پاکستانی بم کس نے بنایا؟
سیاست بھی عجیب کھیل ہے اور جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے،تولا نہیں جاتا۔ صدارتی طرزِ حکومت، بادشاہی، شہنشاہی اور آمریت کا دوسرا نام ہے جس میں اگرچہ وراثتی عنصر ناپید ہوتا ہے،لیکن باقی سارے طور طریقے شاہانہ ہوتے ہیں۔ اس میں پرجا کا راجہ خاندانی نہیں ہوتا، پرجا براہِ راست اس کا انتخاب کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ دو باریاں لینے کی اجازت دیتی ہے۔ تیسری باری کے لئے کوئی اور راجہ آ جاتا ہے۔ صدارتی طرزِ حکومت میں عرصہئ حکومت متعین ہوتا ہے۔امریکی اور یورپی ممالک کہ جن میں عرصہ ہائے حکمرانی مختلف ہوتے ہیں اس کا فیصلہ بھی پرجا ہی کرتی ہے، لیکن ایک بار جب کر لیتی ہے تو صدر پر اعتماد کرتی ہے۔ اس کو کابینہ کے انتخاب کا اختیار دیتی ہے اور اس کی طرزِ حکمرانی کی نگرانی کے لئے ایک ایسی متوازن ٹیم بھی تشکیل دیتی ہے جس میں پرجا کے تمام طبقوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔تیسرا طرزِ حکومت بادشاہی کہلاتا ہے۔یہ ایک طرح کی کھچڑی ہے جو ایشیائی اور یورپی ممالک میں پکائی جاتی ہے، ایشیاء میں خلیج کے ممالک میں جو بادشاہی ہے وہ تھائی لینڈ اور جاپان میں نہیں۔اسی طرح یہ طریق ِ بادشاہی کہنے کو تو برطانیہ اور کئی دوسرے یورپی ممالک میں بھی ہے لیکن یہ بادشاہیاں صرف نمائشی ہیں۔ شاید ان بادشاہوں /شہنشاہوں کو اس وجہ سے رکھا ہوا ہے کہ قوم کا ایک بڑا طبقہ سینکڑوں ہزاروں برس گزر جانے کے بعد بھی صید ِ زبونِ شہر یاری ہے۔ ایک اور طرزِ حکومت مارشل لاء بھی ہے جس کا تجربہ ہم پاکستانیوں نے ساڑھے تین عشروں تک کیا ہے۔ آج کل یہ طرزِ حکمرانی روبہ زوال ہے۔مستقبل میں یہ طرزِ حکمرانی شاید بالکل ہی ناپید ہو جائے۔ …… لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ طرزِ حکومت خواہ جمہوری ہو، صدارتی ہو، بادشاہی یا مارشل لائی ہو اس میں ایک گونہ ”آمریت“ کی قدرِ مشترک ضرور پائی جاتی ہے۔یہ قدر نہ ہو تو حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ ہم مسلمان جس خلافت ِ راشدہ کو اسلام کا سنہری دور کہتے ہیں وہ بھی صرف تین عشرے نکال سکا اور اس کے بعد وراثتی حکمرانی میں تبدیل ہو گیا۔اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی خلافتیں اصل میں خاندانی حکمرانیاں تھیں۔
میں اقبال کے مداحوں میں سے ہوں لیکن ان کے ہاں بھی بعض مسائل و معاملات میں دوئی کا عنصر ملتا ہے۔ مثلاً موضوعِ زیر بحث کے سلسلے میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
تمیزِ بندہ و آقا، فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
تو دوسری جگہ یہ منظر پیش کر تے ہیں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لیکن تیسری جگہ پھر پلٹا کھاتے ہیں:
تمیزِ حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی
مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش
جہاں میں خواجہ پرستی سے بندگی کا کمال
رضائے خواجہ طلب کن، قبائے رنگیں پوش
