M.S آتے گئے اور ہمیں اقرار کرتے ہی بن پڑی۔ مئی کا مہینہ اور وہ بھی ایسا غضب کا، بقول اسماعیل میرٹھی:
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اس گرماَ گرم موسم میں مئی کی چھبیسویں تاریخ کو ہم کشاں کشاں الحمراء ادبی بیٹھک میں جا پہنچے اور جاتے ہی ڈاکٹر اخلاق گیلانی صاحب کو اپنا یہ شعر داغ دیا:
پہنچ گئے سرِ منزل تِری تمّنا میں
اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں بہت
بہرحال آمدم برسرِ مطلب،۔علامہ بشیر رزمی متعدد شاگردوں اور متعدد کتب کے مصنف و مولف ہیں مطبوعہ کتب کی تفصیل کچھ یوں ہے:
O آئینہِ مہر1991ء O الغزل2000- ء Oکائناتِ غزل2009 -ء O آسمانِ غزل2011-ء Oکہکشانِ نعت2015ء
کہکشانِ نعت میں بشیر رزمی اپنے ایک مقطع کے ذریعے یُوں فخریہ اظہار کرتے ہیں:
رزمی قلم بدست خدا نے رکھا ہمیں،
بس اس لئے کہ نعتِ پیَمبر رقم کریں
ہم اس تقریبِ پذیرائی میں بَروقت پہنچنے والے صاحبِ صدارت تھے، میزبان ممتاز راشد لاہوری اور ڈاکٹر اخلاق گیلانی بھی ہماری پذیرائی کو پہلے سے موجود تھے مگر صاحبِ شام غائب تھے بالآخر وہ بھی اُفتاں و خیزاں اپنے پوتے کے سہارے پہنچ ہی گئے۔ اب علی الحساب مہمانانِ خصوصی بنا کر ہمارے دائیں بائیں بٹھانے کا مرحلہ شروع ہُوا چنانچہ شفیق سلیمی، حسنین بخاری اور خاص طور پر ڈاکٹر کنول فیروز اس لئے بھی مہمانِ اعزاز قرار پائے کہ وہ روزانہ، بلاناغہ ’’ادبی بیٹھک‘‘ کے یخ بستہ ہال میں سونے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے ہلکی سی صدائے احتجاج بھی بلند کی کہ ’’مَیں تو حسبِ معمول سونے آیا تھا مہمانِ خصوصی بنا دیا گیا‘‘۔ جب وہ اس اعزاز کے ساتھ میرے بائیں پہلو میں فروکش ہوئے اور خراّٹے لینے لگے تو مَیں نے ٹہوکا دے کر جگا دیا ’’جاگو، جاگو‘‘۔۔۔!
’’جاگو، جاگو‘‘ کے انتباہ میں ممتاز راشد لاہوری نے علامہ بشیر رزمی کے ایک شاگردِ خاص آفتاب خان کو دعوتِ اظہارِ خیال دے ڈالی تو اُنھوں نے اپنے ایک اعترافی شعر سے سب ہی کو جاگنے پر مجبور کر دیا۔ ایسا اعتراف کم ہی شاگرد اپنے اُستادوں کے لئے کرتے ہیں۔ تخلص کے ذو معنی استعمال کے ساتھ آفتاب خان کا شعر یہ تھا:
ذرّے سے آفتاب بنایا گیا مجھے
رزمی ضیائیں بانٹتے ہیں رہبری کے ساتھ
علامہ بشیر رزمی کے شاگردوں کی جو وافر تعداد اندرون و بیرون لاہور بتائی گئی، اُس کا عشرِ عشیر بھی اِس تقریب میں نظر نہ آیا، اگرچہ نظامت کار اور ’’ادارۂ خیال و فن‘‘ کے کرتا دھرتا ممتاز راشد لاہوری نے اپنی طرف سے مدعوئین کی تعداد کو لامحدود رکھنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اظہارِ خیال کرنے والوں کی تعداد سامعین کے لگ بھگ ہی رہی۔۔۔ اور ہاں یاد آیا ایک اَور مرحوم علامہ ذوقی مظفر نگری بھی تھے جن کی شاگردی کا دَم بھرنے والوں میں ممتاز راشد لاہوری پیش پیش ہیں۔ ذوقی صاحب کے ایک شاگرد رشید بشیر رحمانی تھے جن کے شاعر بیٹے محمد نوید مرزا نے ’’عصرِ حاضر کا اثاثہ‘‘ کے عنوان سے بشیر رزمی پر بھرپور مضمون پڑھا اور بتایا کہ وہ رباعیات اور غزل کے حوالے سے ایک مستند اُستاد شاعر ہیں جنھیں علم عروض پر بھی مکمل دسترس ہے۔ اسٹیج کی بیک پر جو کپڑے کا بینر لگا ہُوا تھا اُس پر بھی بشیر رزمی کو ماہرِ علمِ عروض ہی لکھا گیا تھا۔
