امریکہ۔ ایک مختلف دنیا (2)
امریکہ میں قیام کے دوران چھوٹی بیٹی شینل ہمیں Syracuse لے گئی کیونکہ وہ Syracuse یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں Syracuse ریاست نیویارک کا حصہ ہے نیویارک سے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے واشنگٹن ڈی سی سے Syracuse جانے کے لئے کار پر تقریباً سات آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ نسبتاً ایک چھوٹا شہر ہے آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے Syracuse کی ابتداء 1825ء میں ایک گاؤں کی صورت میں ہوئی۔ یہ جگہ کیمیکل اور نمک انڈسٹری کے لئے مشہور تھی۔ وقت کے ساتھ صنعتیں چین اور کئی دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئیں جس سے اس کی آبادی کم ہونا شروع ہو گئی۔ شہر کے اردگرد کئی جگہوں پر جانے کا موقع ملا نیاگرا فال دیکھنے بھی گئے۔ بیٹی کی ایک سہیلی سارا نے جن کا تعلق متحدہ عرب امارات کے عرب خاندان سے ہے اپنے گھر پر ہماری دعوت کی۔بیٹی کے گھر کے قریب ایک پارک تھا جہاں میں سیر کے لئے جایا کرتا تھا۔ اُس پارک کی خاص بات ایک مفت لائبریری تھی یعنی آپ اُس میں کوئی کتاب رکھ سکتے تھے اور کوئی کتاب لے بھی سکتے تھے۔واپس کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
Syracuse یونیورسٹی دیکھنے کا موقع ملا۔Syracuse نجی شعبے کی ایک ریسرچ یونیورسٹی ہے 1870ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی ریاست نیویارک میں یہ نمبر1 ہے۔ یونیورسٹی میں طلباء کی تعداد 21000 ہے اور ٹیچنگ سٹاف 3769 افراد پر مشتمل ہے۔میری بیٹی شینل کے ساتھ یہ خوشگوار اتفاق ہے کہ انہوں نے کینیڈا میں برٹش کولمبیا یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر کیا۔اِس یونیورسٹی کا شمار دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بھی اسی یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں اور اب امریکہ میں صدر جوبائیڈن Syracuse یونیورسٹی میں پڑھے ہیں۔نیویارک کا ٹور کوویڈ 19 کے زور کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔
امریکہ سپرپاور ہے اور بہت بڑا ملک ہے یہاں ہر چیز میں بہت ورائٹی ہے۔ یہاں کی آبادی میں ہر رنگ نسل اور مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ یہ سارا ملک مہاجرین پر مشتمل ہے پھر آبادی میں ایک بڑی تقسیم گورے اور کالوں کی ہے افریقہ سے بڑی تعداد میں سیاہ فام لوگوں کو غلام بنا کر یہاں لایا گیا اور اُن کے درمیان تضادات اب بھی موجود ہیں۔ میں اِن تفصیلات میں نہیں جا سکتا اگر کوئی اس میں دلچسپی رکھتا ہے تو الیکس ہیلے کی کتاب ”روٹس“ پڑھ سکتا ہے۔ ویسے بھی نہ یہ کوئی ریسرچ پیپر ہے اور نہ ہی باقاعدہ سفرنامہ۔ کچھ بکھرے بکھرے خیالات اور مشاہدات ہیں۔ ویسے تو دنیا کے ہر خطے کے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں لیکن لاطینی امریکہ خصوصاً میکسیکو کے باشندے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بھارتی بھی کافی تعداد میں یہاں مقیم ہیں اور کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ مسلمان بھی کافی ہیں مسجدیں، مدرسے اور اسلام کی مختلف فرقے یہاں پائے جاتے ہیں اس کی تفصیلات کے لئے ہمارے سابق بیوروکریٹ، سفیر اور دانشور اکبر احمد کی کتابیں "Journey into Islam" اور Journey into America بڑی مفید ہیں۔