آخری مصرعہ جو فارسی میں ہے اس کا مطلب ہے: ”خواجہ کی رضا طلب کر اور رنگین قبا پہن لے…… یعنی جس نے رنگین قبا پہننی ہو اس پر لازم ہے کہ خواجہ کی رضا کا طالب رہے کہ حاکم کے حکم پر آمنّا و صدقنا کہنا ایک ازلی روایت ہے۔……دُنیا میں آج تک جتنے دور بھی گزرے ہیں، ان میں جمہور (عوام) ہمیشہ محکوم رہے ہیں، کہتے ہیں حکومت کرنے کے لئے کوئی محکوم بھی تو ہونا چاہئے۔ اگر سارے ہی حاکم بن جائیں تو حکومت کس پر کی جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنی نوعِ انسان کا ایک گروہ ازل سے لے کر آج تک حکمرانی کرتا آیا ہے اور دوسرا اس کا حکم ماننے پر مجبور رہا ہے۔رہا یہ سوال کہ حاکم کی کوالی فیکشنز کیا ہوتی ہیں تو اس کا جواب مرورِ ایام سے بدلتا رہا ہے۔ ایک دور میں اسے خدائی حکم سمجھا گیا۔ بادشاہوں نے بڑے دھڑلے سے کہا کہ بادشاہی ایک Divine right of king یعنی الوہی امر ہے۔ لیکن وقفے وقفے سے جب یہ زمینی خدا، آسمانی خدا بننے لگے تو آسمانی خدا نے ان کو ”آنے والی جگہ“ پر پہنچا دیا۔
نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں شریف خاندان کی کئی اچھی باتوں کا معترف ہوں۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ میرے نزدیک، لاہور۔ اسلام آباد موٹروے کی تعمیر ہے۔یہ ایک گراں قدر پبلک سروس تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے شوگر ملوں اور لوہے کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ سیمنٹ کے کارخانوں کا بھی مُلک میں جال بچھایا۔ موخر الذکر کارخانوں میں کپڑا بنانے کے کارخانوں میں مُلک کے دوسرے سرمایہ کاروں کو بھی شریک کیا۔ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو بھی سڑکیں بنانے کا از حد شوق تھا۔بھلے اس میں لوہا اور سیمنٹ کا غالب استعمال ہوا، لیکن خلق ِ خدا کو روزگار بھی میسر آیا اور دوسرے سرمایہ کاروں کو بھی معلوم ہوا کہ شریف برادرز صرف اپنے پیٹ پر ہاتھ نہیں پھیرتے۔ شہباز شریف نے لاہور کی سڑکوں اور گلی کوچوں کو جو کشادگی اور خوبصورت سے ہمکنار کیا، اس کا عرفان سندھ میں پی پی پی کو نہ ہو سکا۔ ایک طرف واحد بندرگاہ اور بین الاقوامی شہرت کے حامل کراچی کو کھنڈر بنا دیا گیا تو دوسری طرف لاہور کو بین الاقوامی معیار کا صوبائی دارالحکومت بنا دیا گیا۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہوا کہ ان دونوں بھائیوں کی اولادوں نے اس خاندان کا بیڑا غرق کر دیا۔ اگر شریف خاندان میں کوئی برائیاں بھی تھیں تو ان کی اولادوں کو ان کا توڑ کرنا چاہئے تھا، لیکن صد حیف کہ انہوں نے اپنے والدین کی عمارت کو اگر توسیع بھی دی تو دوسروں کا حق مار کر دی اور آبائی کمزوریوں کو مضبوطیوں میں تبدیل کرنے کی بجائے ان کو مزید کمزور کر دیا۔
فوج پر آمریت کا لیبل لگایا جاتا ہے لیکن ایک آمر کے دور میں منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر ہوئے تو دوسرے کے دور میں کہوٹہ تعمیر کیا گیا۔ گزشتہ دِنوں پاکستان نے 22واں یومِ تکبیر منایا لیکن خیریت گزری کہ اب کی بار شریف خاندان برسر اقتدار نہ تھا۔وگرنہ وہی رٹ بار بار دہرائی جاتی کہ ”ہم نے پاکستان کو ایٹم بم دیا اور ایک جوہری قوت بنایا“۔
میری نظر میں اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ شریف فیملی یہ دعویٰ کرے کہ اس نے مُلک کو جوہری قوت سے ہمکنار کیا…… استغفراللہ!!