علامہ بشیر رزمی کے ایک اور شاگرد ساحل ہاشمی (ایڈووکیٹ) نے بھی طویل مضمون پڑھا۔ ایک اور شاگرد اور شریکِ میزبان ڈاکٹر اخلاق گیلانی نے بھی مضمون نہیں مقالہ پڑھا ’’علامہ رزمی ایک ہمہ جہت شخصیت‘‘ اور بتایا کہ وہ 2004ء سے علامہ کی شاگردی میں رہ کر شاعری کے رموز سیکھ رہے ہیں۔علامہ کے پوتے ذیشان منیر نے اپنے مضمون میں کہا کہ جب مَیں 2007ء میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا تو دادا جان کی ٹانگ میں فریکچر ہو گیا اور مجھے اُن کی خدمت کا موقع ملا۔ دادا جان کا کمرہ کتابوں سے اَٹا ہوا ہے جہاں وہ ہر وقت پڑھتے لکھتے رہتے ہیں۔اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے محمد جمیل نے مختصر خطاب کیا۔ سید احمد حسن، حسنین بخاری، شفیق سلیمی، کنول فیروز، منصور فائز اور بھی کئی حاضرِ محفل شخصیتوں نے کچھ نہ کچھ کہنا فرض جانا۔ اقبال راہی اور فراست بخاری نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ مقررین کی اکثریت نے علامہ بشیر رزمی کو شخصی طور پر ’’شریف النفس‘‘ قرار دیا۔ اس پر ہم نے صدارتی کلمات میں گِرہ لگائی کہ اتنا بھی شریف الفنس نہ کہیں، ان کے ہاں میر کی سی تُنک مزاجی بھی ہے۔ میرا اُن کا تعارف 1964ء سے ہے، جب مَیں بیک وقت چار ماہانہ رسالوں ’’شمع، بانو، آئینہ اور بچوں کی دُنیا‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ ماہنامہ ’’آئینہ‘‘ ایک دینی رسالہ تھا جس میں مذہب ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے مضامینِ نظم و نثر شائع ہوتے، ہر ماہ 22شعراء کی 22نعتیں بھی چَھپا کرتیں مگر نعت میں خیال رکھا جاتا کہ حضور ختمی مرتبت سے براہِ راست تخاطب ’’تُو، تجھ، تجھے تیرا‘‘ وغیرہ قسم کے الفاظ سے نہ ہو۔ مولوی محمد امین شرقپوری ]مالک و مدیر اعلیٰ[ اس شرط کی پابندی لازمی کراتے، چنانچہ مَیں ایسی ہی نعتیں حاصل کر کے چھاپتا۔ علامہ بشیر رزمی اور سبطین شاہجہانی مجھے اس شرط کے مطابق اپنا اور احباب کا نعتیہ کلام مہیا کرتے، انہوں نے ہی اپنے اُستاد اور مُرشد صوفی حبیب اللہ حاوی کو اپنے ساتھ میرے دفتر لاکر مجھ سے مِلوایا تھا۔ وہ بڑے صاحبِ فن صوفی بزرگ اور عمدہ نعت گو شاعر تھے غالباً محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ یوں علامہ بشیر رزمی کا نعت گوئی سے تعلق بہت پرانا ہے اور اُنھوں نے ایسے ایسے اشعار وافر تعداد میں کہہ رکھے ہیں:
آپؐ کے گلستاں کے غنچہ و گُل
علیؓ و فاطمہؓ حسینؓ و حسنؓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثنوی ہو کہ غزل ہو کہ رباعی رزمی
نعت کہنے کو دیئے کتنے قرینے مجھ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رزمیِ خوش کلام کا سُن کے سخن یہ وَا ہُوا
ذکرِ ؐ حبیبِ حق سے ہے قلب و نظر کی آبرو
صاحبِ صدارت ہونے کے ناتے مَیں نے یہ حق استعمال کیا کہ صاحبِ شام صدرِ محفل کے بعد آخر میں اپنا کلام بھی سنائیں۔ علامہ بشیر رزمی کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ بہار کیا یہ خزاں ہے کیا مرے دِل کے دشت و چمن میں آ
کبھی پھول پھول پھبن میں آ کبھی خار خار چبھن میں آ
ترے ہات میں مرا ہات ہو تری بات میں مری بات ہو
نہ کبھی حیات میں مات ہو، مری عاشقی کے چلن میں آ
ترا پھول پھول ہے پیرہن، ترا رنگ رنگ ہے بانکپن
تجھے دیکھنے میں رہوں مگن مرے دیکھنے کی لگن میں آ
مری درد درد ہے زندگی مری کرب کرب ہے آگہی
مری سوز سوز ہے نغمگی مرے رنگِ شعر کے فن میں آ
تُو کہاں ہے زرمیئ خوش بیاں تُو کہاں ہے شاعرِ خوش گُماں
ہمہ تن ہوں چشمِ طلب یہاں کبھی روبرو کبھی من میں آ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