چینی کمیشن رپورٹ پر سیاست
چینی کمشن کی رپورٹ پر مسلم لیگ (ن) اور حکومتی عہدیداروں کے درمیان الزامات اور لفظوں کی گولہ باری جاری ہے ادھر عوامی حلقے وزیر اعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ پر کسی کے خلاف کارروائی کریں یا نہ کریں چینی کو تو اس قیمت پر واپس لائیں جو اس سکینڈل سے پہلے تھی۔ اس میں بیس پچیس روپے فی کلو اضافہ کیسے ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ صرف ایک روپیہ کلو اضافہ سے چار ارب روپے ماہانہ زیادہ کمائے جاتے ہیں اس حساب سے بیس روپے کلو اضافہ تو کھربوں کی گیم بن جاتی ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں شہزاد اکبر کو آگے کر دیا ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ دیتے ہیں اور آج کل ان کا سب سے بڑا بیانیہ یہ ہے کہ چینی کمشن کی رپورٹ در حقیقت شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف چارج شیٹ ہے جو جتنا زیادہ بولتا ہے، وہ اتنا ہی بہت سی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو خود اپنے لئے مشکلات پیدا کرتی ہیں مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، سبسڈی کی نہیں دی۔ اب ان کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سبسڈی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے دی، جس کے لئے انہیں وزیر اعظم عمران خان نے نہیں کہا۔ اگر تو معاملہ یہ ہوتا کہ سرے سے کوئی سبسڈی دی ہی نہ گئی ہوتی تو یہ مؤقف بہت مدلل تھا، لیکن سبسڈی تو دی گئی اور وہ بھی پنجاب کی طرف سے تو پھر اس کا دفاع کیسے کیا جائے گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں جن میں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال پیش پیش ہیں، وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزیر اسد عمر کو چینی سکینڈل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، جنہیں انکوائری کمشن نے بچا لیا ہے اور اصل حقائق چھپائے ہیں۔
اس سارے گھپلے میں رگڑا عوام کو لگ گیا ہے۔ جس وقت چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اس وقت مارکیٹ میں وہ 56 روپے کلو کے حساب سے دستیاب تھی۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے کہ ملک میں چینی وافر مقدار میں موجود تھی تو پھر برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد اس کی قیمت بتدریج کیوں بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ وہ 82 روپے کلو تک بکتی رہی۔ اب بھی اس کا ریٹ 75 سے 80 روپے کلو، پیک چینی 85 سے90 روپے کے درمیان ہے۔ اصل ڈاکہ تو یہ ہے جو عوام کی جیبوں پر ڈالا گیا اور جو اب تک ڈالا جا رہا ہے۔ اس منافع میں تو سبھی شریک ہیں تمام شوگر ملیں اربوں روپے کا فائدہ اٹھا رہی ہیں، جب انکوائری کمیشن رپورٹ میں یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ایک کلو چینی پر کتنی لاگت آتی ہے، تو پھر چینی کی قیمت کو کنٹرول کیوں نہیں کیا جا رہا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے سب کچھ کیا گیا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے کہ گزشتہ برسوں میں کس کس نے چینی برآمد کرنے پر اربوں روپے کی سبسڈی دی، حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ چینی کی قیمت کو واپس پرانی سطح پر لایا جائے، کیونکہ گنے کی قیمت سمیت کوئی ایسے نئے ٹیکسز نہیں لگے کہ قیمت میں 40 فیصد اضافہ کر دیا جائے۔ مگر اس طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس انکوائری کا مقصد عوام کو ریلیف دینا نہیں بلکہ سیاسی طور پر اپنا قد بڑھانا اور اپوزیشن پر الزام لگانا ہے۔ سبسڈی تو چند ارب روپے کی بات ہے، یہاں تو چینی مہنگی کر کے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں، ملک میں کسی اور چیز کی قیمت اتنی تیزی سے نہیں بڑھی جتنی تیزی سے چینی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا، آخر اس کے پیچھے کوئی تو ایسا ہاتھ ہے، جس نے حکومت کو بھی بے بس کر رکھا ہے۔
ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ہر معاملے کو سیاسی رنگ دیدیا جاتا ہے۔ چینی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی تو سب سے پہلا کام یہ کیا جانا چاہئے تھا کہ اس پر قانون کے مطابق مقدمات درج کر کے کارروائی کا اختیار ایف آئی اے یا نیب کو دیدیا جاتا، اس میں بہت سے لوگ ملوث ہیں اور کچھ حکومت میں بھی بیٹھے ہیں لیکن جنگ یہ چل رہی ہے کہ شہباز شریف اور خاقان عباسی زیادہ بڑے ملزم ہیں یا وزیر اعظم عمران خان اور عثمان بزدار، شہزاد اکبر آخر کس مشن پر ہیں کہ کارروائی کی بجائے میڈیا پر آکر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں یہ سب کچھ تو سیاسی لڑائی کا نقشہ پیش کرتا ہے، اس سے تو کہیں بھی نہیں لگتا کہ لوٹی دولت واپس آئے گی یا عوام کو کوئی ریلیف ملے گا۔ یہ کام تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے جو حکومت میں ہوتے ہیں، وہ اپوزیشن پر لوٹ مار کا الزام لگاتے ہیں اور اپوزیشن والے حکومت کے کارپردازان کو کرپشن کنگ قرار دیتے ہیں عوام صرف حسرت و یاس کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھتے رہ جاتے ہیں کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ یہ سب نورا کشتی ہے، جس کا مقصد عوام کو بے وقوف بنانا ہے احتساب کے نام پر نورا کشتی تو اب بہت پرانا کھیل ہو چکا ہے۔ جانے والوں پر کیس بنانا اور پھر ان کی کرپشن کا ماتم کرتے رہنا، معمول کی بات ہے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) آپس میں یہ کھیل کھیلتی تھیں، اب تحریک انصاف بھی اس کھیل کا حصہ بن چکی ہے۔ اس بات کا کریڈٹ لینا ہی کافی نہیں کہ رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی بلکہ حقیقی معنوں میں کارروائی ہی اس کا منطقی انجام ہونا چاہئے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
جب بھی احتساب کی بات ہوتی ہے، سیاست آگے آ جاتی ہے اور اصل معاملہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اس وقت دیکھیں تو یہی ہو رہا ہے۔ معاملہ چینی کمشن کی رپورٹ پر ایک مجموعی کارروائی کا تھا، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ شہباز شریف پر ساری توجہ مرکوز کرلی گئی ہے شہزاد اکبر صبح و شام یہ ورد کرتے ہیں کہ شہباز شریف کا بچنا محال ہے۔ ریفرنس تیار ہو گیا ہے۔ وہ نا معلوم وجوہات کی بنا پر گھر میں آئسولیٹ ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ ارے بھائی کِسے بے وقوف بنا رہے ہو شہباز شریف تو ایک پرانی کہانی ہے، اس نئی کہانی کا کیا بنا جو چینی سکینڈل کی رپورٹ کے بعد سامنے آئی تھی، جس میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، رزاق داؤد اور دیگر حکومتی شخصیات کا ذکر تھا، ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی شروع ہوئی یا نہیں۔ ایک معاملے پر مٹی ڈالنے کے لئے دوسرے معاملے کو اُچھالنا بہت پرانا طریقہئ واردات ہے۔ شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی پر ریفرنسز بنتے ہیں تو بننے چاہئیں، مگر ان کا روزانہ ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت ہے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ اصل کردار تو وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا ہے، تو پھر اس کا دفاع کیسے کیا جا سکے گا۔ ارے صاحبو! یہ پرانی روائیتیں چھوڑو، کوئی نئی ریت ڈالو، اس سے پہلے کچھ ملا ہے اور نہ آئندہ ملے گا۔ جب تک اس ملک میں حکومتِ وقت اپنی صفوں میں چھپے لٹیروں اور قانون شکنوں کا احتساب نہیں کرتی کچھ نہیں ہوگا، بس زبانی جمع خرچ اور اس سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔ ملک سنگین بحرانوں میں گھرا ہے اور ہمارے ہاں وہی پرانا نسخہ آزما کے عوام کو یہ دلاسہ دیا جا رہا ہے کہ لوٹا ہوا مال واپس لا کر خزانہ بھر دیں گے، پھر سب کچھ ہرا ہی ہرا ہو جائے گا۔ ارے ظالموں پہلے چینی پر بیس روپے کلو زائد وصولی تو بند کراؤ، پھر دیکھ لیں گے تم کیا تیر چلاتے ہو۔