دھوکہ بازوں سے ممنون اور ٹرمپ کو محفوظ رکھنے کیلئے پاکستان، امریکا کے رابطے

دھوکہ بازوں سے ممنون اور ٹرمپ کو محفوظ رکھنے کیلئے پاکستان، امریکا کے رابطے
دھوکہ بازوں سے ممنون اور ٹرمپ کو محفوظ رکھنے کیلئے پاکستان، امریکا کے رابطے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ویب ڈیسک)سوشل میڈیا پر دھوکہ بازوں سے صدر ممنون اور صدر ٹرمپ کو محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان، امریکا کے درمیان رابطے ہوئے ہیں۔پاکستان نے صدر ممنون کی جعلی فیس بک آئی ڈی اور امریکا نے ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے ٹرمپ کو دھمکی دینے والے کی تفصیلات مانگی ہیں۔

روزنامہ جنگ کے مطابق،پاکستان اور امریکا سوشل میڈیا پر اپنے صدور کو دھوکہ بازوں اور دھمکیاں دینے والوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ، ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ان فریبیوں نے ان کے ناموں پر جعلی ویب سائٹس بنائی ہیں اورکئی مواقعوں پر دھمکیاں بھی دی ہیں۔حکومت پاکستان نے امریکا سے ان آئی پی ایڈریسز کی معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا ،جن کے ذریعے صدر ممنون حسین کے نام پر فیس بک اور ویب سائٹس چلائی جارہی تھیں۔جب کہ دوسری جانب امریکی حکام نے اس ٹوئٹر اکاﺅنٹ کی تفصیلات مانگی تھیں جس کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ان دونوں کیسز میں ملوث افراد کی تلاش میں ہے۔

امریکا سے جو صدر ممنون حسین کی شکایت سے متعلق معلومات طلب کی گئی تھیں ، وہ معلومات دو سال گزرجانے کے باوجود فراہم نہیں کی گئیں۔جب کہ امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق ٹوئٹ کی معلومات حال ہی میں طلب کی ہیں۔صد ر ممنون نے 2016میں اس وقت شکایت درج کرائی تھی جب ان کے نام پر کچھ ویب سائٹس اور فیس بک صفحات بنائے گئے تھے۔ایف آئی اے نے امریکا کے محکمہ انصاف کو خط لکھا تھا تاکہ ان کے آئی پی ایڈریس سے ان افراد کا پتہ لگایا جاسکے ، تاہم دو سال گزرجانے کے باوجود مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔امریکی حکام سے باضابطہ طور پر جو رابطہ کیا گیا تھا ، اس کے مطابق، امریکی محکمہ انصا ف نے وہ ٹھوس وجوہات طلب کی تھیں جس کی بنیاد پر پرائیویٹ معلومات فراہم کی جائیں، مثلاً ایف آئی اے سے کہا گیا تھا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ان جعلی ویب سائٹس بنانے والوں نے صدر ممنون حسین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہو یا اس ویب سائٹ کے ذریعے ان کی تحقیر کی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست دان عوامی شخصیات ہوتے ہیں ، لہٰذا انہی اس قسم کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔امریکا نے ایف آئی اے کو بتایا تھا کہ جب تک اپنی ذات کو خطرہ لاحق نہ ہو ، اس وقت تک آزادی رائے پر قدغن لگانا درست نہیں۔ذرائع کے مطابق، ایف آئی اے کو سیاست دانوں کی جانب سے شکایتیں ملتی رہتی ہیں ، تاہم وہ کسی کے خلاف اقدام نہیں کرسکا کیوں کہ امریکا کے بڑے سوشل میڈیا ادارے اس طرح کی درخواستوں کو اہمیت نہیں دیتے۔صدر ٹرمپ کا کیس صدر ممنون حسین کے کیس سے مختلف ہے اور ہم ان سے تعاون کرنے کے پابند ہیں۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان سے چلائے جانے والے ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے صدر ٹرمپ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

اس کیس سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ جس ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے دھمکیاں دی گئی تھی، ا س کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی ہےاور اس ضمن میں تحقیقات جاری ہیں۔دونوں کیسز سے متعلق جب امریکی سفارت خانے کا موقف لیا گیا تو ترجمان امریکی سفارت خانہ رچرڈ ڈبلیو اسنیل سائر کا کہنا تھا کہ پالیسی کے سبب ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ایف آئی اے سائبر کرائم کوسوشل میڈیا سے متعلق دھمکیوں اور دھوکہ دہی کی شکایتیں مسلسل موصول ہوتی رہتی ہیں۔ 2016سے اب تک تقریباً 1795 شکایتیں ان سوشل میڈیا کمپنیوں کو فارورڈ کی گئی ہیں ، تاکہ ان کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں۔جب کہ شکایتوں کی نوعیت مختلف ہے۔ان میں غیر قانونی طور پر اکاﺅنٹس تک رسائی، جعلی اکاﺅنٹس اور ہیکنگ سے متعلق شکایتیں شامل ہیں۔تاہم، مالی دھوکہ دہی، کسی کا جعلی اکاﺅنٹ بنانا اور دھمکیاں دینے کی شکایتیں زیادہ تر فیس بک صارفین نے درج کرائی ہیں۔سائبر کرائم حکا م کے مطابق، فیس بک نے زیادہ تر معلومات کی فراہمی میں تعاون کیا ہے، سوائے ان شکایتوں کے جس میں توہین مذہب کی باتیں یا آزادی اظہار سے متعلق شکایتیں ہیں۔