سپریم کورٹ ، وزیر اعلٰی سمیت وزراء اور افسروں سے لگژری اور استحقاق سے بڑی گاڑیاں واپس لینے کا حکم

سپریم کورٹ ، وزیر اعلٰی سمیت وزراء اور افسروں سے لگژری اور استحقاق سے بڑی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی) سپریم کورٹ نے گزشتہ روزحکم جاری کیا کہ رات 12بجے تک حکومت کے خاتمہ سے قبل وزیر اعلیٰ سمیت وفاقی وزرا ء اور افسروں سے ان کے زیر استعمال لگژری اور استحقاق سے بڑی گاڑیاں واپس لے لی جائیں ،چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سرکاری گاڑیاں الیکشن مہم میں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام ٹیکس اس لئے ادا نہیں کرتے کہ ان کے پیسے سے عیاشی کی جائے۔چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزرا اور افسروں کے زیر استعمال لگژری اور استحقاق سے زیادہ گاڑیوں کے از خود پر سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر عباس رضوی نے آگاہ کیا کہ مجموعی طور پر 105 گاڑیاں وفاقی حکومت اور کابینہ کے زیر استعمال ہیں، کوئی بھی افسر یا وزیر 1800 سی سی سے زائد گاڑی رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا، وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ وزیر عابد شیر علی اور اقلیتی وزیر کامران مائیکل کے پاس مرسڈیز بینز گاڑیاں ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک لینڈ کروزر اور 3ڈبل کیبن گاڑیاں زیر استعمال ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے پاس 4400 سی سی بلٹ پروف گاڑی اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہے، فل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے کس اختیار کے تحت گاڑیاں خریدنے کی ہدایت کی عوام ٹیکس کا پیسہ وزرا کی عیاشی کے لئے نہیں دیتے، فل بنچ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ سابق وفاقی وزیر زاہد حامد نے کس قانون کے تحت لگژری گاڑی کا استعمال کیا؟ فل بنچ نے سابق وفاقی وزیر قانون سے وضاحت مانگ لی، فل بنچ نے قرار دیا کہ استحقاق نہ رکھنے والے دیگر وزرا ء اور افسران کو بھی طلب کرے گی،فل بنچ نے نئی تعینات ہونیوالی ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو تنبیہ کی کہ عدالت معاملے کی انکوائری کرائے گی، عدالت سے غلط بیانی برداشت نہیں کی جائے گی، گاڑیوں سے متعلق درست تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں،فل بنچ نے حکم دیا کہ پنجاب میں استحقاق کے بغیر ساری گاڑیاں گزشتہ روز آج رات 12 بجے تک ضبط کر لی جائیں جبکہ قانون کے برعکس گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائیریکٹرز سے پیسے وصول کئے جائیں گے، فل بنچ نے عندیہ دیا کہ معاملہ نیب کو بھی بھجوایا جا سکتا، فل بنچ نے حکم یا کہ گزشتہ روز (آج )تحلیل ہو نے والی پنجاب اسمبلی کے وزیر اعلیٰ سے اضافی دو گاڑیاں واپس لی جائیں جبکہ کابینہ تحلیل ہوتے ہی رانا ثنااللہ اور دیگر سے بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی جائیں، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ انتخابات میں بلٹ پروف گاڑیوں چلانے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر کسی کو بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے تو اپنی جیب سے خرید لے۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب کو ہدایت کی کہ یہ تمام گاڑیاں واپس لی جائیں، قذافی سٹیڈیم کے پیچھے کافی خالی جگہ پڑی ہے وہاں تمام گاڑیاں پارک کر لیں۔ یہ افسران دو دن پیدل سفر کر لیں گے تو ان کو کچھ نہیں ہو گا، عدالت کو وضاحت کی جائے کہ ان حد سے زیادہ گاڑیاں کیسے ایک محکمہ اور فرد کو دی گئی ہیں؟چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں ریمارکس دیئے کہ نیب کی یہ کارکردگی یہ ہے کہ ایک مفرور ملزم گرفتار نہیں کیا جا سکا ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کیس پر سماعت کی، فل بنچ کو آگاہ کیا گیا کہ این آئی سی ایل مقدمات پر کارروائی ہو رہی ہے۔ نیب کے وکیل نے بتایا کہ کراچی میں زیر سماعت مقدمات میں 72 گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں جبکہ لاہور کے مقدمات میں 3گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ عجیب بات ہے کرپشن کرو پھر رہا ہوجاؤ، جس نے کرپشن کی ہے اسے سزا بھی ملنی چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے این آئی سی ایل کے بارے میں لاہور اور کراچی میں زیر التوا ء مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیاہے، فل بنچ نے اسی مقدمہ کے مفرور ملزم محسن وڑائچ کو گرفتاری کا حکم دے دیا ،نیب نے بتایا کہ ملزم ایاز خان ریمانڈ پر زیر حراست ہے جس پر فل بنچ نے نشاندہی کی کہ یہ کارروائی گزشتہ احکامات سے پہلے کی ہے، عدالتی حکم کے بعد کیا کیا ہے، وہ بتائیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے نیب اس کیس میں ملزمان کے ساتھ رعایت کر رہی ہے لیکن نیب کو رعایت برتنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے 10دنوں میں احتساب عدالتوں کواین آئی ایل سی کے چاروں ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔سپریم کورٹ نے سکولوں کی فیسوں سے متعلق مختلف ہائیکورٹس کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعامسترد کر تے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔فل بنچ نے قرار دیا کہ تعلیم کاروبار نہیں بلکہ بنیادی حق ہے ۔پرائیویٹ سکول مافیہ نے ملی بھگت کر کے سرکاری سکولوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سکولوں کی فیسوں میں اضافے کے بارے میں مختلف ہائیکورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی ،درخواست گزاروں کے وکلاء نے استدعا کی کہ ان کے خلاف عدالتی فیصلوں کو معطل کیا جائے اور حکم امتناعی جاری کیا جائے لیکن فل بنچ نے استدعا نجی سکولوں کی استدعا مسترد کر دی اور ریمارکس دیئے کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے ،عدالت از خود نوٹس لینے بارے سوچ رہی ہے ،فل بنچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بڑے لوگوں نے سکولز کھول کر والدین کا استحصال شروع کر رکھا ہے،اتنی تنخوا نہیں جتنی والدین کو فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں ۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ تعلیم کاروبار یا صنعت نہیں بنیادی حق ہے، فل بنچ نے استفسار کیا کہ بتایا بچوں سے ود ہولڈنگ ٹیکس کس حیثیت سے وصول کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس

لاہور(نامہ نگارخصوصی)سپریم کورٹ نے حکومتی اور سرکاری شخصیات سے گزشتہ روزتمام اضافی سکیورٹی واپس لینے کاحکم دے دیا، عدالت نے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی سکیورٹی کی بھی از سر نو رپورٹ طلب کر لی ہے۔چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم3 رکنی بنچ نے حکومتی اور سرکاری شخصیات کو غیر ضروری سکیورٹی دینے کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سکیورٹی صرف اسے دیں جو قانون کے مطابق اہل ہے، عدالت کی قائم کردہ سکیورٹی کمیٹی بھی کسی کو سکیورٹی فراہم کرنے کی سفارش کر سکتی ہے، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سکیورٹی کے لئے اہل نہ ہونے والے افراد سے سکیورٹی واپس لے لی ہے، حمزہ شہباز سے بھی اضافی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے جبکہ حمزہ شہباز کے پاس صرف ایک سکواڈ ہے جو آج شام تک واپس ہو جائے گا، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل کالونی میں آج بھی حمزہ شہباز کے گھر کے باہر پولیس اہلکار بد تہذیبی پھیلا رہے ہیں، آج بھی حمزہ شہباز کے گھر کے باہر پولیس اہلکاروں کی بنیانیں، پاجامے اور انڈرویئر لٹکے نظر آتے ہیں، چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ سپریم کورٹ اپنے خفیہ کمیشن کے ذریعے اضافی سکیورٹی کے تمام اعداد و شمار اور رپورٹ کی تصدیق کروائے گی، اگر حکومت اور پولیس نے غلط بیانی کی تو نتائج بھگتنا ہوں گے، عدالت نے اضافی سکیورٹی پر نئی رپورٹ کے لئے پنجاب حکومت اور پولیس کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی ہے۔سپریم کورٹ نے انتخابات سے قبل تقرر و تبادلوں کے خلاف از خود نوٹس کیس میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسے تمام تبادلے اور تقرریاں بدنیتی پر مبنی ہیں، عدالت نے تقرر و تبادلوں سے متعلق صوبائی حکومتوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے اور ان تبادلوں پر عمل درآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا ہے ۔سپریم کورٹ رجسٹری میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں اور تبادلوں پر پابندی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ہر شخص دوسرے کو نواز رہا ہے،آپ کوجانے سے 2 دن پہلے تقرر و تبادلے کرنے کیا ضرورت تھی؟ چیف جسٹس کا چیف سیکرٹری سے استفسار چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پہلی حکومت کے پسند کے لوگ محکموں میں تعینات ہوتے ہیں اسی لئے ان کے تبادلے کئے جاتے ہیں،وزیر اعلیٰ کے دفتر کے لوگوں کو اہم اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چیف سیکرٹری پنجاب کو تبدیل نہ کرنے کے بھی احکامات جاری کریں گے کیونکہ چیف سیکرٹری زاہد سعید مختلف مقدمات میں سپریم کورٹ کی معاونت کر رہے ہیں، عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں کو ایک ہفتے میں تقرر و تبادلوں کی تعداد اور تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے ، فاضل بنچ نے کہا کہ تبادلوں اور تقرریوں کا جائزہ لے کر ان کے متعلق فیصلہ جاری کریں گے۔
سپریم کورٹ

مزید :

صفحہ اول -