امریکہ کی آبادی 33 کروڑ کے قریب ہے اور رقبہ 9834 ملین کلومیٹر ہے۔ یوں رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے روس نمبر 1 ہے اس لئے ہر جگہ وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ نویاریک،شکاگو وغیرہ کے علاوہ برطانیہ یا یورپ کی طرح بازاروں میں بھیڑ نہیں عام طور پر مارکیٹوں کے درمیان بھی فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر شعبے میں انفرادیت نظر آتی ہے۔ اگرچہ اُن کی زبان انگریزی ہے اور یہ کئی ملکوں میں بولی جاتی ہے،لیکن لہجہ مختلف ہے باقی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز میں وہ مختلف ہیں مثلاً وہاں ٹریفک دائیں ہاتھ چلتی ہے۔ موٹر سائیکل شاید ہی کہیں نظر آئے۔ فاصلہ کلومیٹر میں نہیں بلکہ میلوں سے ناپا جاتا ہے۔ سڑکوں پر سپیڈکی حد بھی مختلف ہے۔ پٹرول کی قیمت کئی ریاستوں میں مختلف ہے۔ بجلی کا بلب جلانا ہو تو بٹن نیچے نہیں اوپر کرنا پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں جائیں تو شاید ہی کسی نے فارمل شو پہناہو ورنہ ہر آدمی نے جاگر پہن رکھا ہو گا اور یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے اور اب تو یہاں بھی یہی رواج چل نکلا ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے Short پہنا ہوتا ہے یہ ایجاد تو ہماری ہے۔ ہمارے ہاں اِسے کچھّا کہا جاتا ہے اور مزدور پہنا کرتے تھے اب اس بات پر غالباً بہت سے لوگ ناک بھون چڑھائیں گے لیکن حقیقت تو یہی ہے اب امریکہ کی کسی چیز کو غلط کہنا تو نامناسب ہے۔ٹمپریچر فارن ہائٹس میں ہوتا ہے، وزن کیلئے پاؤنڈ کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔کچھ عجیب سی بات ہے کہ آپ کا بچہ اسی علاقے کے سکول میں پڑھ سکتا ہے جہاں آپ رہتے ہیں۔کوئی پیر فقیر اور مزار نظر نہیں آیا۔ نظربد سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نظر نہیں آیا پتہ نہیں یہ لوگ کیسے زندگی بسر کرتے ہیں۔
فلیٹس میں ٹمپریچر کنٹرول کا آٹومیٹک نظام ہوتا ہے کم ازکم مضافاتی علاقوں میں مکانات کے درمیان کافی فاصلہ رکھا جاتا ہے، پھر مکانات کے اردگرد چاردیواری بھی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ امریکہ سیٹل ہونے کے خواہش مند ہیں کم از کم میں کبھی نہیں رہا نہ اب ہوں۔ امریکہ میں دلچسپی کی دو تین وجوہات ہیں، انصاف اور امن و امان تو یورپ اور دوسرے کئی ممالک میں بھی ہے ہمارے ہاں اور شاید ہمارے جیسے دوسرے ممالک میں ہر شخص کو زندگی میں دو تین چیلنج درپیش ہوتے ہیں مثلاً بچوں کی اچھی تعلیم، مکان کی تعمیر اور ذاتی ٹرانسپورٹ۔ امریکہ میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے وہاں کی ڈگری کے ساتھ آپ دنیا میں کہیں بھی جاب کر سکتے ہیں۔ مکان اور گاڑی کی خریداری کیلئے بینک بڑی آسانی سے قرض دیتے ہیں، کچھ رقم آپ ایڈوانس جمع کرائیں اور پھر باقی رقم کیلئے ماہانہ تنخواہ میں سے کٹوتی کراتے رہیں۔ گویا اِن دونوں چیزوں کا حصول بہت آسان ہے۔ ہمارے ہاں اپنا مکان بنانا ایک بہت بڑا کام ہے۔گاڑی خریدنا بھی کچھ عرصہ پہلے تک عام آدمی کیلئے تقریباً ناممکن تھا۔ پرویز مشرف کے زمانے میں شوکت عزیز نے اس مقصد کیلئے بینکوں سے قرضہ لینا آسان بنایا۔ آج گاڑیوں کی کثرت کی یہ ایک بڑی وجہ ہے پھر ایک وجہ یہ کہ امریکہ کے پاسپورٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس پاسپورٹ کے ساتھ آپ دنیا کے اکثر ملکوں میں ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں۔ گویا انسان کے بنیادی مسئلوں کا مناسب حل یہاں ہر آدمی کو آسانی سے دستیاب ہے اور پھر عام آدمی کو یہاں ذات بات اور Status کا مسئلہ بھی درپیش نہیں اس لئے یہ Ambitious اور ٹاپ ناچرز کے علاوہ عام آدمی کیلئے بھی اچھی جائے پناہ ہے۔
نوٹ: بعض ناگزیر وجوہات کی بنا ء پر یہ کالم بہت دیر سے شائع ہو ا ہے۔