بے اصولوں کے گرد گھومتی سیاست
کیا کسی انسان کی کوئی ایک خامی اس کی تمام خوبیوں پر حاوی ہو سکتی ہے اور تمام خوبیاں یا اس کے اچھے کام یکسر نظر انداز کرکے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلایا جاسکتا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب پاکستانی قوم کو دینا چاہئے۔
کم از کم الیکشن 2018ء میں جو عنقریب ہونے والے ہیں، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب 2013ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو حلف اٹھاتے ہی ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی، کیونکہ پاکستان کا حال یہ تھا کہ بجلی 24گھنٹوں میں 20گھنٹے غائب رہتی تھی، فیکٹریاں بند پڑی تھیں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگ پوری رات بچوں کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کرتے اور نیندیں پوری نہ ہونے پر چڑچڑے پن میں مبتلا ہو گئے تھے۔
کراچی میں روزانہ 12/10لاشیں گرتی تھیں اور پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ ان تمام مسائل کے حل کے لئے سابق وزیر اعظم گہری سوچ میں مبتلا تھے کہ ان چیلنجوں سے کیسے نمٹا جائے؟ صوبائی حکومتیں بناتے وقت انہوں نے اصول پسندی کو مدِ نظر رکھا اور پاکستان میں روائتی اقتدار کی رسہ کشی سے اجتناب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت بننے دی، حالانکہ مولانا فضل الرحمان جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں سے مل کر حکومت بنانا چاہتے تھے، لیکن نواز شریف اس کے حامی نہیں تھے اور اپنے اصول پسند ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اکثریتی نشستوں والی جماعت تحریک انصاف کو موقع دیا، حالانکہ ان کے حلیف اس پر خفا بھی ہوئے۔
سندھ میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی، اس کے بعد بلوچستان میں ثناء اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنانے کے لئے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھے، مگر نواز شریف نے انہیں منع کردیا، حالانکہ وہ وقتی طور پر نالاں بھی ہوئے اور نواز شریف نے وہاں بھی اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں کی مقامی جماعت کو موقع دے کر اڑھائی سال ان کو حکومت کرنے کا کہا اور بعد کے اڑھائی سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت، مگر ان کی اصول پسندی کو پامال کرتے ہوئے آخری سال میں خریدوفروخت کرکے ان کی حکومت کو ختم کردیا گیا۔
آزاد کشمیر میں ہمیشہ یہ رواج رہا ہے کہ پاکستان میں جو بھی حکومت بنتی ہے، اس کے تابع وہاں بھی اس جماعت کی حکومت بنائی جاتی ہے، مگر میاں محمد نواز شریف نے یہاں بھی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں، جن میں موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر، راجہ فاروق حیدر کو پیپلز پارٹی کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرکے مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنانے سے منع کردیا اور کہا کہ الیکشن قریب ہیں، اس لئے اپنی کارکردی کی بنیاد پر عوام کے پاس جاؤ اور سیٹیں جیت کر اکثریت لے کر اپنی حکومت بناؤ، چنانچہ نواز شریف کی اس سوچ اور اصول پسندی کو بھرپور پذیرائی ملی اور لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے جتوا کر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بناکر راجہ فاروق حیدر کو وزیراعظم آزاد کشمیر کے عہدے پر پہنچایا۔
5سال قبل نواز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے ان اصولوں سے پاکستان کی سیاست میں بہتری کا آغاز کیا اور توقع پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب پاکستان میں اصولی سیاست دیکھنے کو ملے گی، مگر اب یہ حسرت ہی رہ گئی ہے، کیونکہ اس وقت جو صورت حال ہے، وہ تو ماضی سے بھی گئی گزری ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیا جاتا تو پاکستان کا نقشہ اگلے5سال میں تبدیل ہوچکا ہوتا، کیونکہ بجلی پیدا کرنے کا نیلم، جہلم پروجیکٹ جہاں زیر زمین پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر دریاؤں کا رخ کئی کلو میٹر موڑ کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
اتنے بڑے منصوبوں کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی اتنے اعلیٰ منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔
روڈ اور ٹرانسپورٹ کا انتظام سکولوں اور کالجوں میں جنرلوں، ججوں، وکیلوں اور بیوروکریٹس کے بچوں کے بجائے رکشہ ڈرائیور اور تندور میں روٹیاں لگانے اور ریڑھی بان بچوں کو میرٹ پر اول پوزیشنیں لینے پر ایک مردہ ضمیر بندے کی بھی آنکھ کھل جانی چاہئے کہ یہ اقدام نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت سے قبل کبھی دیکھنے کو نہ ملے۔اب بھی سندھ میں دیکھ لیں، امتحانی سنٹر میں پوری پوری کتابیں لے کر بچے اپنے پیپرز حل کرتے دیکھے گئے ہیں۔
اگر ان کے کام تفصیل سے گنوائے جائیں تو ایک لمبی کہانی بن جاتی ہے، لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کی ان تمام کامیابیوں کے ساتھ ساتھ جو سب سے بڑی ناکامی ہے اور ان تمام کامیابیوں کو مدھم کر دیتی ہے، وہ یہ کہ شہباز شریف سے پولیس کا محکمہ بھی ٹھیک نہ ہوسکا، ان کی تنخواہیں ڈبل کرنے، نئی گاڑیاں دینے اور دیگر سہولتیں دینے کے باوجود کرپشن میں ذرہ فرق نہیں پڑا اور غریب کی تھانے میں اسی طرح ذلت اور رسوائی ہوتی ہے اور پولیس کی من مانی اور ہٹ دھرمی جاری ہے، اگر وزیر اعلیٰ پولیس کلچر تبدیل کرلیتے تو یہ عوام پر ان کا بہت احسان ہوتا۔ مگر اس میں وہ بالکل صفر رہے ہیں۔
ایک تھانے کا کارندہ بھی اتنا طاقتور ہے کہ عدالتیں اور آئی جی وغیرہ سب بے بس ہیں اور پولیس کے خلاف عدالتوں میں 22-A اور 22-B کی درخواستیں تھوک کے حساب سے التوا کا شکار ہیں۔
سیشن ججوں کے آرڈرز پولیس ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے اور سائل کی کوئی درد رسی نہیں ہوتی۔ کیا پاکستان کی سیاست بے اصولوں کے گرد ہی گھومتی رہے گی یا کبھی اسے بھی اصولوں کے تحت لایا جائے گا؟