پاکستان نے تو1984ء ہی میں ایٹم بم بنا لیا تھا۔ اس کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس پروگرام کو شروع کروایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بلوا کر اس پراجیکٹ کی تکنیکی کمانڈ سونپی۔……لیکن اس کی انصرامی (Logistical) اور انتظامی کمانڈ سرا سر پاک آرمی کے ہاتھ میں رہی۔اس موضوع پر اتنا مواد بین الاقوامی میڈیا پر آ چکا ہے کہ میں اس کی تکرار کا خلاصہ یہاں لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ قوم کو معلوم ہے کہ اس بم کی اصل خالق وہ پاکستان آرمی تھی جس کا سربراہ ضیا الحق تھا۔اس آمر ضیا الحق اور صدر غلام اسحاق خاں نے مل کر جوہری قوت کی تشکیل و ترویج میں ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا۔اُس وقت بھی اور آج بھی یہ جوہری اور میزائلی پروگرام پاکستان آرمی کے کنٹرول میں ہے، اور اس کی ہوا بھی کسی سویلین وزیراعظم کو لگنے نہیں دی گئی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اتنا نازک اور حساس ہے کہ اس کو سنبھالنے کے لئے حد درجہ ڈسپلن کی ضرورت ہے۔کچھ روز پہلے انڈیا کے ایک مبصر اور معروف تجزیہ کار پراوین سواہنی کا ایک آڈیو کلپ وائرل ہوا تھا۔ اس کو ضرور سنیئے(اگر پہلے نہیں سنا) …… یہ 25منٹ کا ایک طویل آڈیو کلپ ہے جس میں پراوین نے پاکستان آرمی کی کارکردگی کا ایک نہایت معروضی جائزہ پیش کیا ہے۔ سبرامینم اور پراوین انڈیا کے دو ایسے مبصر اور تجزیہ نگار ہیں کہ ان کی آراء اور استدلال کو جھٹلانا آسان نہیں۔اس کلپ میں پراوین نے یہ موقف دہرایا ہے کہ 28مئی 1998ء کو جو جوہری دھماکے پاکستان نے کئے تھے وہ پاکستان آرمی کی ایما پر کئے گئے تھے اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نواز شریف کو کہا تھا کہ دھماکے کرو…… (اس سے میری مراد یہ نہیں کہ آرمی نے اپنے وزیراعظم کو حکم دیا کہ بٹن دباؤ……) ایسا نہیں تھا……لیکن اس میں شک نہیں کہ 11مئی1998ء کو انڈیا نے جوہری دھماکوں میں جو پہل کی تھی اُس کے جواب کے لئے نواز شریف وزیراعظم پاکستان نے 17روز انتظار کیا تھا۔ مُلک کے کئی دانشور ان دھماکوں کے حق میں نہیں تھے۔ میں ان دِنوں راولپنڈی میں تھا اور میرے ہاں اخبار جنگ بھی آیا کرتا تھا جس میں برادرم مجیب الرحمن شامی کا کالم ”جلسہ ئ عام“ بھی چھپتا تھا۔ ان ایام میں شاید اپنے دو کالموں میں شامی صاحب نے دھماکوں کی پُرزور مخالفت کی تھی۔ اور ان ہی پر منحصر نہیں، بہت سے دوسرے کالم نویسوں اور دانشوروں نے وزیراعظم پاکستان کو رائے دی تھی کہ دھماکوں کا جواب دھماکے نہیں۔اس سے پاکستان کو نقصان ہو گا۔یہ جوہری پروگرام شروع سے آج تک پاکستان آرمی کے ہاتھ میں ہے اس لئے آخری فیصلہ نواز شریف نے نہیں، آرمی نے کرنا تھا…… ہاں آرمی اس کا اعلان نہیں کر سکتی تھی۔ یہ اعلان سویلین قیادت ہی کو کرنا تھا جو اس نے کیا۔
شامی صاحب نے اپنے کل(اتوار) کے کالم بہ عنوان(اپنے آپ کا انکار) میں لکھا ہے:”پاکستانی معیشت کے حوالے سے مَیں خود بھی فکر مند تھا اور وزیراعظم نواز شریف کے طلب کردہ مدیرانِ اخبارات کے اجلاس میں اس کا اظہار بھی کیا تھا۔انہوں نے اس طرف توجہ دی اور سعودی عرب کے حکمران عبداللہ ہماری پشت پر کھڑے ہو گئے۔تیل اُدھار دینے کی(چپکے سے) سے پیش کش کر دی۔ نواز شریف نے بے خوف و خطر دھماکے کر ڈالے اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن قائم کر دیا۔یہ درست ہے کہ ایٹم بم انہوں نے نہیں بنایا۔ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس کی بنیاد رکھی۔ ضیاالحق نے اسے پایہئ تکمیل تک پہنچایا اور اپنا انمٹ نقش ثابت کر دیا۔ نواز شریف نے اسے دُنیا کو دکھا دیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار بھی ناقابل ِ فراموش تھا(اور ہے)“۔
میرا خیال ہے شامی صاحب کا یہ تجزیہ نہایت حقیقت پسندانہ اور متوازن ہے۔ان کا یہ فقرہ کہ: ”نواز شریف نے اسے دُنیا کو دکھا دیا۔“ قابل ِ غور ہے۔ شریف فیملی اور نون لیگ کے رہنماؤں نے جو یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ نواز شریف نے پاکستان کو ایک جوہری قوت بنایا،اس کی قلعی اس فقرے نے کھول دی ہے۔…… ان حضرات کا فرض ہے کہ اگر اب پاکستان کو جوہری قوت میں نواز شریف کے حصے کا ذکر آئے تو یہ کہا کریں: ”نواز شریف نے اسے دُنیا کو دکھا دیا“…… دکھانے اور بنانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے!