سوشل میڈیا پہ وائرل ویڈیوز
سوشل میڈیا پرنازیبا ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہونا ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔ جیسے ہی کسی مشہور شخصیت کی کوئی نازیبا ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہے تو چند منٹوں میں پھیل جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر چند تصاویر گردش کر رہی ہیں جنہیں سوشل میڈیا صارفین سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹ پر شئیر کر رہے ہیں۔ان تصاویر میں موجود خاتون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر قومی تحقیقاتی ادارہ(ایف آئی اے) رانا عمران سعید کی بیوی نورش عمران ہیں اور تصویر میں ان کے ساتھ موجود شخص سٹی پولیس آفیسر(سی پی او) فیصل آباد کیپٹن سہیل ہیں۔نورش عمران پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کی دیانت دار آفیسر اورڈائریکٹر مارکٹنگ پی ایچ اے لاہور کے طور پر فرائض انجام دے چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے عہدے پر بھی کام کر چکی ہیں۔ نورش عمران بطور اسسٹنٹ کمشنر شیخوپورہ بھی فرائض انجام دے چکی ہیں۔ان تصاویر کے بارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے رانا عمران سعید اور سی پی او فیصل آباد کیپٹن سہیل کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ان کی جانب سے ان تصاویر کی کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں خاتون قیدی نے محکمہ جیل خانہ جات کے اعلیٰ افسران پر خواتین قیدیوں سے جنسی زیادتی جیسے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔اس خاتون نے اپنی شناخت چھپا کر خود کو لاہور جیل میں قیدی ظاہر کیا اور کہا کہ جیل خانہ جات کے اعلیٰ افسران خواتین قیدیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں،اس خاتون نے کہا کہ جیل عملے کی جانب سے ان کو اعلیٰ افسران کو خوش کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔
اس خاتون نے موقف اختیار کیا کہ رات کے اوقات میں ایک جیل سے دوسری جیل منتقلی کے نام پر ان کو سیل سے نکال کر ڈی آئی جی دفتر میں لیجایا جاتا ہے جہاں پر موجود افسران کو خوش کرنے کیلئے کہا جاتا ہے خاتون نے کہا کہ اس کام میں اس کے ساتھ اور بھی کئی قیدی لڑکیوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور ان خواتین کو ڈی آئی جی لاہور ریجن ملک مبشر سمیت دیگر افسران کے پاس بھیجا جاتا ہے۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد محکمہ جیل خانہ جات نے فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے سائبرکرائم کو ایک درخواست بھجوائی ہے جس میں محکمے کے ایک اعلی افسر کو بدنام اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے پر اس خاتون کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے جبکہ محکمہ پنجاب پولیس اور ان کے افسران کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی یا انکوائری کی کوئی بات سامنے نہیں آئی اس طرح کے واقعات سے افسران ہی نہیں محکمے کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔سی پی او فیصل آباد اور محکمے کے سربراہ کا خاموش رہنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے محکمہ پولیس کی تو پہلے ہی عوام میں ساکھ بری طرح خراب ہو چکی ہے رہی سہی کسر اس طرح کے واقعات نکال دیتے ہیں۔ مارچ 2018میں بھی اسلام آباد پولیس لائنز میں بھی ایک بڑے جنسی سکینڈل کا انکشاف ہواتھا جس میں پولیس لائنز میں کام کرنے والی خواتین پولیس اہلکاروں نے آئی جی پولیس، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ، وزیر داخلہ، چیف کمشنر کو بھی متوجہ کیا گیا اور ایک بے نامی اجتماعی طور پر لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ انتہائی مودبانہ عرض ہے کہ ہم لڑکیاں پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں مجبوریوں کے بعد دنیا کی ستائی پولیس محکمہ جوائن کیا اور اپنے گھر اوربہن بھائی ماں باپ کو چھوڑ دیا۔
محکمہ میں بھرتی ہونے کے بعد ہم ماں باپ کی بجائے ہماری عزت کا خیال رکھنا سینئر افسران کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں کا م الٹا ہے۔ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کئی کتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ پولیس لائن کا نظام ہی خراب ہے، ڈی ایس پی سے لے کر ایس ایس پی تک جب بھی کوئی پیشی ہوتو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آجا?، ہم آپ کا کام بغیر پیشی کے کر وادیں گے اور ہمیں مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔اسطرح کے واقعات محکمے کا مورال ہی ڈاؤن نہیں کرتے بلکہ عوام کے دلوں میں فورس کے لیے نفرت جنم لیتی ہے،حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہیے اگست 2015میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعے سے متعلق مکمل معلومات فراہم نہ کرنے پر سابق ایڈیشنل آئی جی پنجاب سپیشل برانچ ڈاکٹر عارف مشتاق اوراس وقت کے ڈی پی او قصور کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا تھا۔جب آپ کسی واقعہ کی انکوائری بروقت عمل میں نہیں لائیں گے تو حکومت کی گڈ گورننس پر بھی اثرات مرتب ہونگے۔سی پی او فیصل آبادایک اچھے اور دیانت دار پولیس آفیسرز ہیں،آئی جی پولیس پر لازم ہے کہ ان کی ٹیم کا ایک بڑا آفیسرافواہوں کی ضد میں ہے اصل حقائق کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔جبکہ سوشل میڈیا کو ریاست کے ایک ستون کی سی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے،اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