اشرف صحرائی۔۔۔تحریک حریت کاتابندہ ستارہ
منزل کی جانب سفرکے دوران بھٹک جانے والوں کو روشن ستارہ بن کر راہ دکھلانے اور ان کی یاسیت اور قنوطیت کو یقین میں مبدل کرنے والے ممتاز حریت رہنما، تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل جناب اشرف صحرائی بھی ظلم وجبر کے تھپیڑوں کو مردانہ وار سہتے سہتے آخرکارموت کی وادی میں جااترے۔ ان کی عمر 80برس تھی اور جب بھارت نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے احتجاج کے خوف سے ممتاز کشمیری حریت و سیاسی رہنماؤں کو حصار میں لیا تھا، تو اشرف صحرائی کو بھی بعدازاں حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے کے باعث جولائی 2020ء میں حراست میں لے لیاگیا۔ انھیں جموں کے کوٹ بلوال جیل میں قید کیا گیا تھا۔ وہ شدید بیمار ہوئے اور نقاہت ازحد بڑھ گئی تو انھیں جموں ہی کے ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے اور شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئے۔ اشرف صحرائی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ سیاسی شعبہ کے سربراہ کے عہدوں پر بھی فائر رہے۔ بعدازاں انھوں نے سید علی شاہ گیلانی کے ہمراہ الگ جماعت تحریک حریت تشکیل دی جس کے وہ سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ جب 2018کے اوائل میں چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے ضعف کے باعث فرائض کی انجام دہی سے معذرت کرلی توپہلی مرتبہ باقاعدہ انتخابی عمل کے ذریعے اشرف صحرائی تحریک حریت کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے بھی فعال رکن تھے۔مارچ 2018ء کے آخر میں بھارتی میڈیا نے ایک خبرپر طوفان کھڑا کردیا اور اسے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا کہ ممتاز حریت رہنما اشرف صحرائی کا نوجوان فرزند جنید حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا ہے۔ جنید کی مجاہدین کے لباس میں اسلحہ کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی تھیں۔ مجاہدین کو سوشل میڈیا کی طرف راغب کرنے کا سہرا برہان مظفروانی کے سر تھا جو جدید ٹیکنالوجی کے اس وسیلہ کے ذریعے نوجوانوں کو مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کی کامیاب ترغیب دیا کرتے تھے۔ جنید اشرف صحرائی بعدازاں 19مئی 2020ء کو سی آر پی ایف کے ساتھ مقابلے کے دوران شہید ہوگئے۔ ان کی نمازجنازہ اشرف صحرائی نے خود پڑھائی۔
اشرف صحرائی ضلع بارہ مولا کی وادی لولاب کے علاقہ تیکی پورہ میں 1944ء میں پیدا ہوئے۔ ان سے بڑے دوبھائی تھے۔ ایک محمدیوسف خان جو تحریک اسلامی کے بانی رہنماؤں میں سے سے ایک تھے اورجن کا انتقال 2016ء میں ہوا، دوسرے قمرالدین خان تھے جو جماعت اسلامی کے مقامی رہنما تھے اور جن کا انتقال 2009ء میں ہوا۔
اشرف صحرائی نوجوانوں میں زور خطابت کے حوالے سے خاصے مقبول تھے۔ انھوں نے مسلم متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر 1987ء میں لولاب حلقہ سے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ یہ انتخابات دھاندلیوں کے باعث خاصا بدنام ہوا اور اس کے بعد ہی اگلے برس1988ء میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلح تحریک حریت کا آغاز ہوا۔
اشرف صحرائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے جہاں سے آپ نے اردو میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اشرف صحرائی نے زمانہ طالب علمی ہی سے مذہبی‘سیاسی وادبی معاملات میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ وہ نظمیں اور نثر لکھتے تھے جن میں سے زیادہ تر مختلف جرائد میں شائع بھی ہوئیں۔ انھوں نے 1969ء سے ایک رسالہ ”تلو“ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا جس میں وہ خود ”صفحہ پاکستان“ کے نام سے کالم بھی لکھتے تھے۔ اس کالم میں پاکستان میں ہونے والے واقعات کو موضوع سخن بنایاجاتا تھا۔ اس رسالہ کو بعدازاں حکومت نے ناپسندیدہ قراردے کر 1971ء میں بند کردیا۔ اشرف صحرائی اس سے قبل 1959ء کے لگ بھگ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرچکے تھے۔ اپنے بڑے بھائی کے توسط سے ان کا رابطہ سید علی شاہ گیلانی سے ہوا اور پھر وہ ان کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ غلام محمد صادق کی حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں آپ پہلی مرتبہ 1965میں گرفتار ہوئے اور20ماہ سے زائد عرصہ تک جیل میں قید رکھا گیا۔اس کے بعد بھی وہ مختلف اوقات میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔انھیں جب جولائی 2020ء میں گرفتار کیا گیا تو پیرانہ سالی کے باعث جیل میں ان کی حالت انتہائی خراب ہوگئی۔وہ اس سے قبل ہی متعدد امراض کا شکار تھے۔ ان کے بیٹوں نے ہائیکورٹ میں مختلف اوقات میں تین پیٹشنز دائر کیں کہ ان کے والد کو جیل میں طبی سہولیات فراہم کی جائیں لیکن عدالت جیل حکام کو بروقت کوئی حکم جاری نہ کرسکی۔ اُدھر جیل حکام نے اشرف صحرائی کی روزبروز بگڑتی حالت کے باوجود ان کی نگہداشت کے ضمن میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی اورجب انھیں سانس لینے میں بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تو انھیں وفات سے ایک روز قبل جی ایم سی ہسپتال منتقل کیا گیا اس طرح تحریک حریت کا یہ چراغ قید وبند کی تندوتیز آندھیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا رہنے کے باوجود پھڑپھڑاتے ہوئے 5مئی کی شام بجھ گیا۔ ان کا جسد خاکی جب لواحقین کے حوالے کیا گیا تو شرط عائد کی گئی کہ ان کی تدفین ابائی علاقہ میں ہی عمل میں لائی جائے گی۔ اشرف صحرائی اس سے قبل وصیت کرچکے تھے کہ انھیں سرینگر کے معروف ”قبرستانِ شہدا“ میں دفن کیا جائے۔ وہ خود پچھلی دو دہائیوں سے سرینگر میں ہی مقیم تھے۔ ریاستی حکام کو خوف لاحق تھا کہ سرینگر میں دفن کرنے کی صورت میں یہ اقدام ایک بہت بڑے احتجاج کا روپ دھار لے گا۔ چناں چہ اشرف صحرائی کی میت ابائی علاقہ کپواڑہ میں لائی گئی اور تیکی پورہ میں ہی انھیں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اس موقع پر موجود ہجوم نے بھارت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی جس کی پاداش میں اشرف صحرائی کے دوبیٹوں مجاہد اور راشد کو 16مئی کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
اشرف صحرائی کی وفات پر پورے کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے سخت غم وغصہ کا اظہار کیا۔ پاکستان کی جانب سے دوران قید انھیں طبی سہولیات فراہم نہ کیے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت ایک منصوبہ کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے سیاسی و حریت رہنماؤں کو جیلوں میں قید اور گھروں پر نظربند کررہاہے تاکہ انھیں ذہنی وجسمانی طور پر زدوکوب کرتے ہوئے طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث دھیرے دھیرے اپنی راہ سے ہٹایاجاسکے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں ممتاز حریت رہنما قید ہیں جن میں محمدیاسین ملک، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، ایازاکبر، ایڈووکیٹ شہیدالاسلام، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، سید شاہد یوسف، شکیل احمد، فاروق احمد ڈار، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین اور ظہور احمد سمیت دیگر متعدد شامل ہیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے یہ اقدام اس کی بوکھلاہٹ کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں۔ اس سے جذبہ آزادی کو کچلنے کے ضمن میں تو کچھ نہ ہوسکا، الٹا اس نے رہنماؤں اور سرکردہ افراد کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے تاکہ انھیں ماورائے عدالت موت سے ہم کنار کردیاجائے اور اس طرح بھارت عالمی سطح پر ہونے والی بدنامی سے بھی بچ جائے لیکن حقائق آخرکار ازخود منظر عام پر آہی جاتے ہیں۔ دنیا بخوبی سمجھتی ہے کہ بھارت نے جو وطیرہ اختیار کررکھا ہے، یہ عالمی قوانین، انسانی حقوق اور انسانیت کے مغائر ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.