ایل این جی کیس، اعلیٰ اتنظامیہ کے ملک چھوڑ کر جانے کی خبریں بے بنیاد ،تمام افسر ملک میں ہی موجود ہے : پی ایس او

ایل این جی کیس، اعلیٰ اتنظامیہ کے ملک چھوڑ کر جانے کی خبریں بے بنیاد ،تمام ...
ایل این جی کیس، اعلیٰ اتنظامیہ کے ملک چھوڑ کر جانے کی خبریں بے بنیاد ،تمام افسر ملک میں ہی موجود ہے : پی ایس او

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (پ ر)ملک کی صف او ل کی آئل مارکیٹنگ کمپنی، پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او )نے ملکی میڈیا کی جانب سے پھیلا ئی گئی افواہوں کی سخت تردید کرتے ہوئے ان خبروں کو بالکل بے بنیاد اور کمپنی کی سخت محنت سے حاصل کی گئی ساکھ کے لئے نہا یت نقصا ن دے قرار دیا ہے۔ 
جاری کردہ پریس ریلز کے مطابق ایل این جی درآمد کیس کی تحقیقات کے نتیجے میں پی ایس او کی اعلی انتظامیہ کے مبینہ طور پر ملک چھوڑ کر جانے کی جھوٹی اور بے بنیاد خبر کے حوالے سے پی ایس او نے واضح کیا ہے کہ ایم ڈی وسی ای او سمیت کمپنی کی تمام اعلی انتظامیہ ملک میں موجود ہے اور تمام روز مرہ ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہی ہے۔ایم ڈی پی ایس او کی چھٹی کی درخواست کی خبرکے حوالے سے کمپنی نے کہا ہے کہ انھوں نے بیرون ملک جانے کے این او سی کے لئے نہیں بلکہ عید اپنے خاندان کے ہمراہ گزارنے کے لئے چھٹی کی درخواست جمع کرائی ہے۔ پی ایس او نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ میڈیا نے حقائق کے برعکس اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کے ذریعے قومی ادارے کو متنازع بنا کر اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔
کارگو پر اضافی چارجز (Demurrages ) کے حوالے سے پی ایس او نے وضاحت کی ہے کہ پی ایس او نے وزارت توانائی اور پاور ڈویژن کی درخواست پر کارگوز کا انتظام کیا۔ گزشتہ سال کارگوز پر ڈیمرجز کے حوالے سے پی ایس او نے کہا کہ یہ پاور ڈویژن کی جانب سے ضرور ت سے زیادہ طلب ظاہر کرنے کی بدولت ہوا ۔ کمپنی اپنی صوابدید پر فرنس آئل کی درآمد نہیں کرتی ۔ پی ایس او نے مزید کہا کہ گزشہ سال کمپنی کو وزارت توانائی کی جانب سے فرنس آئل کی سہ ماہی طلب موصول ہونے پر اس کا انتظام کیا گیا ۔ البتہ وزارت کی جانب سے ظاہر کی گئی طلب کے مقابلے میں تیل کی کھپت کم رہی، جس کے نتیجے میں کارگو پورٹ پر لنگر انداز رہے اور ڈیمز جز لاگو ہوگئے۔

پی ایس او نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پورٹ پر بھیڑ کی بدولت یہ مسئلہ دوبارہ پیش آسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی ضروریا ت کے مطابق جو کئی گنا بڑھ  چکی ہیں ، پاکستان کا انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا جاسکاہے۔ پی ایس او کے مطابق ای سی سی نے پی ایس سی کے ذریعے ایف او بی بنیادوں پر 2012 میں فرنس آئل کی درآمد کی منظوری دی تھی ۔ پی ایس او گزشتہ دو سالوں کے دوران پی این ایس سی سے سی او اے کی شرائط میں تبد یلی کیلئے گفت و شنید کرتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد  نہیں  ہوسکا ، جس پر وزارت توانائی سے جنوری 2018 میں درخواست کی گئی کہ ای سی سی کی منظوری سے سی اینڈایف درآمد ات کی اجازت دی جائے۔ پی ایس او کے مطابق یہ بات قابل غور ہے کہ ضوابط کے عین مطابق گزشتہ تیس ماہ کے دوران کوئی غیر منظور شدہ پراڈکٹ آف لوڈ نہیں کی گئی۔
ایک اور ضرور ی پہلو جسے بدنیتی کی بنا پر پی ایس او کے شفاف ریکروٹمنٹ نظام سے جوڑا جارہا ہے۔تحقیقاتی ایجنسیاں پی ایس او کے چند اعلی عہدیداروں کے تقررکے معاملے کو غلط طور پر احد چیمہ سے جوڑ رہی ہیں کہ انھوں نے غیر قانی طور پر اس ضمن میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا ہے ۔پی ایس او نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ احد چیمہ کو وزارت توانائی کے پاور ڈویژن نے 5 اکتوبر 2017 سے 21فروری2018تک پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ان کی پی ایس او بورڈ آف مینجمنٹ کی سربراہی کے دوران جنرل منیجر یا اس سے او پر کے کسی عہدے پر کوئی تقرر عمل میں نہیں آیا۔ 
پی ایس او  مزید وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ کمپنی میں ملازمتوں پر تقررکا نظام متعدد مراحل پر مشتمل ہے جس سے تما م عمل اخفائے راز اور شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے اور فرد واحد کیلئے اس کڑے طریقہ کار پر اثر انداز ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ کمپنی انتظامیہ نے اس تمام طریقہ کار سے تحقیقاتی ایجنسیوں کو آگاہ کردیا ہے ۔ لہذا تین جنرل منیجر اور ایک سینئر جنرل منیجر کے تقرر کو احد چیمہ سے جوڑنا حقیقت کے منافی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے تفتیش میں شامل کئے گئے تمام ملازمین احد چیمہ کے چیئر مین بورڈ آف مینجمنٹ کی حیثیت سے تقررسے بہت پہلے پی ایس او میں ملازمت حاصل کر چکے تھے۔ ان کے تقرر کی تاریخیں پہلے ہی متعلقہ حکام کو فراہم کر دی گئی ہیں ۔ 
اس وقت جاری تحقیقات میں متعلقہ اداروں سے تعاون کے متعلق پی ایس او کا کہناتھا کہ کمپنی ڈی جی آئل ، پی این ایس سی اور دیگر سٹیٹ ہولڈرز کی طرح نیب سمیت تمام تحقیقاتی اداروں کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔پی ایس او ایک ذمہ دار کاروباری ادارہ ہے جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرتا رہا ہے۔ کمپنی پرائیویٹ کی جانب سے مصنوعی فیول بحران سمیت سنگین بحرانوں سے قوم کو نجات دلانے کے علاوہ پاکستانیوں کی سہولت کیلئے بجلی کی پیداوار کے لئے احکامات کے عین مطابق بروقت ضروری فیول فراہم کرتی رہی ہے ۔