وہ سچائی جسے جرنیلوں نے نوازشریف سے چھپانے کی کوشش کی ،جب نوازشریف نے اس بارے پوچھا تو جرنیلوں نے انکے ساتھ کیا کیا ،جان کر پوری قوم دنگ رہ جائے گا ،سابق کرنل کی کتاب میں بڑا دعویٰ

وہ سچائی جسے جرنیلوں نے نوازشریف سے چھپانے کی کوشش کی ،جب نوازشریف نے اس بارے ...
وہ سچائی جسے جرنیلوں نے نوازشریف سے چھپانے کی کوشش کی ،جب نوازشریف نے اس بارے پوچھا تو جرنیلوں نے انکے ساتھ کیا کیا ،جان کر پوری قوم دنگ رہ جائے گا ،سابق کرنل کی کتاب میں بڑا دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ایس چودھری )1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنے کے لئے جہاں بیک ڈور ڈپلومیسی کا استعمال کیا وہاں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو فروری 1999 میں لاہور میں مدعو کرکے مینار پاکستان کے سائے میں یقین دلایا تھا کہ پاکستان بھارت کی طرف مخلصانہ ہاتھ بڑھا رہا ہے،دنوں ملکوں کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پایا گیا جسے تاریخ کا سب سے بڑاقدم قراردیاگیا ۔لیکن اس ملاقات کے فوری بعد ہی مارچ اپریل میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے کارگل ایڈونچر تشکیل دے کر فوج کو خفیہ طور پر ان علاقوں میں بھیج دیا جہاں بعد ازاں کارگل کی جنگ نے جنم لیا اور چھوٹاآپریشن قراردیا جانے والا یہ فیصلہ بڑی جنگ کا پیش خیمہ بنتے بنتے رہ گیا۔کارگل کی جنگ کے حوالے سے جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں پر اب تک متعدد کتب منطر عام پر آچکی ہیں جن میں ایک کتاب سابق کرنل اشفاق احمد نے ” جنٹملین استغفراللہ “ کے نام سے لکھی اور اس میں کارگل میں پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھایا ۔ان کا دعویٰ ہے کہ جنرل مشرف اور چند جرنیلوں تک محدود اس آپریشن کو حکومت سے چھپایا گیا تھا جس کی اطلاع نوازشریف کوبھارتی وزیر اعظم نے دی تھی۔ میاں نواز شریف نے جب اس بارے پوچھا تو انہیں لالی پاپ دینے کی کوشش بھی کی گئی ۔ کرنل اشفاق پاکستانی جرنیلوں کی اس مہم جوئی بارے لکھتے ہیں کہ ”5مئی 1999ءکا دن تھا ، شام کا وقت ۔ سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان (ریٹائرڈ ) اپنی رہائش گاہ پر بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ راکھ دان میں سگریٹ پڑا تھا اور ان کے ہاتھوں میں کوئی غیر ملکی رسالہ ۔ سرسری انداز میں رسالے کو الٹتے پلٹتے ، اچانک وہ چونک اٹھے ۔ ان کی نگاہ ایک خبر پر جم کر رہ گئی ۔ ہمالیہ کی چوٹیوں پر دنیا کے بلند ترین محاذ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی جھڑپیں ۔ اس طرح کی کوئی بات ہوتی تو سب پہلے انہیں خبر ہونی چاہیے تھی ۔ شام کا وقت تھا اور جی ایچ کیو کے تمام بڑے دفاتر بند ہو چکے تھے، لیکن دفاعی امور کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہوتا ۔ یہ فرض تو چوبیس گھنٹے نبھایا جاتا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل توقیر ضیاءسے رابطہ کیا اور پوچھا کہ شمالی علاقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ ”کچھ نہیں سر “ فوری جواب ملا ۔
جب جنرل افتخار نے ڈی جی آپریشنز کو بتایا کہ انہوں نے ابھی ایک غیر ملکی مضمون پڑھا ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی جھڑپوں کا ذکر ہے تو ڈی جی نے کہا وہ چیک کر کے انہیں بتائیں گے ۔ شام گزر گئی ، رات بھی ۔ ڈی جی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ دوسرے دن سیکرٹری دفاع نے خود ہی فون کیا اور پوچھا کہ ڈی جی نے متعلقہ معلومات حاصل کی ہیں یانہیں ۔ ڈی جی آپریشنز نے ان کے سوالات ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور شمالی علاقوں میں چھوٹی موٹی جھڑپیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں ، تشویش کی کوئی بات نہیں ۔ جنرل افتخار مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے اصرار کیا کہ انہیں مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔
انہی دنوں نواز شریف کو اپنے بھارتی ہم منصب کی طرف سے فون آیا کہ آپ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔حیران ہو کر نواز شریف نے تفصیل جانناچاہی تو واجپائی نے انہیں شمالی علاقوں میں پاکستانی فوجی دستوں کی دراندازی سے آگاہ کیا ۔ نواز شریف نے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار علی خان سے پوچھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی خبر ہے ، تو انھوں نے بتایا کہ انہیں کچھ خبریں تو ملی ہیں لیکن وہ تفصیلات ملنے پر وزیراعظم کو مہیا کریں گے۔
دو دنوں بعد جنرل افتخار کو بتایا گیا کہ بہت جلد وزیراعظم کے لیے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں انہیں بھی مدعو کیا جائے گا۔ یہ بریفنگ 17مئی 1999ءکو بروز اتوار انٹر سروسز انٹیلی جن سکے اوجڑی کیمپ کے دفاتر میں منعقد ہوئی ۔ حکومت کی طرف سے نواز شریف ، سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) افتخار علی خان ، وزیر خارجہ سرتاج عزیز ، وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) مجید ملک ، سیکرٹری برائے امور خارجہ مسٹر شمشاد احمد خان اور وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری سعید مہدی موجود تھے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان ، دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد ، ڈائریکٹر جنرل ملٹری اپریشنز سے میجر جنرل (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل ، کمانڈر کور ) جمشید گلزار موجودتھے ۔
ڈی جی آپریشنز میجر جنرل توقیر ضیا نے بریفنگ دی جس میں فوجی صورت حال کی بڑی پُرکشش تصویر کشی کی گئی تھی ۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاک فوج نے علاقے کی اہم چوٹیوں پر قبضہ کر کے مکمل سرپرائز حاصل کیا ہے اور بھارتی فوج کسی بھی طرح مقبوضہ چوکیاں واپس نہیں لے سکتی ۔ حکومت کی طرف سے دفاعی امور کو سمجھتے والے ماہرین جنرل افتخار اور جنرل مجید تھے جنہوںنے بڑے چبھتے ہوئے سوال کیے جو فوجی کمانڈروں کو پسند نہیں آئے ۔ تاہم ان کے تنقید کے جواب میں کہا گیا کہ بھار ت بین الاقوامی سرحدوں پر جنگ چھڑنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ بھارتی فوج کشمیر اور شمالی علاقوں میں بری طرح الجھی ہوئی ہے اس لیے وہ زمینی ، بحری یا فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی فوج زبردستی عددی برتری کے باوجود ناردرن لائٹ انفنٹری کے دستوں کو بے دخل کر کے کسی بھی طرح مقبوضہ چوکیاں واپس نہیں لے سکتی“