”وائرس پھیلنا ہے ،اموات میں اضافہ بھی ہو گا ،ہمیں کورونا کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا“وزیر اعظم کا بیان سامنے آگیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافے سے متعلق پہلے ہی بتا دیا تھا ، کورونا کہیں نہیں جارہا، ہمیں کم از کم اس سال کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہے اور وائرس کے ساتھ زندگی گزارنا ہوگی لہٰذاکچھ شعبوں کےعلاوہ سب کچھ ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے،ٹائیگر فورس کے10لاکھ رضاکاروں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ،عوام احتیاط کریں ورنہ اپنا ہی نقصان ہوگا۔
نجی ٹی وی کے مطابق قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیں جیسےہی کورونا وائرس کےپھیلاؤکاپتہ چلاتو ہم نےنیشنل سیکیورٹی کمیٹی کااجلاس بلایا اورملک میں لاک ڈاؤن لگایا، جب ہم نےلاک ڈاؤن کیا تو اندازہ تھا کہ ہمارے ڈھائی کروڑ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو کماتے ہیں تو پھر اُن کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور ان کے خاندان والوں کا ان ہی پر انحصار تھا، لہٰذا اس طرح یہ تعداد12سے15کروڑ کے قریب بنتی ہےجومتاثر ہورہےتھے،میرے ذہن میں پہلےسےتھاکہ جس طرح کالاک ڈاؤن ووہان میں ہوا، اگر میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نافذ کروں گا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا؟پاکستان میں جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں چاہتا تھا،ہم نے اجتماعات، تقریبات،کھیلوں،سکولوں،جامعات سمیت ہر چیز پر پابندی لگا دی تھی لیکن میں کاروباراورتعمیرات کی صنعت کبھی بند نہیں کرتا، تاہم 18ویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے پاس اختیارات تھے،صورتحال کی وجہ سے صوبوں پر دباؤ تھا لیکن جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا اس نے ہمارے نچلے طبقے کو بہت تکلیف پہنچائی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس جانے نہیں لگا بلکہ جب تک ویکسین نہیں بنتی، ہمیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا، ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے اور امریکا جیسا دنیا کا امیر ترین ملک جہاں ایک لاکھ لوگ مر چکے ہیں، انہوں نے بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے، کورونا وائرس نے پھیلنا ہے،یہ جو اموات بڑھ رہی ہیں یہ پہلے دن کہہ دیا تھا اور پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وائرس سے اموات بڑھیں گی لیکن اگر ہم نے اس وائرس کے ساتھ کامیابی سے گزارا کرنا ہے تو یہ ذمہ داری عوام کی ہے اور جتنا عوام احتیاط کریں گےاور ایس او پیز پر عمل کریں گے،ہم اتنا ہی بہتر طریقے سے اس سے گزارا کر سکیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں نے سمجھا کہ لاک ڈاؤن کھلا ہے اور عام زندگی گزارنی شروع کردی جو لاک ڈاؤن سے پہلے تھی تو ہم اپنا نقصان کریں گے، مثلاً اگر جن علاقوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہو اور ہمیں وہ مخصوص علاقے بند کرنے پڑے تو وہاں کاروبار ختم ہوجائے گا اور لوگوں کو نقصان ہو گا،ہم نے ایک فہرست بنائی ہے اور مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کھول دیا جائے گا، اس میں ان شعبوں کا ذکر ہے جن کو ہمیں بند کرنا ہے اور باقی ہم نے کھول دیےہیں البتہ جہاں خطرہ زیادہ ہےوہ ابھی بھی ہم نےبندرکھے ہوئے ہیں،ہمارے خیال میں سیاحت کھولنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ علاقے صرف تین چار مہینے گرمیوں کے ہوتے ہیں اور ان کا روزگار ہی سیاحت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر یہ دو تین چار مہینے چلے گئے تو ان علاقوں میں مزید غربت بڑھ جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے ذمے داری لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا پڑے گا، اگر ہمیں لوگوں کو غربت سے بچانا ہے اور ساتھ ساتھ وبا کے پھیلاؤ کو بھی کم کرنا ہے کیونکہ اگر یہ وبا آہستہ آہستہ پھیلے گی تو ہمارے پسپتالوں پر دباؤ نہیں پڑے گا اور اس کا عروج گزر جائے گا اور ہمارا معاشرہ بھی برے اثرات سے بچ جائے گا،تما پاکستانی شہری حکومت کی جانب سے بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کریں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ این سی سی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب بڑی تعداد میں بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس سکریننگ کی سہولت محدود تھی اور صوبوں کو اعتراض تھا کہ بڑی تعداد میں بیرون ملک سے شہریوں کو نہ لایا جائے اس لیے محدود تعداد میں پاکستانیوں کو واپس لایا جارہا تھا۔
عمران خان نےکہاکہ اب ہم نےفیصلہ کیاہےکہ بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئےپروازوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پیسے والے لوگ تو ایس اوپیز پر عمل کررہے ہیں لیکن عام آدمی کا کورونا کے حوالے سے مختلف رویہ ہے،بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے لوگ احتیاط کر رہے ہیں اور سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھ رہے ہیں لیکن عام آدمی کا بالکل مختلف رویہ ہے،اس حوالے سے ٹائیگرفورس کے رضاکار لوگوں میں شعور دیں گے کہ کس طرح کورونا کےساتھ رہنا ہے؟کن چیزوں پر عمل کرنا اور کیسے ہم پھیلاؤ روک سکتے ہیں؟۔
وزیر اعظم نے طبی عملے کے نام پیغام میں کہا کہ مجھے سب سے زیادہ اُن کی فکر تھی، ووہان اور اٹلی کی صورتحال کے بعد ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارے فرنٹ لائن پر جنہوں نے جہاد کرنا ہے وہ ہمارے ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں،ہمیں ادراک ہے کہ جب ہم لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرنےلگتےہیں تو وہ اپنے خدشات کااظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ان پر دباؤ بڑھے گا،ہمیں اپنے طبی عملے کی مشکلات کا احساس ہے اور ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ اپنے ڈاکٹرز اور نرسوں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟۔وزیر اعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری معیشت پر برا اثر پڑا ہے اور ٹیکس وصولی 30 فیصد کم ہو چکی ہے،ہماری برآمدات گر چکی ہیں، ترسیلات زر کم ہو چکی ہیں اور سرمایہ کاری رک گئی ہے تو اس لیے ایک طرف ملک کے معاشی حالات پہلے سے خراب تھے اور اگر مزید لاک ڈاؤن کیا تو غربت بڑھے گی۔