احتساب یا انتقام؟
مرزا شہزاد اکبر آئے دن پریس کانفرنس کرتے یا ٹیلیویژن ٹاک شوز میں ”معلومات“ کا دریا بہاتے دیکھے جاتے ہیں۔ اسے میری بد قسمتی کہئے کہ میں ان کی کسی بات پر ذرا دھیان نہیں دیتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کسی شخص کی بات سننے کے لئے اس کی شخص کی کریڈیبیلیٹی کا ہونا ضروری ہے۔ کسی کی کریڈیبیلیٹی اس وقت بنتی ہے جب وہ غیر جانبدار ہو اور دئیے گئے اپنے منصب کے ساتھ انصاف کر رہا ہو۔ مرزا شہزاد اکبر کا تمام content چونکہ یکطرفہ الزامات کا ایک پلندہ ہوتا ہے اس لئے اگر اسے سنجیدہ نہ بھی لیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب کیا کہا جائے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ پچھلے 72 سالوں میں تقریباً ہر حکومت نے احتساب کے نام پرسیاسی مخالفین کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا اور اکثر ان کی سیاست کو کچلنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت کسی بھی یکطرفہ احتساب پر یقین نہیں رکھتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی تقریباً دو سال سے احتساب کے نام پر انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور حکومتی اداروں کو زیادہ تر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس انتقامی سیاسی ماحول میں نیب جیسے ادارے کی کریڈبیلیٹی بری طرح مجروح ہوئی ہے(بلکہ ختم ہو گئی ہے)۔ عوام کی بڑی تعداد کہتی ہے کہ اگر احتساب ہو رہا ہوتا تو سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ حکومتی لوگوں کو بچایا اور مخالفین کو پھنسایا جاتا ہے تو پھر اسے احتساب ماننے کے لئے لوگ تیار نہیں ہوتے۔موجودہ حکومت نے مرزا شہزاد اکبر نامی ایک بیرسٹر کو معاون خصوصی برائے احتساب مقرر کیا ہوا ہے اور ان کا درجہ وزیر مملکت کا ہے۔ پتہ نہیں یہ وزیر مملکت صاحب کس پیراشوٹ سے جمپ لگا کر وفاقی کابینہ کا حصہ بنے ہیں لیکن ان کے کام کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ کرپشن کے مقدمات قائم کرنے کی بجائے وہ آئے دن صرف پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ اب پریس کانفرنس کی تو کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی کیونکہ کسی بھی کیس کا فائدہ تب ہی ہو گا جب اسے عدالت میں ثابت کیا جائے گا۔ مرزا شہزاد اکبر پانچ دس نہیں بلکہ ہزاروں پریس کانفرنسیں بھی کر لیں تو اس کا قانونی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ٹیلیویژن ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات لگانے کا کوئی فائدہ ہو گا جب تک کہ معاملہ عدالت میں ثابت نہ کیا جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ایکسرسائز کا واحد مقصد مخالفین کا صرف میڈیا ٹرائل ہے، حقیقی ٹرائل نہیں۔ مرزا شہزاد اکبر اس سے پہلے بھی 2004 سے 2008 تک یعنی جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں۔ اگر ان چار پانچ سالوں کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت بھی ان کی کارکردگی صفر ہی تھی کیونکہ اس دورانیہ میں بھی نیب نے کوئی تیر نہیں مارا تھا۔ اب پچھلے دو سال سے ان کا جو وطیرہ ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں ”معاون خصوصی برائے کردار کشی“ مقرر کیا گیا ہے جن کی سرکاری ڈیوٹی صرف اتنی ہے کہ وہ پریس کانفرنسوں اور ٹیلیویژن ٹاک شوز میں اپوزیشن کے خلاف الزام تراشی کرتے رہیں۔ مرزا شہزاد اکبر کے پس منظر کے بارے میں لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں ہے اور ایک عام تاثر یہی ہے کہ غالباً ضرورت پڑنے پر انہیں لندن سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ ویسے تو اس بارے میں وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے نازل ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اسی طرح کی ایک اور شخصیت ڈاکٹر شہباز گل اپوزیشن کے خلاف دشنام طرازی کے لئے امریکہ سے امپورٹ کر رکھی ہے اور انہیں وزیر اعظم نے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ مقرر کیا ہوا ہے لیکن ان کا رول دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ ان کا اصل کام اپوزیشن کے خلاف فری سٹائل ابلاغ ہے جس میں سیاسی سے زیادہ غیر سیاسی زبان کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ان دو غیر منتخب اور پیراشوٹ جمپ سے آئی شخصیات کو دیکھ کر یہ گمان تقویت پکڑتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے معاونینِ خصوصی برائے الزام تراشی اور دشنام طرازی رکھے ہوئے ہیں۔ مرزا شہزاد اکبر کو مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ”کرائے کا ترجمان“ قرار دیا ہے۔ شائد اس کی وجہ موصوف کو وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی اسائنمنٹ، ان کے کام کرنے کا طریقہ کار اور”نامعلوم“ ماضی ہے کہ وہ کون ہیں، کہاں سے اور کیسے نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ کیا وہ پاکستانی شہری ہیں، برطانوی ہیں یا پھر دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ ویسے کتنی عجیب سی بات ہے کہ اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی ہے لیکن چور دروازے سے کابینہ کا حصہ کوئی بھی بن سکتا ہے۔ عمران خان کابینہ کے 51 اراکین میں 28 منتخب اور 23 غیر منتخب پیراشوٹ جمپ والے ہیں۔ کون کہاں سے اور کیسے آیا، یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن یہ بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلی ”منتخب“ حکومت ہے جس کی وفاقی کابینہ میں 40 فیصد سے زیادہ غیر منتخب لوگ ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کی کابینہ صرف دس سے بارہ لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ اب کیا کہا جائے کہ اس سے دوگنے تو ان کی وفاقی کابینہ میں غیر منتخب ”پیرا شوٹر“ ہیں۔ خیر، قول و فعل میں تضاد کی یہ ایک ادنی سی مثال سمجھ لیجئے۔
سپریم کورٹ کے ایک معزز جج قاضی فائز عیسی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ایک صدارتی ریفرنس کی کاروائی چل رہی ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ صدرِ مملکت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں فاضل جج کے خلاف جو ریفرنس بھیجا وہ عجلت میں بنایا گیا یا اس کے پیچھے اور وجوہات بھی تھیں۔ بہر حال، جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف بھیجا گیا صدارتی ریفرنس ایک حقیقت ہے اور اس کا فیصلہ بھی سپریم جوڈیشل کونسل نے ہی کرنا ہے کہ جج صاحب پر لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے۔ چونکہ ان الزامات کو لگائے جانے سے پہلے ان کی صداقت کو درست طریقہ سے معلوم کرنے کا عمل مرزا شہزاد اکبر کر رہے تھے اس لئے اب یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے کہ الزامات کو عدالت میں ثابت کیا جاسکے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ یہ ریفرنسز نہ صرف ہماری عدالتی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوں گے بلکہ آنے والے برسوں میں ان کے سنجیدہ سیاسی نتائج بھی ہوں گے۔ آنے والا مورخ بتا سکے گا کہ ہماری عدالتیں اپنے فیصلوں میں کس حد تک آزاد تھیں یاصورت حال کیا تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی چونکہ اس صدارتی ریفرنس میں اپنا دفاع کر رہے ہیں اور یہ ریفرنس مرزا شہزاد اکبر کی طرف سے کھوج لگائی گئی معلومات پر مبنی ہے، اس لئے جسٹس صاحب نے مرزا شہزاد اکبر کے بارے میں کئی سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں اور میرا گمان ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور حتی الامکان کوشش کرے گی کہ ان کے درست جوابات سامنے آئیں۔ اس سے نہ صرف اس صدارتی ریفرنس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے گا بلکہ احتساب کے نام پر جاری پورے عمل کی شفافیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے کئے گئے مرزا شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھائے گئے،پاکستان میں 72 سال سے سیاسی مخالفین کے خلاف بھونڈی انتقامی کاروائیاں ہو رہی ہیں لیکن عمران خان حکومت نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ احتساب کا عمل تعفن زدہ ہو رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ احتساب کے لفظ کو شرمندگی سے بچانے کے لئے انتقام کو بند کیا جائے اور ایسے ترجمانوں کو وہیں واپس بھجوا دیا جائے جہاں سے وہ آئے ہیں۔